منزل انھیں ملی

نجمہ عالم  جمعرات 13 اگست 2015
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں۔ ماشااﷲ اپنا 68 واں جشن آزادی منارہے ہیں۔ آپ سب کو یوم آزادی مبارک ہو، میں نے اپنے طلبہ کو بڑے پر جوش انداز میں یوم آزادی کی مبارکباد پیش کی۔ اچھا ہم آزاد ملک کے شہری ہیں تو پھر ہم اتنے قرضوں میں کیوں جکڑے ہوئے ہیں؟ ہمارے ٹیکس میں اضافے اور اشیائے ضرورت کی قیمتیں ہم آئی ایم ایف کے کہنے پر کیوں مقرر کرتے ہیں؟ ایک منہ پھٹ طالب علم نے ایک ہی سانس میں اتنے سوالات کر ڈالے۔ قبل اس کے کہ میں اس کو مطمئن کرتی ایک اور صاحبزادے فرمانے لگے ’’میڈم! گزشتہ دنوں ایک ایسی جماعت نے آزادی ریلی نکالی تھی جومیں نے کہیں پڑھا تھا کہ وہ قیام پاکستان کی سخت مخالف تھی۔ کچھ اور لوگ بھی خود کو پاکستان کا وارث قرار دے رہے ہیں جنھوں نے تحریک آزادی میں ایک نعرہ بھی نہیں لگایا تھا۔ اگرچہ میں لاجواب ہوچکی تھی مگر اپنا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔

بھئی یہ سب کیا ہے کہہ دیا نا کہ ہم آزاد ملک کے آزاد شہری ہیں اور یہ ہم سب کا حق ہے کہ اپنے جذبات کا اظہار کریں جب پاکستان قائم نہیں ہوا تھا تو مخالفت اس وقت کی تھی مگر جب پاکستان معرض وجود میں آ ہی گیا تو آخر وہ بھی تو اسی ملک کے شہری ہیں۔ لہٰذا ان ہی لوگوں سے ہمیں وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ تیسرے صاحبزادے گویا ہوئے اس مملکت کے بانی تو قائد اعظم ہی ہیں نا۔ ہاں بالکل ہیں مجھے بے حد مسرت سے ارشاد فرمایا۔تو پھر زیارت میں قائد اعظم ریذیڈینسی کو کس نے نذر آتش کیا؟ مزار قائد پر عین قائد کی قبر کے نیچے اس کی بے حرمتی کرنے والے کون تھے؟ کیا یہ سب پاکستانی نہیں ہیں؟ آزاد ملک کے گلی کوچوں میں خوف و ہراس کیوں بکھرا ہوا ہے؟ آزادی تو ہم نے بدیسی حکمرانوں کے ظلم و جانبداری، نا انصافی اور ہندوؤں کے تعصب سے تنگ آکر حاصل کی تھی۔ اب جب کہ آزاد ہیں تو سب کو انصاف کیوں میسر نہیں، ہر شخص علاقائی، لسانی، مذہبی تعصب کا شکار کیوں ہے؟

ملکی دولت چند افراد کے ہاتھوں میں اور عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم کیوں ہیں۔ اب تو اس ملک پر انگریزوں کی حکومت نہیں ہم نے ان کی غلامی سے آزادی حاصل کرلی، غلامی سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا۔ شکر ہے کہ پیریڈ ختم ہوگیا کیوں کہ میں لا جواب تھی اور طلبہ جواب طلب۔ طلبہ کلاس سے چلے گئے اور میں سوچتی رہ گئی۔ آزادی نے مظالم کا صرف انداز بدل دیا مظالم تو اب بھی ہیں۔ تحریک آزادی کے لیے جان و مال، عزت و آبرو کی قربانی دینے والے کو نہیں ملی بلکہ بد عنوانوں، رشوت خوروں، ملک کے ہر شعبے کو تباہ کرنے والے جاگیرداروں اور لٹیروں کو ملی ہے جس کے پاس ذرا سی بھی مالی، اقتدار کی، اکثریت کی، قبیلے اور برادری، دھونس دھاندلی کی طاقت ہے وہ تمام کمزوروں کو کچلنے، ان کے حقوق سلب کرنے کے لیے آزاد ہے، ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں، جتنا چاہے عوام کا خون چوسو کوئی تمہارا ہاتھ نہیں پکڑے گا۔

وہ لوگ جنھوں نے حق گوئی و بے باکی، کلمہ حق کو ہر صورت بلند رکھنے کو اپنا شعار بنایا ان کے گھر ضروریات زندگی سے بھی محروم رہے اور جنھوں نے حکمرانوں کی طاقتوروں کی صاحبان اقتدار کی خوشامد و چاپلوسی کی، وہ راتوں رات ایوان اقتدار کے اہم فرد بن گئے۔ جو معاشی، معاشرتی کے علاوہ جان و مال کی قربانی دے کر آزادی کی نعمت پانے پر سجدہ شکر بجا لائے اور پھر نوزائیدہ مملکت کے لیے مزار قائد کے ارد گرد جھونپڑیاں، لالوکھیت کے ٹین کی چھت کے ایک کمرے کو عالیشان حویلی سمجھ کر رات دن ایمانداری، محنت اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار صرف اور صرف ملک کو اس کی شناخت دینے اور اس کی ترقی کی راہ ہموار کرنے میں لگ گئے۔ ان کی اولاد کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں اہلیت و لیاقت کی بنیاد پر بھی ان کا حق نہ ملا۔ آگے چل کر رہی سہی کسر کوٹہ سسٹم نے پوری کردی۔ وہ ملک جو دیانت و محنت سے بہت جلد ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتا تھا وہ نالائقوں، نا اہلوں کے ہر شعبے پر چھاجانے سے کباڑیے کی دکان بن گیا۔ سیاست شرافت کا دوسرا نام تھا اور سیاست دان ملک کے ہر شعبے کی بہتری کی فکر کرتے تھے، آج ہر سیاسی جماعت اور ہر سیاست دان صرف اپنے مفاد کی سوچتا ہے۔

ماضی کے سیاست دان تمام تر مشکلات کے باوجود اپنے سیاسی موقف سے انحراف نہ کرتے تھے، آج کے سیاست دان صرف کرسیٔ اقتدار کے لیے ہر اصول کو بالائے طاق رکھ کر ایک پارٹی سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں شامل ہوجاتے ہیں، قوم کی خدمت مطمع نظر نہیں صرف اقتدار پر نظر ہے۔ جس ملک میں کئی برس سے سیلاب، تباہی پھیلارہاہے وہاں کسی کو اس آفت سے بچاؤ کی تدبیر کرنے کا خیال تک نہیں، البتہ غیر ملکی امداد بٹورنے کی فکر دامن گیر ہے۔ 68 واں یوم آزادی مناتے ہوئے ملک میں آج بھی بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے مسائل نہ صرف موجود ہیں بلکہ پہلے سے زیادہ ہیں ملک کی کثیر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے یا بھیک مانگ رہی ہے ہزاروں بچے تعلیم حاصل کرنے کی بجائے کچرا چن کر ایک وقت کی روٹی حاصل کر پارہے ہیں کسی بھی جائز اور قانونی کام کے لیے بھی رشوت دیے بغیر کام نہیں چلتا۔

زندگی کا کوئی شعبہ نہیں بچا جہاں بد عنوانی نے پنجے نہ گاڑ لیے ہوں، ملک و قوم کے محافظ، قانون نافذ کرنے والے محکمہ صحت و تعلیم حتیٰ کہ عدلیہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں افرا تفری، بد نظمی نہ ہو، عدالتوں سے ملزم فرار ہوجاتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے منہ تکتے رہ جاتے ہیں جب کہ شرفا کو راہ چلتے کوکسی بھی جرم پر پکڑ لیا جاتا ہے، ان ہی وجوہات کی بنا پر شرفا حیران ہیں کہ اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کیسے کریں جو ان کی حفاظت پر مامور ہیں، ان کے ذاتی نہیں سرکاری قید خانوں (تھانوں) سے ان کے گھر کی خواتین اور معصوم بچے بازیاب ہورہے ہیں، کار سرکار انجام دینے والے اپنی محدود تنخواہ کے باوجود بڑے بڑے بنگلوں، سیکڑوں بسوں، چنگ چی رکشوں کے مالکان ہیں،خواتین اور معصوم بچیوں کی عصمتیں محفوظ ہیں نہ کم عمر لڑکے بد کرداری سے بچے ہوئے ہیں۔

آخر یہ کون لوگ ہیں جو ملکی دولت کا اتنا ذخیرہ رکھتے ہیں یہ وہی ہیں نا جنھوں نے آزادی کے لیے کوئی قربانی دی نہ ایک نعرہ ہی لگایا آج وہ صرف مٹی کے سپوت ہونے کے ناتے ملک کے مالک و مختار بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک سے لٹیروں کو بھاگ جانے کی بھی بہترین سہولت حاصل ہے اور وہ جو تعلیم حاصل کرنے کے باوجود روزگار سے محرومی اور برسوں کی جد وجہد کے باوجود اپنے بوڑھے محنت کش باپ کو بیماری و ضعیفی میں بھی آرام پہنچانے کے لیے کام نہ ملنے پر چند سو روپے کی چوری یا ہیرا پھیری کریں تو وہ قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے کیوں کہ ان کے پاس اپنے محافظوں کو چائے پانی کا خرچہ دینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا۔

وہ جو پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرچکے ہیں، کررہے ہیں اور کسی بھی اعلیٰ منصب کے حصول سے اپنی اہلیت وقابلیت کے باوجود تا حال محروم ہیں وہ غدار وطن اور جنھوں نے ملک کو لوٹ کر یہ حال کردیا وہ نہ صرف محب وطن ہیں بلکہ معمار وطن بھی، کیوں کہ طاقت، دولت و اقتدار سب ان کے پاس ہے انھوں نے اپنا مستقبل بیرون ملک محفوظ کرلیا ہے، اگر کبھی کوئی (خدانخواستہ) ان کا احتساب کرے گا ان پر کوئی آنچ آئے گی تو وہ دیس چھوڑ کر با آسانی نکل جائیںگے اور جہاں بھی جائیںگے راوی وہاں چین ہی چین لکھے گا ان کا بندوبست مکمل ہے۔ یہ سب حقائق ہیں مگر بہرحال ہم جشن آزادی مبارک تو ضرور دیںگے اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ اس ملک کو حقیقی معنوں میں آزاد رکھے۔ ہر جشن آزادی پر محسن بھوپالی کا یہ قطعہ جانے کیوں بہت یاد آتا ہے:

راہ سفر میں خود جوکبھی معتبر نہ تھے
نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھیے

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
کیا یہ سچ نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔