کامیابی، قسمت اور محنت

وجاہت علی عباسی  پير 17 اگست 2015
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

کل ایک مشہور انگریزی فلم دیکھ رہے تھے “Fifty Shades of Grey” جس میں ایک بلینر کہتا نظر آتا ہے کہ میں جتنی محنت کرتا ہوں اتنی ہی قسمت میرے ساتھ ہوتی جاتی ہے۔ ہم اکثر لوگوں کو دیکھ کر سوچتے ہیں کہ کیا قسمت ہے اس کی، دیکھو کتنا کچھ پالیا اس نے دنیا میں، لیکن کسی کی نظر اس کی محنت پر نہیں جاتی، کامیابی قسمت سے ملتی ہے لیکن قسمت بیشتر وقت محنت سے بنتی ہے۔

عمران خان کرکٹ کے آل راؤنڈرز میں سے ایک کامیاب ترین پلیئر ہیں۔ یقیناً ان کی قسمت اچھی تھی اس لیے انھوں نے یہ عروج دیکھا لیکن اس ’’قسمت‘‘ کے لیے انھوں نے بہت محنت کی۔ LUCK یعنی قسمت ایک ٹرافی کی طرح ہوتی ہے جو آپ کو کبھی نہ کبھی محنت کی راہ میں مل جاتی ہے وہ محنت جس کی منزل آپ کے ذہن میں کامیابی ہوتی ہے اور ’’لک‘‘ مل جانے سے کامیابی کا سفر تیز ہوجاتا ہے۔

غلط ہے اپنے بچوں سے یہ کہنا کہ تم کو پڑھ لکھ کر اپنا گھر خود چلانا ہوگا، تم کسی بڑے باپ کے بیٹے نہیں ہو جو تم کو رشوت دے کر یا سفارش سے نوکری مل جائے گی، ہم اکثر انجانے میں اپنے بچوں کے کچے دماغوں میں یہ بات بٹھادیتے ہیں کہ وہ معاشرے میں دوسرے سے کم ہیں اور انھیں زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے بے تحاشا تگ و دو کرنی ہوگی۔

سچ یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی انسان نے سفارش اور رشوت سے وہ ترقی حاصل نہیں کی جو محنت سے حاصل کی، ورنہ دلی کا کوئی عام سا لڑکا کبھی ’’شاہ رخ خان‘‘ نہ بنتا اور امیتابھ بچن کا بیٹا پندرہ سال سے فلموں میں آنے کے باوجود اسٹار نہ بن سکا، ایسا نہیں ہوتا، ہاں یہ ضرور ہے کہ سفارش یا رشوت کے بل بوتے پر کوئی باپ اپنے بیٹے کو میدان تک تو پہنچا دے گا لیکن وکٹ پر کھڑے ہوکر بلا اسے خود ہی گھمانا ہوگا اور اس وقت ’’لک‘‘ سفارش دیکھ کر نہیں آتی، آپ کے پاس محنت سے آتی ہے۔

چاہے آپ کے وسائل نہ بھی ہوں پھر بھی بچوں کو یہی یقین دلانا چاہیے کہ کل تم دنیا کے سب سے کامیاب انسان بنوگے، تم کو بڑے ہوکر نوکری صرف اس لیے نہیں کرنی ہوگی کہ اپنا گھر چلاؤ بلکہ اس لیے کہ آج محنت کرنی ہے تاکہ آنے والے کل میں دنیا کو بدل سکو، اگر بچہ خود یہ سوال کرے کہ میں یہ سب کیسے کرسکتا ہوں؟ تو اسے جواب دیں کہ جیسے سندر پچھائی نے کیا۔

سندر انڈیا کے علاقے چنائی میں رہنے والے ایک عام سے لڑکے تھے، کوئی بات ایسی خاص نہ تھی جو انھیں عام لڑکوں سے جدا کرتی، گھر کے حالات بھی کوئی بہت زیادہ اچھے نہیں تھے، ان کے والد ایک چھوٹی سی کمپنی میں الیکٹریکل انجینئر تھے، بہت غریب نہیں تھے وہ لوگ، لیکن ایک اسکوٹر خریدنے کے لیے بھی سندر کے والد کو تین سال تک پیسے جوڑنے پڑے تھے۔

سندر کے والد نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک اچھی بات کی، دن بھر جب وہ کام کرکے واپس آتے تو تھکن کی شکایت نہیں کرتے کہ سارا دن انھیں بھاری مشینوں کے ساتھ کام کرنا پڑا بلکہ وہ اپنے بیٹے کو یہ بتاتے کہ زندگی میں انھیں کیا چیلنج ملے اور انھوں نے ان کا کس طرح سامنا کیا۔ اس سے سندر کو زندگی کی مشکلات یا ان کا حل ڈھونڈنا ایک گیم جیسا لگنے لگا نہ کہ امتحان جیسا، جسے آپ جوش سے کھیلتے ہیں ڈر کر محض پار کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔

سندر کے والد اس سے بھی مشورہ کرتے کہ بتاؤ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پھر وہ سندر کو پانچ منٹ اکیلے سوچنے کو چھوڑ دیتے اور کہتے اب تم اس کا حل نکالو جس سے ان میں لیڈر شپ کوالٹی اور سیکھنے کی استعداد پیدا ہوتی، چاہے سندر کا بتایا ہوا حل درست نہ بھی ہوتا پھر بھی ان کے والد ان کی ہمت افزائی کرتے جس سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا۔

سندر کے والد نے انھیں یہ بھی سکھایا کہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی اہمیت سمجھو، اپنی یادداشت کو بہتر بنانے کی کوشش کرو جس پر سندر نے بچپن سے ہی کام کیا، ان کے والد کسی بھی وقت، کسی بھی رشتے دار کا فون نمبر پوچھ لیتے اور وہ انھیں یاد ہوتا اسی لیے انھیں زندگی میں یاد کیا کوئی نمبر کبھی نہیں بھولا۔

دماغی محنت کے ساتھ وہ جسمانی محنت بھی کرتے، کرکٹ کھیلتے اور اس میں اپنی پوری جان لگادیتے، اسی لیے وہ اپنے اسکول کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی تھے، سندر میں کچھ بہت خاص نہیں تھا لیکن ان کے والد نے انھیں ’’خاص‘‘ بننے کا طریقہ سمجھایا جو ’’محنت‘‘ ہے اور انھیں اعتماد دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی، خود حالات بہت اچھے نہیں تھے لیکن پھر بھی اپنے دونوں بیٹوں کو انڈیا کے بہترین انجینئرنگ کالج یعنی ’’آئی آئی ٹی‘‘ میں بھیجا۔

سندر نے انجینئرنگ مکمل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ پر امریکا آگئے۔ انھوں نے یہاں دو ماسٹرز کیے اور پھر اپنے کیریئر کا آغاز امریکا سے ہی کیا، 2004 میں انھوں نے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ’’گوگل‘‘ میں کام کرنا شروع کیا لیکن سندر اس کمپنی کے ہزاروں ملازمین میں سے ایک تھے، کوئی بڑی یا خاص پوزیشن نہیں تھی لیکن انھوں نے محنت، اعتماد اور مسائل کا سامنا کرنے اور ان کا حل تلاش کرنے کی اپنی خوبیوں کو اور جلا بخشی۔

2008 میں گوگل کے مالک نے سندر کو اسٹیج پر کچھ پیش کرنے کو بلایا، اس وقت کوئی سندر کا نام بھی صحیح طرح ادا نہیں کر پارہا تھا ہال میں، لیکن آج 2015 میں پوری دنیا سندر کا نام لے رہی ہے۔

سندر پچھائی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی “Google” کے CEO ہیں، ان کی نیٹ ورتھ اس وقت ڈیڑھ سو ملین ڈالرز ہے اور دنیا کے ٹاپ ٹین اسٹرانگ سی اوز میں سے ایک ہیں۔

آج ان کا چرچا دنیا بھر میں ہے لیکن آج بھی جب وہ کسی بڑی میٹنگ میں ہوتے ہیں اور کسی مسئلے میں پھنس جاتے ہیں تو وہ کمرے سے پانچ منٹ کے لیے نکل جاتے ہیں اور پھر اس کا حل لے کر واپس آتے ہیں، اس پانچ منٹ میں وہ وہی بچہ ہوجاتے ہیں جو جانتا ہے کہ محنت کریں تو قسمت بھی آپ کے ساتھ ہوتی ہے۔

ہمارے ہر بچے میں ’’سندر‘‘ موجود ہے، اسے ختم نہ ہونے دیں، اپنے بچوں کو سمجھا دیں کہ آج ’’سندر‘‘ وہاں ہوسکتا ہے تو کل تم کیوں نہیں؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔