انقلابی عمل مگر کس قسم کا

انتظار حسین  پير 14 ستمبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

اس وقت ہمارے ارد گرد اتنا کچھ ہو رہا ہے اور اتنی تیزی سے ہو رہا ہے کہ عقل گم ہے۔ محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ یہ اپنی چھوٹی سی دنیا جو کسی مثبت تبدیلی کی جوگی نظر نہیں آتی تھی جیسے اسے کسی آندھی نے آ لیا ہو۔ تو کیا واقعی ہم کسی انقلابی عمل سے گزر رہے ہیں لیکن انقلاب کا تصور تو کچھ اور چلا آ رہا تھا۔ سر پھوٹیں گے خون بہے گا۔ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی۔ تاج گرائے جائیں گے۔ انقلاب کے اس رومانی تصور میں سر پھوٹیں گے‘ خون بہے گا‘ کا سب سے بڑھ کر عمل دخل تھا۔ انقلاب کا یہ رومان سب سے بڑھ کر اس عمل کا مرہون منت نظر آتا تھا۔

مگر یہ عمل موجودہ انقلابی عمل سے اگر وہ انقلابی عمل ہے یکسر غائب ہے۔ بس اچانک ایک دھماکا ہوتا ہے کہ فلاں شخصیت زیر عتاب آ گئی۔ پکڑ دھکڑ۔ حویلی سے نکلے، سوئے زنداں چلے

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں

ایک ہو‘ دو ہوں‘ تین ہوں۔ یہاں تو قطار لگی ہوئی ہے۔ جو تھوڑا سا شور مچتا ہے۔ احتجاج ہوتا ہے۔ دھمکی بھی آتی ہے۔ خبردار‘ ہوشیار۔ یہی طور رہا تو جنگ‘ جنگ‘ جنگ۔ مگر پھر سناٹا۔ اور ہاں کس کس کے قبضہ سے کتنی کتنی وسیع و عریض زمین دم کے دم میں چھڑا لی گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے‘ یہ کیوں ہو رہا ہے۔

اس وقت اس باب میں تین ردعمل بہت نمایاں ہیں۔ ایک وہ گروہ جو اس ملک کے سیاہ و سفید کا مالک چلا آ رہا تھا‘ اسے اور اس کے تابعین کو مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ ساتھ میں انھیں اپنی خانہ زاد جمہوریت بھی ڈولتی نظر آ رہی ہے۔ اسی کی تو وہ روٹی کھاتے ہیں۔

دوسرا گروہ وہ ہے جو اس عمل پر بہت خوش ہے یہ سوچتے ہوئے کہ جس نجات دہندہ کا اس قوم کو انتظار تھا وہ بالآخر نمودار ہو چکا ہے۔

تیسرا گروہ ’میں نہ مانوں‘ والوں کا ہے۔ یہ لوگ عجب دبدا میں گرفتار ہیں۔ سمجھ نہیں پا رہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھا ہو رہا ہے یا برا ہو رہا ہے۔ ایک شک‘ ایک چڑچڑاہٹ ان کے دم کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ جب انھیں بتایا جاتا ہے کہ وہ دیکھو فلاں دھنا سیٹھ بھی گرفت میں آ گیا تو وہ چڑ کر کہتے ہیں کہ فلاں دھنا سیٹھ کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ وہ اپنی جگہ مطمئن بیٹھا ہے۔ اصل میں یہ وہ آدرش پرست ہیں جنہوں نے پچھلی دہائیوں میں باری باری کس کس تحریک اور کس کس ہیرو سے توقعات وابستہ کی تھیں مگر ہر مرتبہ مایوسی کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ پچھلی صدی کا قصہ ہے۔ بیسویں صدی خوابوں اور رومانوں کی صدی تھی۔ سب سے بڑا رومان سوشلزم کا رومان تھا۔ اور یہ رومان کچھ اس شان کے ساتھ نمودار ہوا کہ پوری صدی پر چھا گیا۔ اور اس طرح پروان چڑھا کہ ایک سپر پاور بن کر سرمایہ دار طاقتوں کے خلاف صف آرا نظر آیا۔

ہمارے جنوبی ایشیا میں اس کی مار ادب تک رہی۔ اسی عمل میں چند ایک انقلابی نمودار ہوئے۔ مگر جلد ہی اس تحریک کا چراغ جھلملانے لگا۔ بہت جلدی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ہاں ایک وقفہ کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کے ساتھ نمودار ہوئے تو ان امیدوں میں پھر جان پڑ گئی۔ یہ تحریک بہت زور شور سے چلی۔ مگر اس کے ساتھ ایک حادثہ گزر گیا۔ اسے اقتدار بہت جلدی میسر آ گیا۔ بعض تحریکوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ لمبی جدوجہد کے بعد بھی اقتدار کی منزل پر نہیں پہنچ پائیں کہ اپنے خوابوں کو جامہ عمل پہنا سکیں۔ بعض تحریکوں کو ان کی فوری کامیابی لے بیٹھتی ہے۔ بھٹو صاحب آندھی دھاندی نمودار ہوئے‘ کتنی جلدی منزل مراد پر پہنچے۔ بس اس کے ساتھ اس تحریک کے آدرشوں کا زوال شروع ہو گیا۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

پھر ہمارے قومی مطلع پر ایک اور ستارہ نمودار ہوا۔ بھٹو صاحب کی شخصیت سے سوشلزم کا گلیمر وابستہ تھا۔ خیر یہ گلیمر بہت شاندار تھا۔ مگر ہماری چھوٹی سی دنیا میں کرکٹ کا گلیمر بھی بہت بڑا گلیمر ہے۔ کتنے نوجواں یا یوں کہئے کہ نئی نوجوان مخلوق اس ستارے کی گرویدہ ہوتی چلی گئی۔ مگر پھر یہاں بھی وہی ہوا کہ کتنی جلدی چمکے دمکے۔ پھر جلدی ہی چمک دمک ماند پڑتی چلی گئی۔ اور جس طبقہ کا ذکر ہوا اس وقت اس کا عالم یہ ہے کہ دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ اور غالبؔ کا یہ شعر ان کے ذیل میں پیش نظر رکھئے کہ ؎

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

جنرل راحیل شریف کی موجودہ مقبولیت کسی گلیمر کسی رومانیت کی مرہون منت نہیں ہے۔ ان مقبولیتوں کا احوال تو ہمارے سامنے ہے۔ جنرل راحیل شریف ایسے وقت میں نمودار ہوئے جب پاکستانی فوج کی رومانی مقبولیت کا دور گزر چکا تھا۔ اس مقبولیت کا نقطہ عروج 65ء کی جنگ تھی۔ وہ جنگ واقعی چند ایسے سپاہیوں اور ہوا بازوں کو میدان کارزار میں لائی کہ ان کی وجہ سے جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ یہ بحث لا یعنی ہے کہ اس جنگ میں ہمارے نصیبوں فتح لکھی گئی تھی یا شکست۔ یہ دیکھئے کہ

مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا

جنرل راحیل شریف کے آتے آتے فوجی آمروں کی مسلسل آمد و شد نے اس مقبولیت کو پس منظر میں دھکیل دیا تھا۔ اور اس وقت عالم یہ تھا کہ دہشت گردوں کی یلغار سے پوری قوم سہمی ہوئی تھی۔ جنرل موصوف نے نمودار ہوتے ہی ایسے تیور دکھائے کہ لوگ پہلے تو چونکے۔ پھر میدان جنگ کو اس طرح گرم ہوتے دیکھا کہ دہشت گرد پسپا ہوتے جا رہے ہیں اور لوگوں کا اعتماد فوج کی جانبازی میں بحال ہوتا جا رہا ہے۔ میدان جنگ میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے ساتھ جنرل موصوف کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تو اس مقبولیت کی بنیادیں زیادہ پختہ ہیں لیکن پھر وہی بات کہ دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کے پیتا ہے۔ جنہوں نے پچھلی مقبولیتوں کو دیکھا ہے اور بھگتا ہے وہ اپنے شکوک و شبہات سے نجات حاصل کرنے میں کچھ وقت تو لیں گے۔ تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بیشک وہ پہلے تیل دیکھیں‘ تیل کی دھار دیکھیں اور اطمینان کر لیں کہ یہ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو رہی ہے جس کے ذیل میں اب کرپشن کے خلاف اقدامات ہو رہے ہیں وہ ہمارے لیے پاکستان کی بہتری کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں ع

اور اس پر بھی نہ سمجھے تو تجھ بت کو خدا سمجھے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔