عید ،بقر عید پہلے اور اب

انتظار حسین  جمعرات 24 ستمبر 2015
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

بارے سلونی عید کا کچھ بیان ہو جائے۔ عید جو گزر گئی وہ میٹھی عید تھی۔ اس دن دودھ سویوں کی ریل پیل تھی۔ ایک سویوں سے قسم قسم کی میٹھی غذائیں تیار کی گئی تھیں۔ تو وہ میٹھی عید گزر گئی۔ اب سلونی عید کی گہما گہمی ہے۔ کہہ لیجیے نمکین عید۔ اسے سلونی عید کہئے، عید قربان کہئے، عید الضحیٰ کہئے، عید الاضحیٰ کہئے۔ کتنے زمانے تک کہنے والے جن میں شاعر بھی شامل تھے اسے عیدالضحیٰ کہتے رہے۔ اب علماء نے تصحیح کی کہ اسے عید الاضحیٰ کہو۔

یار پوچھتے ہیں کہ عیدالفطر ہی تو عید نہیں تھی۔ عید تو یہ بھی ہے۔ بلکہ بڑی عید ہے۔ پھر اس عید پر اتنی گہما گہمی، اتنی چہل پہل کیوں نہیں۔ اس عید پر وہ سماں کیوں نہیں ہوتا۔ ارے صاحب کیسے ہو۔ عیدالفطر میں کوئی فکر دامن گیر نہیں ہوتی۔ صبح نور کے تڑکے اٹھے، غسل کیا، عید کے لیے جو نیا لباس تیار کیا گیا تھا اسے زیب تن کیا، بن ٹھن کے چلے نمازِ عید پڑھنے۔ پہلے تو عید کی نماز عیدگاہ میں پڑھتے تھے، کھلا میدان۔ عیدگاہ میں نماز ہو رہی ہے۔ یار مصافحہ کر رہے ہیں، گلے مل رہے ہیں۔ عید مبارک عید مبارک کا شور پڑا ہوا ہے۔ سامنے عید کا میلہ لگا ہے۔ بچے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کھلونے خریدے۔ پھٹ پھٹیا گاڑی، غبارے، ببوا۔ کھلونے گنتے جایئے، خریدتے جایئے۔

بقرعید پر یہ سب کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے اور بساط بھر کیا بھی جاتا ہے مگر بیچ میں آ جاتا ہے قربانی کا بکرا۔ اور قصاب۔ ایک تو قربانی کے بکرے کے نخرے، اس سے بڑھ کر قصاب کے نخرے۔ قربانی کا اہتمام کرنے والے ان دو نخروں کے درمیان پس جاتے ہیں۔ بکروں کے نخرے اٹھانے کا مسئلہ بچوں کے سپرد کرتے ہیں۔ خود قصاب کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ آج ہی تو قصاب کی مانگ سب سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ وہ نخرے آج نہیں کرے گا تو پھر کب کرے گا۔ نکلے ہوئے ہیں اس کی تلاش میں۔ لیجیے قصاب دستیاب ہو گیا۔ اب اس کے مطالبے اور نخرے۔ ان دو نخروں کے بیچ آ کر بقرعید کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔

خیر جب بکرے کے گلے پر چھری پھر جاتی ہے۔ گوشت کی بوٹیاں بن جاتی ہیں۔ جلدی جلدی ہنڈیا پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر اور سب سے پہلے بھنی کلیجی کا چٹخارہ۔ لیجیے اب خوشی ہی خوشی ہے۔ عید ملو، عید مبارک کہو۔ قسم قسم کی گوشت کی ڈشوں سے مہمانوں کی تواضع کرو۔ پھر شاعروں کی سنو۔

وہ زمانہ گزر گیا کہ شاعر عید کی خوشی میں نیا قصیدہ کہتے اور دربار کا رخ کرتے۔ سوداؔ اپنے زمانے کے نامی گرامی قصیدہ نگار، قصیدہ خواں۔ کیسا کیسا قصیدہ لکھ گئے ہیں۔

جہاں میں شادیٔ عیدالضحیٰ ہے آج کے روز
خوشی دلوں میں ہے، لب ریز قاف تا قاف
اور سنئے، نئے برس کی عید قرباں، نیا قصیدہ:
جہاں میں زیر فلک آج عید قرباں ہے
ہر ایک خرم و مسرور، شاد و خنداں ہے
اس سے بڑھ کر یہ قصیدہ:
رہے جہان میں جب تک کہ رسم قربانی
ہمیشہ تا کہ بجا لاویں حج و عمرہ عباد

اور حج و عمرہ کا ذکر آ گیا ہے تو پھر اس بیان میں سب سے بڑھ کر حضرت داغؔ نے مضمون باندھا ہے:

بے خبر تجھ کو خبر بھی ہے کہ عید آئی ہے
عید حج کہتی ہے اس عید کو سب خلق اللہ
حج ہے کیا چیز، یہ وہ چیز، یہ وہ نعمت ہے
مدت العمر کے ہو جاتے ہیں سب عفوِ گناہ
آئے ہیں مکہ میں باہر سے مسافر لاکھوں
اہل اسلام کا کیا جوش ہے اللہ اللہ
ظلمت پردۂ کعبہ ہے مگر سرمۂ چشم
ہوتی ہے اہل زیارت کی منور جو نگاہ
شتر و دُنبہ و بُز ذبح ہوئے ہیں اتنے
آسمانِ شفقی رنگ بنی قرباں گاہ
قابل دید ہے بازارِ منا کی خوبی
اسلحہ، اقمشہ، اشیائے فراواں دل خواہ
ہفت اقلیم کے ہیں اطلس و دیبا موجود
ہے یہ بازار کہ گلزار ہے رنگیں سرراہ

نثر نگاروں نے اپنے رنگ سے میٹھی عید اور سلونی عید کے نقشے کھینچے ہیں۔ ایک تذکرہ میں شاہی زمانے کی دلی میں اس تقریب سے جو امی جمی نظر آتی تھی اسے یوں بیان کیا گیا ہے:

’’بقر عید کے موقع پر وہی اہتمام ہوتا تھا جو عیدالفطر کے موقع پر ہوتا تھا۔ وہی خوشیاں، وہی مبارک بادیاں، وہی عیدیاں اور وہی ضیافتیں، وہی رونق، وہی چہل پہل۔‘‘

’’چاندنی چوک بقعہ نور بنا ہوا ہے خلقت ہے کہ ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ دکانداروں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ بکری جوتے، ٹوپی اور موزے بنیان والوں کی ہو رہی ہے۔ عورتوں کا سامان چوڑیاں، سرمہ، مسی، تیل، پھلیل، مہندی اور چوڑیاں خوب بکتیں۔ اور ان کے بیچنے والے گھر گھر آواز لگاتے۔ ان میں زیادہ تر پھیری لگانے والی عورتیں ہوتیں۔ منہاری بدستور آتی اور سب کو چوڑیاں اور لاکھ کے کنگن پہنا جاتی اور اپنی دعاؤں سے گھر بھر دیتی اور ڈھیر سارا نیگ پاتی۔‘‘

شاہی اہتمام بھی دیکھتے چلیے

’’عیدگاہ میں جنوب کی طرف ایک خیمہ لگا دیا جاتا۔ اس میں بادشاہ اپنے دست مبارک سے ایک اونٹ اور ایک دنبے کی قربانی کرتے۔ اس خیمے میں ایک بڑا چبوترہ بنا ہوتا جس میں بادشاہ کے لیے مسند لگائی جاتی۔ دسترخوان بچھایا جاتا۔ قسم قسم کے پرتکلف کھانے چنے جاتے۔ بادشاہ پہلے خود تناول کرتے اور پھر ولی عہد، شہزادوں اور دوسرے امراء کو اپنے ہاتھ سے کباب اور شیرمال دیتے۔ محل میں تمام رات چہل پہل رہتی۔ بادشاہ انعام و اکرام دیتے اور مبارک بادیں اور تحفے قبول کرتے۔‘‘

وہ زمانے اور تھے۔ وہ تہذیب اور تھی۔ مغل دربار جیسا کیسا بھی تھا ابھی قائم تھا۔ پچھلے سارے ادب آداب برقرار تھے۔ تیوہار اہتمام سے منائے جاتے تھے۔ صرف عید بقرعید نہیں۔ ہولی، دیوالی، رام لیلا کے موقعوں پر بھی ان تیوہاروں کے حساب سے اہتمام ہوتے۔ آخر قلعہ میں خالی مسلمان بیگمات تو نہیں تھیں۔ راجپوتنیاں بھی تو تھیں۔ پھر مسلمانوں میں کوئی ایرانی کوئی تورانی اسی حساب سے ہر عقیدے کا لحاظ، ان کی ریت رسموں کا اسی رنگ سے اہتمام۔ لال قلعہ اچھا خاصا روشن خیالی کا ایک بڑا استعارہ نظر آتا تھا۔ مذہبی رواداری اس کا مسلک تھا۔

خیر یہ الگ مضمون ہے۔ اس وقت تو ذکر بقر عید کا ہو رہا ہے۔ تو وہ زمانہ اپنی عید بقر عید کے ساتھ گزر گیا۔ اب وہ عیدیں قصہ ماضی ہیں۔ قصیدے بھی اب قصہ ماضی ہیں۔ اب ٹی وی ریڈیو پر ایسے موقعوں پر مشاعرے، مسالمے، نعتیہ محفلیں ہوتی ہیں۔ ان سے ہٹ کر اخبارات اپنے حساب سے خصوصی صفحات کا اہتمام کرتے ہیں۔ کالم گاروں کی مت پوچھو۔ بقرعید کے موقع پر ان کا سارا زور بکروں پر ہوتا ہے۔ بکروں کی رپورٹوں سے نکلتے ہیں تو قصائیوں کا مضمون باندھتے ہیں۔ باقی بازاروں میں تو اب بھی ویسی ہی گہما گہمی ہوتی ہے۔ اب سرمہ مسی پچھے رہ گئے۔ مگر مہندی اور چوڑیوں کی تہذیب برقرار ہے۔ منہارن غائب ہو گئی۔ اب نئی بیبیاں اپنے اپنے نئے بازاروں میں جا کر دکانداروں سے چوڑیوں اور مہندی کا بھاؤ تاؤ کرتی ہیں۔ نئے منہار ان کی کلائیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں چڑھاتے ہیں اور چوڑیوں کے کاروبار کو اور اس کے ساتھ مہندی کے کاروبار کو نئی رونق بخشتے ہیں۔

یہ ہے ہمارے زمانے کی عید، ہمارے زمانے کی بقر عید۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔