کسی بہتر حکمران کی تلاش

پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک بار پھر سیاسی اضطراب سے بھر گئی ہے

پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک بار پھر سیاسی اضطراب سے بھر گئی ہے

شروع دن سے ہی انسانوں کی بستیوں میں جب کوئی سردار اپنے منصب سے گر جاتا تھا تو عام لوگ اس کا متبادل تلاش کرنا شروع کر دیتے اور جو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ طاقت ور ہوتا وہ حکومت پر قبضہ کر لیتا یوں قصہ ختم۔ ہمارے خطے میں تموچن یعنی چنگیز خان سے لے کر ماؤزے تنگ تک یہی کچھ ہوتا رہا ہے اور پاکستان میں ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ہم نے یہی دیکھا کہ جس کے پاس طاقت ہوتی اور حکمرانی کا شوق بھی ہوا، اس نے پاکستان کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔

یہ حکمراں یا تو اپنی کسی بہت ہی بڑی غلطی اور عوام کے لیے ناقابل برداشت حکمرانی کی وجہ سے یا پھر اپنی کسی بھاری حکومتی نالائقی کے جرم میں اپنے سے زیادہ طاقت ور کے ہتھے چڑھ گیا۔ اقتدار کے اس ہیرپھیر میں کتنے آئے اور گئے یہ کھیل انسانی آبادیوں میں اب تک جاری ہے اور جب تک کوئی حکومت اچھی حکومت ثابت نہیں ہو گی وہ ڈانواں ڈول ہی رہے گی کیونکہ عوام میں سے تو کوئی حکمران بنتا نہیں البتہ جن لوگوں نے حکمرانی کا لطف لینا ہوتا ہے وہ عوام کو خاموش کر دیتے ہیں اور وقت کے حکمران کو خوف زدہ کر کے یا اس پر کسی طرح جبر کر کے اسے زیر کر لیتے ہیں اور یوں ایک نئی حکومت عوام پر مسلط ہو جاتی ہے جو پھر کبھی کسی ایسے ہی چکر میں عوام کی جان چھوڑتی ہے یا اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے تخت سے گر جاتی ہے۔

ہمارے ہاں فوجی اور سویلین حکومتیں کسی معروف اور مروجہ سیاسی ادل بدل سے آتی جاتی نہیں ایک طاقت ور نے کمزور کو گرا دیا بلکہ بعض نے تو کمزور کو زندگی سے ہی محروم کر دیا کیونکہ اس کے پاس طاقت تھی اور اسے اپنے مخالف سے خطرہ تھا ایسے لاعلاج کو ختم کرنا ہی اس کا علاج تھا۔

پاکستان کی سیاسی صورتحال ایک بار پھر سیاسی اضطراب سے بھر گئی ہے۔ عوام اپنے حکمرانوں سے خوش یا ناخوش نہیں ہیں بلکہ وہ صرف انھی حکمرانوں کی اصلاح چاہتے ہیں کہ وہ ایک پسندیدہ حکومت میں بدل جائیں اور اگر کوئی عوامی فلاح وبہبود کا منصوبہ رکھتے ہیں تو اسے مکمل کر لیں یا پھر اگر وہ محض حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو عوام اب اس بے عملی کو شاید زیادہ برداشت نہ کریں اور وہ اس میں بے قصور ٹھہریں گے۔

یہ درست کہ عوام نے موجودہ حکمرانوں کو بڑھ چڑھ کر ووٹ دیے تھے تاکہ انھیں ایک اچھی حکومت مل سکے لیکن عوام مایوس ہیں اور وہ مایوس رہنا نہیں چاہتے، ان کے پاس متبادل موجود ہے۔

ہمارے گاؤں کے جن بزرگوں نے سکھوں کی حکومت بنتے دیکھی تھی وہ کہا کرتے تھے کہ حکومتوں کی تبدیلی بڑے دکھ دیتی ہے۔ پھر ہمارے بزرگوں نے انگریزوں کی حکومت بھی دیکھی جو ان کے سامنے ان کے مسلمان حکمرانوں کو قتل کر کے قائم ہوئی پھر یہ حکومت بھی وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکومت میں بدل گئی۔


پاکستان کے اندر حکومتوں کی تبدیلی مسلسل جاری ہے اور موجودہ حکومت بھی کسی تبدیلی یعنی اب دروازوں پر دستک دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی روایت کے مطابق کوئی فوجی حکمرانی سنبھالتا ہے یا الیکشن کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس کا امکان بہت کم ہے کیونکہ پاکستان کی سیاسی زندگی سخت ابتری کا شکار ہے اور سیاسی جماعتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔

پاکستان میں یہ بھی ہوا ہے کہ ایک فوجی حکمران اقتدار پر قابض ہو گیا اور اس نے فوراً یہ اعلان کیا کہ وہ اتنی مدت میں الیکشن کرائے گا اور اقتدار نئے لوگوں کے سپرد کر دے گا لیکن چونکہ نیت ایسی نہیں ہوا کرتی تھی اس لیے وہ کہتا کہ میں نے جب حالات کا جائزہ لیا تو ستیاناس نہیں سوا ستیاناس دکھائی دیا۔ اب اس ابتری میں ملک کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے۔ اس لیے فی الحال کچھ اصلاحات اور پھر الیکشن وغیرہ۔

پاکستانی عوام اب صرف سوچ ہی نہیں رہے وہ اپنی سوچ کو عملی رنگ دینے کے خواہاں بھی ہیں لیکن ان کا کوئی سیاسی لیڈر موجود نہیں جو ان کی خواہشات اور ارادوں کی تکمیل کا سامان کر سکے۔ اس لیے وہ اپنے پاکستانی اسٹائل میں فوج میں سے کوئی لیڈر تلاش کر رہے ہیں لیکن کون جانتا ہے کہ فوج سے آنے والا لیڈر ان کی کس حد تک داد رسی کر سکے گا یا وہ خود اپنی دادرسی میں مصروف ہو جائے گا۔ پاکستان کی بڑی فوج کا سپہ سالار کوئی عام آدمی نہیں ہوتا۔ وہ ایک بڑی فوج کی سربراہی کرتا ہے اور ایک جاندار قوم کی قیادت جو کسی مقصد کو سامنے رکھ کر متحرک کی جا سکتی ہے۔

پاکستان کی قوم اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں لیکن یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ اس پر ایک طاقت ور فوج حملہ آور ہوئی اور حملہ آور کی طاقت زیادہ ہوا کرتی ہے کہ اسے کچھ فتح کرنا ہوتا ہے مگر رات کے کسی پہر ہونے والا یہ طاقت ور حملہ اس قوم اور اس کی فوج نے ناکام کردیا۔

اس لیے پاکستانی فوج کا سپہ سالار کوئی عام سا فوجی نہیں ہوتا اس لیے قوم اگر ماضی کی طرح آج بھی کسی فوجی کی تلاش میں ہے تو وہ بے قصور ہے۔

یوں سمجھیں کہ وہ اپنی نجات کی تلاش میں ہے اور غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ یہ مشہور مثل لیڈر کی تلاش میں سرگرداں پاکستانی قوم پر صادق آتی ہے جو اپنی مایوسی اور دیوانگی کے کسی مقام پر کسی کو تلاش کر رہی ہے۔ ہمارے دشمن ہمیں اب ایک آزاد اور خودمختار ملک نہیں سمجھتے۔ یہ صورت حال ہمیں ہر حال میں بدلنی ہے اور ہمیمں ایک معقول حکومت درکار ہے جو آج کے حکمران بھی نافذ کر سکتے ہیں، بڑی آسانی کے ساتھ۔
Load Next Story