سیاسی بصیرت اور تدبر کے تقاضے

اربوں کھربوں کی اس اعلیٰ سطحی کرپشن نے اگرچہ پورے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے


Zaheer Akhter Bedari October 01, 2015
اربوں کھربوں کی اس اعلیٰ سطحی کرپشن نے اگرچہ پورے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے

ISLAMABAD: دنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں ہوگا جو مختلف مسائل کا شکار نہ ہو لیکن جس ملک کی قیادت سیاسی بصیرت کی حامل ہوتی ہے وہ لکڑی لے کر ایک ساتھ سارے مسائل کے پیچھے دوڑ نہیں لگاتی بلکہ وہ اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس کے اہم قومی مسائل کیا ہیں، قومی مسائل کے تعین کے بعد پھر ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے، ترجیحات کے تعین کے بعد ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک موثر اسٹریٹجی بنائی جاتی ہے اور پھر اس پر عملدرآمد کے لیے ایک جامع اور موثر فورس بنائی جاتی ہے۔

اس کے بعد اسی سارے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مانیٹرنگ سسٹم ترتیب دیا جاتا ہے تب جاکر کہیں اہم قومی مسائل کے حل کی طرف پیش رفت ممکن ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں 68 سالوں سے جو جمہوری اور غیر جمہوری حکومتیں برسر اقتدار رہیں وہ ان حوالوں سے اس قدر نااہل تھیں کہ وہ قومی مسائل کا حقیقی معنوں میں تعین بھی نہ کرسکیں یہ محض نااہلی نہیں ہے بلکہ ان کے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔ اس بدنظمی یا بددیانتی کی وجہ یہی بتائی جاتی رہی کہ حکومتوں کی اولین ترجیح ذاتی اور جماعتی مفادات رہے جس کی وجہ لوٹ مار کا کلچر اس قدر عام اور مستحکم ہوگیا کہ یہ ہمارے قومی مسائل میں سر فہرست آگیا۔ اگر کوئی عوام دوست حکومت آتی تو بلاشبہ اس کی پہلی ترجیح لوٹ مار کے اس نظام کا خاتمہ ہوتا۔

بدقسمتی سے اس دوران ایک ایسا مسئلہ سامنے آگیا جو ہماری قومی بقا ہی کے لیے ایک سنگین خطرہ بن گیا اور یہ مسئلہ بہت کم عرصے میں پھیل کر انسانی تہذیب کی بقا کا عالمی مسئلہ بن گیا اور یہ مسئلہ ہے مذہبی انتہا پسندی عرف دہشت گردی کا۔ مذہبی انتہا پسندوں نے اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کے لیے پاکستان پر قبضے کو اپنا ہدف بنالیا ہ۔

ے اس قومی بقا کے لیے خطرہ بننے والے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہماری مقتدر قوتوں نے ضرب عضب کے نام سے ایک بھرپور آپریشن شروع کیا جس کا دائرہ عمومی طور پر شمالی وزیرستان رہا اور بلاشبہ اس علاقے میں دہشت گردی کی بڑی حد تک کمر توڑ دی گئی، لیکن بدقسمتی سے اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی کہ یہ طاقتیں اپنے کارندوں کو سارے ملک میں پھیلا رہی ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شمالی وزیرستان کے علاوہ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے اور ضرب عضب سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہوتی رہی۔

جب کوئی قوم اپنے سب سے بڑے قومی مسئلے کا تعین کرلیتی ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی توجہ اس مسئلے سے ہٹنے نہ پائے۔ ہم نے ابتدا میں اس بات کی نشان دہی کردی تھی کہ ذاتی اور جماعتی مفادات ہمارا 68 سالہ پرانا اہم قومی مسئلہ رہے ہیں جب یہ مسئلہ بڑھ کر کھلی اور اربوں کھربوں کی لوٹ مارکی شکل اختیار کرگیا تو اس کا شمار قومی مسائل کی فہرست میں ہونے لگا بلکہ یہ مسئلہ قومی مسائل میں سرفہرست آگیا۔ کوئی بھی مخلص حکومت اس مسئلے سے پہلوتہی نہیں کرسکتی کیونکہ ملک کے 20 کروڑ عوام لوٹ مار کے اس بدترین کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہماری مقتدرہ نے بجا طور پر اس کلچر کی بیخ کنی کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں لیکن ان اقدامات کو ایک صوبے تک محدود کرنے کی وجہ سے کرپٹ عناصر کو بامعنی اعتراض کا موقع مل گیا اور غیر جانبدار حلقے بھی اس امتیازی پالیسی کے خلاف زبان کھولنے پر مجبور ہوگئے۔

یہ مقتدرہ کی ایسی غلطی تھی جس کا فائدہ کرپٹ عناصر اٹھانے لگے اس حوالے سے دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف انسانی تاریخ کی بدترین جنگ کے دوران ایک نیا اور مشکل محاذ کھولنا مشکلات کو دعوت دینے کے مترادف نہیں؟ بدقسمتی سے اس حوالے سے بھی یہ ہوا کہ کرپشن کے خلاف اقدامات بھی عمومی طور پر صرف ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئے جس کی وجہ سے کرپٹ مافیا کو چیخنے چلانے کا موقع مل گیا۔ اب اس بیماری کا منطقی علاج یہی ہوسکتا ہے کہ کرپشن کے خلاف آپریشن کو پورے ملک تک پھیلادیا جائے۔

اگر ایسا کیا گیا تو ملک کی تمام کرپٹ طاقتیں خود کو اس آپریشن سے بچانے کے لیے نہ صرف متحد ہوجائیں بلکہ اس آپریشن کو روکنے کے لیے اپنی تمام تر افرادی اور مالی طاقت لگا دیں گی۔ کیا مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی یہ تاریخی جنگ اس سے متاثر نہیں ہوگی؟

اربوں کھربوں کی اس اعلیٰ سطحی کرپشن نے اگرچہ پورے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے لیکن اس کے تین بڑے نقصانات ایسے ہیں جو ہمارے قومی مستقبل کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں پہلا یہ کہ اس وبا سے ملکی معیشت تباہی کے کنارے پر پہنچ گئی ہے، خواہ اس حوالے سے کتنی خوش خبریاں سنائی جائیں اور زرمبادلہ میں اضافے کی نوید دی جائے۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ کھربوں روپوں کی اس بے لگام کرپشن کی وجہ سے منطقی طور پر غریب طبقات کی مشکلات میں اس حد تک اضافہ ہوگیا کہ اس کی اولین اور واحد ترجیح دو وقت کی روٹی بن گئی اس کے علاوہ وہ کسی سیاسی سماجی اور معاشی مسئلے پر سوچنے کے قابل ہی نہ رہا۔ تیسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ ہماری سیاسی زندگی کرپشن سے لت پت ہوگئی جس میں بہتری کے لیے لمبا عرصہ اور سخت جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔

یہ تین بڑے نقصانات اپنی جگہ لیکن جس مسئلے کی ہم نے نشان دہی کی ہے کہ دہشت گردی کی خوفناک جنگ نے ہر مسئلے کو فی الوقت غیر اہم بنا دیا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کا سلسلہ جاری ہے ، اٹک میں شجاع خانزادہ کی خودکش حملے میں ہلاکت اور دہشت گردی کی کئی علاقائی وارداتوں کے علاوہ بڈھ بیر ایئربیس پر اس قدر منظم اور نقصان رساں حملہ کہ جس میں 33 فوجی وسویلین شہید ہوگئے۔

یہ ایسی گمبھیر اور نازک صورت حال ہے کہ اس سے ادھورے غیر منظم اور غیر منصوبہ بند طریقوں سے ہرگز نہیں نمٹا جاسکتا بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے سیاسی بصیرت، منصوبہ بندی اور ایک موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس مرحلے پر سیاسی افراتفری پیدا ہوئی اور ''مشترکہ مفادات'' رکھنے والی سیاسی طاقتیں متحد ہوگئیں تو ایسی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدف متاثر ہوجائے گا جس کا تعلق قومی بقا اور تہذیبی بقا سے ہے، بلکہ قوم ملک ایک ایسے انتشار کا شکار ہوسکتے ہیں جس کا ازالہ ممکن نہیں رہے گا۔

مقبول خبریں