ایف بی آئی، فوجی افسر کا کیریئر تباہ کرنے پر تُل گئی

ندیم سبحان  اتوار 18 اکتوبر 2015
کرنل جیسن امیرائن کا کیس امریکی ایجنسیوں کے درمیان رابطے کے فقدان اور ادارہ جاتی مخاصمت کی بھی مثال ہے ۔  فوٹو : فائل

کرنل جیسن امیرائن کا کیس امریکی ایجنسیوں کے درمیان رابطے کے فقدان اور ادارہ جاتی مخاصمت کی بھی مثال ہے ۔ فوٹو : فائل

لیفٹننٹ کرنل جیسن امیرائن، افغانستان میں بھیجے جانے والے اولین فوجی دستے کا رکن تھا۔ وہ اکتوبر 2001ء میں ’آرمی اسپیشل فورس‘ کی اے ـ ٹیم کے ساتھ افغان سرزمین پر اترا تھا۔ اس وقت سب اس بات پر متفق تھے کہ جنگ مختصر ہوگی اور اس جنگ کے اہداف بھی واضح ہیں؛ یعنی نائن الیون کے حملوں کا بدلہ، طالبان کی حکومت کا خاتمہ اور پھر واپسی۔ مگر بعدازاں یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ چودہ برس کے بعد جیسن امیرائن یہ وضاحت کرنے کے لیے کیپیٹل ہل گیا کہ اتنے برس گزرجانے کے بعد بھی وہ کیوں ابھی تک حالت جنگ میں ہے۔

رواں برس، جنوری تک امیرائن پینٹاگون میں ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ یہاں اس نے ایک فوجی ٹیم کی بھی قیادت کی جسے سارجنٹ بووے برگڈال کو وطن واپس لانے کا مشن سونپا گیا تھا۔ سارجنٹ بووے کو طالبان کے حامی، حقانی نیٹ ورک نے اغوا کر رکھا تھا، اور اسے پاکستان کی حدود میں کہیں رکھا گیا تھا۔

جب امیرائن کو اس کی رہائی کا مشن سونپا گیا تو اس وقت تک بووے کو حقانی نیٹ ورک کی قید میں رہتے ہوئے تقریباً چار برس گزر چکے تھے۔ اس طرح وہ جنگِ ویت نام کے بعد سے طویل ترین عرصے تک دشمن کی قید میں رہنے والا امریکی فوجی تھا۔ اس کی رہائی جنگ کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکراتی عمل میں بھی کلید کی حیثیت رکھتی تھی۔ بعدازاں اس مشن میں طالبان کے حامی نیٹ ورک کی قید میں موجود عام (غیرملکی) شہریوں کی رہائی کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

2013ء میں لیفٹننٹ کرنل جیسن امیرائن نے سارجنٹ بووے کی رہائی کے سلسلے میں طالبان کو کئی بار خفیہ مذاکرات کرنے پر راضی کیا۔ مشن کی تکمیل کے لیے جیسن کی پیش قدمی جاری تھی کہ ملکی افسر شاہی اس کے آڑے آگئی۔ اسے پاکستان میں افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ سے زیادہ واشنگٹن ڈی سی میں وفاقی ایجنسیوں سے مغز ماری کرنی پڑی ۔ پھر بھی اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اسے بیوروکریسی کی بھول بھلیوں میں سَرپٹخنے پر مجبور کردیا گیا۔ بالآخر وہ ایوان نمائندگان کے رکن ڈنکن ہنٹر سے جاکر ملا اور تمام صورت حال اس کے گوش گزار کی۔ ڈنکن سابق فوجی ہونے کے علاوہ ’ ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘ کا بھی رکن ہے۔

جیسن سے ملاقات کے بعد ڈنکن نے اس وقت کے سیکریٹری دفاع چک ہیگل اور صدر براک اوباما کو خطوط لکھے تھے جن میں فوج، محکمہ خارجہ، ایف بی آئی، انٹیلی جنس کمیونٹی اور محکمۂ دفاع کے درمیان جاری ادارہ جاتی مخاصمت کا نوٹس لینے کی درخواست کی گئی تھی۔ جب گذشتہ برس گوانتانامو بے میں قید پانچ طالبانوں کے بدلے میں برگڈال کو رہائی نصیب ہوئی تو ڈنکن نے شکایت کی کہ جیسن، طالبان سے اس سے کہیں بہتر ڈیل کرچکا تھا جسے نظرانداز کردیا گیا۔ علاوہ ازیں برگڈال کے ساتھ ساتھ چھے مغربی شہریوں کی رہائی کو ڈیل کا حصہ نہ بنانے پر بھی یہ خسارے کا سودا ثابت ہوا تھا۔

رواں برس جنوری میں جب ایک عالمی امدادی ادارے کا رکن اور چھے قیدیوں میں سے ایک، وارن ونسٹائن سی آئی اے کے ڈرون حملے کی زد میں آکر ہلاک ہوگیا تو جیسن کو پینٹاگون سے فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا۔ جیسن کو بتایا گیا کہ فوج کی کریمینل انویسٹی گیشن کمانڈ (سی آئی ڈی) نے اس کے خلاف مقدمہ قائم کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جیسن کی تنخواہ روک لی گئی، اور اس کی ریٹائرمنٹ بھی مؤخر کردی گئی۔

ہنٹر کا کہنا ہے کہ یہ ایف بی آئی کی انتقامی کارروائی ہے جو اس نے یرغمالی کی بازیابی کے لیے تشکیل دیے گئے منصوبے کی خلاف ورزی کرنے کی پاداش میں جیسن کے خلاف کی ہے۔ ( ’ نیوز ویک‘ کے رابطہ کرنے پر سی آئی ڈی نے اس کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اور ایف بی آئی نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ان سوالات کے جواب محکمہ داخلہ دے گا) مغوی ہنوز پاکستان میں ہیں، جب کہ امیرائن کے خلاف ہونے والی تحقیقات کو غیرضروری طول دیا جارہا ہے۔ دوسری جانب سی آئی ڈی کی تحقیقات کی بھی پینٹاگون میں تحقیقات کی جارہی ہے۔

جیسن کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی کہ اسے ’’سیٹی بجانے والے‘‘ (Whistleblower) کا نام دیا گیا ہے۔ اس بات کا اظہار اس نے جون میں، سینیٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران بھی کیا،’’مجھ پر ’وسل بلوور‘ کی چھاپ لگادی گئی ہے۔ یہ اصطلاح تباہ کُن اور توہین آمیز ہے۔ میں آپ کے سامنے اس لیے موجود ہوں کہ میں نے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دیا ہے۔ آپ کو یہ بات یقینی بنانی ہوگی کہ وردی پوش تمام اہل کار اپنی ڈیوٹی کسی انتقامی کارروائی کے خوف کے بغیر سرانجام دے سکیں۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیارہ ستمبر 2001ء کی صبح امریکی فوج کا کیپٹن جیسن امیرائن قازقستان کے سب سے بڑے شہر الماتے میں واقع ایک ریستوراں میں پیزا سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ شام ہونے تک وہ اپنے زیرکمان فوجیوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کررہا ہوگا۔ نائن الیون کے واقعے کا ذمے دار واضح طور پر اسامہ بن لادن کو سجھا جارہا تھا۔ جیسن اور اس کے ساتھیوں کو اگلے ماہ میدان جنگ میں اتار دیا گیا۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی ملاقات پاکستانی سرزمین پر، افغانستان کے مستقبل کے صدر اور ملک کے جنوب میں اثر رکھنے والے طالبان مخالف پشتونوں کے اُبھرتے ہوئے راہ نما حامد کرزئی سے طے پائی۔

امیرائن کے ماتحت سپاہیوں کو شمال میں مزارشریف کے قریب اترنے والے فوجیوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل اور خطرناک صورت حال کا سامنا تھا، جنھیں سی آئی اے کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کا ساتھ حاصل تھا۔ جنوبی قبائلی پٹی میں طالبان کو کسی منظم مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ ملک کا دوسرا بڑا شہر، قندھار اس وقت اسلامی امارت کا دارالحکومت تھا۔ امریکی اس شہر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے شدید ترین جنگ کی توقع کررہے تھے۔ کرزئی نے امیرائن سے کہا تھا کہ اگر امریکی، صوبہ ارزوگان کے صدر مقام ترین کوٹ کو جو قندھار سے 80 میل شمال میں ہے، طالبان کے تسلط سے آزاد کروانے میںاس کی مدد کریں تو اس سے جنوب میں طالبان کی گرفت کو ابتدا میں ہی بڑا جھٹکا پہنچے گا۔

کرزئی کی خواہش کا پاس رکھتے ہوئے بلیک ہاک ہیلی کوپٹروں نے جیسن اور اس کے ماتحتوں پر مشتمل فوج کا خصوصی دستہ، جو گرین بیریٹ کہلاتا ہے، دشمن کے علاقے میں اتار دیا۔ نئے اتحادیوں کے لیے عزت و توقیر کے اظہار اور ان میں گُھل مل جانے کی ضرورت کے پیش نظر امریکی فوجیوں نے داڑھیاں بڑھالی تھیں اور اپنا ڈریس کوڈ ترک کردیا تھا۔ انھوں نے اپنی وردی کے اوپر اونی اور ٹوپی دار جیکٹیں پہن لی تھیں۔ شب کی تاریکی میں اروزگان کی زمین پر اترنے والے ہر فوجی کے پاس ہتھیاروں، خوراک اور آلات کی صورت میں دو سو پونڈ وزن تھا۔

امریکی فوجی کمانڈر اس بات کا ثبوت چاہتے تھے کہ حامدکرزئی کم از کم 300 گوریلوں پر مشتمل فوج کو منظم کرسکتا ہے۔ اس لیے امیرائن کو توقع تھی کہ اس کے اور اس کے ماتحتوں کے پاس پہلی بڑی جنگ کی تیاری کرنے کے لیے کئی ہفتے ہیں۔

مگرانھیں سنگلاخ علاقے میں اترے ہوئے اڑتالیس گھنٹے بھی نہ ہوئے تھے کہ غیرمتوقع طور پر ترین کوٹ کے باسی اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے طالبان گورنر کو قتل کردیا۔ امیرائن اور اس کے ساتھی تین روز کے جاگے ہوئے تھے۔ اب ان کے سامنے ایک ہی آپشن تھا: چند درجن مسلح افغانوں کے ساتھ مل کر طالبان کے حملے سے ترین کوٹ کا دفاع کرنا۔ چناں چہ انھوں نے دفاعی اقدام کرتے ہوئے ایک بلند مقام پر چوکی بنائی۔

اس چوکی سے وادی کے بڑے حصے اور اس دورافتادہ پہاڑی راستے پر نظر رکھی جاسکتی تھی، جہاں سے طالبان حملہ آور ہوتے۔ دفاعی نقطہ نگاہ سے وہ بہترین پوزیشن میں تھے مگر جب افغان گوریلوں کو طالبان کے درجنوں ٹرک اپنی طرف بڑھتے دکھائی دیے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ پیٹھ دکھا کر بھاگ لیے ۔ اس بارے میں امیرائن نے 2002ء میں پبلک براڈکاسٹنگ سروس (امریکی نشریاتی ادارہ) کے پروگرام میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا:’’افغان گوریلوں پر دہشت طاری ہوگئی تھی۔‘‘

امیرائن کو کسی ترجمان کی خدمات بھی حاصل نہیں تھیں کہ وہ اس کے ذریعے دہشت زدہ افغانوں کو تسلی دے سکتا۔ امیرائن کے بقول وہ تیس ہزار فٹ کی بلندی پر محوپرواز تین جنگی طیاروں کی تباہ کُن صلاحیتوں کا اندازہ نہیں کرسکے تھے۔ ’’انھیں معلوم نہیں تھا کہ آسمان سے طالبان پر ہم کیسی قیامت برسانے والے تھے۔ اپنی بے خبری کی وجہ سے اس صورت حال میں ڈٹا ہوا دیکھ کر وہ ہمیں پاگل سمجھ رہے تھے۔ ‘‘

گرین بیریٹس کی تعداد طالبان کے مقابلے میں بہت قلیل تھی۔ چناں چہ ان کے لیے فوری طور پر جنگی طیاروں کی مدد حاصل کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ جنگی طیاروں کی زبردست بم باری نے طالبان کے کانوائے کا شیرازہ بکھیر دیا۔ یکے بعد دیگرے تمام گاڑیاں دھماکوں سے شعلوں میں تبدیل ہوتی چلی گئیں۔ جو چند گاڑیاں بمباری کی زد میں آنے سے بچیں، بچے کھچے طالبان ان میں بیٹھ کر فرار ہوگئے۔

بعدازاں طالبان قصبے کی بغلی جانب سے چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہوئے جنھیں کرزئی کے گوریلوں نے پسپا کردیا۔ طالبان کی پسپائی ان کی شکست کا اعلان تھی، لیکن امریکی فوج کی مدد کے بغیر یہ فتح حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ امریکی فوجی نہ ہوتے تو طالبان مقامی آبادی کا خاتمہ کردیتے جیسا کہ ایک مقامی مذہبی راہ نما نے بعد میں حامد کرزئی کو بتایا تھا۔ افغانستان پر اقتدار قائم کرنے کے لیے امریکی فوج، کرزئی کا راستہ صاف کرتی جارہی تھی۔ اس دوران امیرائن اور کرزئی اپنا مشترک ہدف حاصل کرنے پر متفق ہوگئے تھے: ’’یعنی قندھار پہنچیں اور جنگ کا خاتمہ کریں۔‘‘

جنگ کے خاتمے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے امریکی اور ان کے اتحادی افغان دیہہ بہ دیہہ جنوب کی طرف بڑھ رہے تھے جب اچانک ان پر آفت ٹوٹ پڑی۔ مگر یہ آفت دشمن کے نہیں بلکہ اپنوں کے ہاتھوں ان پر نازل ہوئی تھیں۔ پانچ دسمبر کی صبح کو، جب کہ وہ شوالی کوٹ کے قصبے سے تھوڑی ہی دور تھے۔

امریکی B-52 طیارے نے ان پر دو ہزار پونڈ وزنی سیٹیلائٹ گائیڈڈ بم گرادیا۔ مخبروں کی غلط فہمی کا نتیجہ انھیں ستائیس افغان فوجیوں اور تین گرین بیریٹس کی ہلاکت کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ’’فرینڈلی اٹیک‘‘ میں بچ جانے والا ہر شخص زخمی ضرور ہوا تھا۔ امیرائن کی ٹانگ میں بھی بم کے تیز نوکیلے دھاتی ٹکڑے اُتر گئے تھے۔ تین روز کے بعد اتحادی فوجیوں نے قندھار فتح کرلیا اور طالبان کا امیر مُلا محمدعمر ایک موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہوگیا۔

اس فتح پر امیرائن کی ٹیم کو تین سلور اسٹار، سات برونز اسٹار اور گیارہ پرپل ہارٹ ملے۔ امیرائن کی داستان کو ایرک بلہم نے اپنی تصنیف The Only Thing Worth Dying For میں الفاظ کی صورت میں امر کردیا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق کرنل جیسن امیرائن کی افغانستان میں کارگزاریوں پر مشتمل یہ کتاب سال کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ثابت ہوئی تھی۔

جنوری 2002ء میں نائن الیون حملوں کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش کے پہلے سالانہ خطاب کے موقع پر جیسن کو بہ طور مہمان مدعو کیا گیا۔ وہ نیویارک پہنچا۔ وہاں ٹیلی ویژن چینلز کو انٹرویو دیے اور West Point میں نوجوان سپاہیوں کو بین الاقوامی تعلقات اور عربی کی تعلیم بھی دی جو افغانستان میں اس کی جگہ لیتے۔ پھر جیسن پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے لیے پینٹاگون پہنچا۔ یہاں ملنے والے احکامات نے اس کے کیریئر کو زوال کا شکار بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت برگڈال کو پاکستانی سرحد سے صرف پچیس میل دور کسی مقام پر رکھا گیا تھا۔ اس کے غیاب کو دو ہفتے ہوچکے تھے۔ اور اب یہ اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ اسے پاکستان اسمگل کردیا گیا تھا۔ برگڈال کے غائب ہونے کے دو دن بعد علاقائی طالبان کمانڈر، ملا سنگین زردان نے افغان جنگ کے انتہائی سنگدل اور تشددپسند فریق، حقانی نیٹ ورک کے لیے اسے اغوا کرنے کا دعویٰ کیا۔

اغوا کی وارداتیں اس گروپ کا کاروبار تھا۔ برگڈال کو حاصل کرنے سے صرف نو دن پہلے وہ اپنے سب سے قیمتی مغوی، نیویارک ٹائمز کے رائٹر ڈیوڈ رہوڈ کو کھو چکے تھے۔ یوں برگڈال طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے لیے ڈیوڈ کا نعم البدل اور جنگ کا بہترین انعام ثابت ہوا تھا۔

برگڈال واشنگٹن کی پہنچ سے دور نکل چکا تھا۔ حاضر سروس فوجی ہونے کی وجہ سے اس کی حفاظت محکمہ دفاع کا دردِسر تھی مگر امریکی فوج پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ قانونی اور سفارتی ضرورت کے تحت، برگڈال کی بازیابی کا کوئی بھی مشن وائٹ ہاؤس کے احکامات پر سی آئی اے یا اسپیشل فورسز ہی انجام دے سکتی تھیں (جیسا کہ 2011ء میں ایبٹ آباد، پاکستان میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر کیا جانے والا آپریشن نیپچون اسپیئر تھا)۔

پینٹاگون میں جیسن امیرائن کی ٹیم نے تفصیلی جانچ پڑتال سے کام کا آغاز کیا۔ اس جانچ پڑتال کا مقصد ان عوامل کی نشان دہی کرنا تھا کہ کئی برس گزر جانے کے باوجود بھی مغوی امریکی فوجی کی بازیابی کیوں عمل میں نہ آسکی۔ اس بارے میں جیسن نے جون میں سینیٹ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا،’’برگڈال کی رہائی کے لیے کی جانے والی کوششیں چار سال تک ناکام ہوتی رہیں۔

اس کا سبب ایسی تنظیم کی عدم موجودگی ہے جو امریکی یرغمالیوں کی وطن واپسی کے لیے مختلف حکومتی ایجنسیوں کے درمیان رابطہ کار کی ذمہ داری انجام دیتے ہوئے ان کی کوششوں کو مربوط کرے۔‘‘ جیسن کی ٹیم کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ’’پاکستان میں (غیرملکی) سویلین بھی یرغمالی بنائے گئے تھے جن کی رہائی میں کسی کو دل چسپی نہیں تھی، چناں چہ ان کی آزادی بھی اس مشن کا حصہ بنالی گئی تھی۔‘‘

مذکورہ بالا بیان میں ’کسی کو‘ سے جیسن کی مراد ایف بی آئی تھی۔ بیرون ممالک میں اغوا ہونے والے امریکی شہریوں کی رہائی اور اس سے جُڑے دوسرے معاملات کی ذمہ دار یہی ایجنسی ہے۔ کرنل جیسن امیرائن کی آرمی ٹیم کو انسانی جاسوسوں کے اس وسیع نیٹ ورک تک رسائی حاصل تھی جسے ایک عشرے سے زاید کی محنت کے بعد فوج نے وسطی ایشیا کے ان ممالک میں منظم کیا تھا جہاں ایف بی آئی کا دائرہ کار محدود تھا۔

جیسن کو یقین نہیں تھا کہ ایف بی آئی اس سلسلے میں کوئی پیش رفت کررہی تھی چناں چہ اس نے عام شہریوں کی رہائی، جن میں کینیڈا کے دو باشندے بھی شامل تھے، کو بھی ریکوری مشن کا حصہ بنالیا تھا۔ جیسن کی ٹیم نے تین اہداف مقرر کیے تھے: ( 1) قیدیوں کے تبادلے کی قابل قبول صورت، ( 2 ) طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا اور ( 3 ) یرغمالیوں کی رہائی اور واپسی سے متعلق حکومتی پالیسی کی خامیوں کو دور کرنا۔

ابتدائی دو اہداف کے سلسلے میں جیسن کی ٹیم نے پیش رفت کی۔ آرمی انٹیلی جنس نے خبر دی تھی کہ برگڈال اور سویلین مغوی اپنے اغواکاروں پر بوجھ بن چکے ہیں۔ گذشتہ برس موسم بہار میں پینٹاگون کے ایک نامعلوم عہدے دار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ طالبان ، امریکی فوجی کے بدلے سودا کرنے کی کوشش میں تھے۔

مگر واشنگٹن میں وفاقی ایجنسیاں مختلف ایجنڈوں پر عمل پیرا تھیں۔ اکثراوقات ان کے ایجنڈے خفیہ ہوتے تھے اور کبھی کبھی ان کے مقاصد ایک دوسرے سے ٹکرا بھی جاتے تھے۔ چناں چہ ایجنسیوں سے کچھ نہیں بن سکا۔ اسی موسم بہار میں ہنٹر نے صدر کو لکھا،’’اس آپریشن میں محکمہ دفاع، امریکی سینٹرل کمانڈ، جوائنٹ اسٹاف، یو ایس اسپیشل آپریشنز کمانڈ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی، فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن، نیشنل سیکیوریٹی ایجنسی سمیت دوسرے ادارے شامل ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ تمام حکومتی عناصر ہم آہنگ اور مربوط ہوکر کام کریں۔‘‘ ہنٹر کے لکھے گئے مکتوب کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا، چناں چہ جیسن امیرائن کی ٹیم نے معاملات کو اپنے طور پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک شخص، حاجی بشیر نور زئی کے بدلے میں سات یرغمالیوں کی رہائی کے لیے طالبان سے مذاکرات جاری رکھے۔ حاجی بشیر نور زئی طالبان کا اتحادی اور منشیات کی اسمگلنگ سے وابستہ بڑا نام ہے، جو ان دنوں امریکی جیل میں عمرقید کاٹ رہا ہے۔

ہنٹر نے اس ڈیل کی حمایت کی اور وائٹ ہاؤس اور ہیگل کو کہا کہ،’’محکمہ دفاع برگڈال کی رہائی کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے سب اداروں سے موزوں اور منظم ترین ہے۔‘‘ اس کے جواب میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹاگون کے اہل کاروں نے ہنٹر کو یقین دہائی کرائی کہ دونوں ایجنسیاں اس مقصد کے لیے’مشترکہ لائحہ عمل‘ تشکیل دینے کے سلسلے میں ایک دوسرے سے ’قریبی رابطہ‘ رکھیں گی۔

چھے مئی 2014ء کو انھوں نے جواب میں لکھا،’’برگڈال کی رہائی کے سلسلے میں کی جانے والے کوششوں سے ہم آپ اور آپ کے ساتھیوں کو باخبر رکھیں گے۔‘‘ تاہم مذکورہ عہدے داروں نے یہ قول فراموش کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اور جب 31 مئی کو طالبان کی شرائط پر برگڈال کی رہائی عمل میں آئی تو اس سے ہنٹر کو پیشگی مطلع نہیں کیا گیا۔ نورزئی کے بجائے، جو امریکی حکام کے ساتھ طویل عرصے سے تعاون کررہا تھا ( اور جسے دہشت گردی کے لیے مالی تعاون سے متعلق معلومات شیئر کرنے کے بہانے سے نیویارک بلاکر ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن نے حراست میں لے لیا تھا) حکومت نے پانچ طالبان قیدی رہا کردیے جن میں سے دو ان کے ملٹری کمانڈر رہ چکے تھے۔

طالبان قیدیوں کی رہائی کے بعد، ان سے درپیش خطرے کے پیش نظر سیاسی سطح پر جو ہنگامہ اٹھا اس میں وہ مسئلہ پس پشت چلا گیا جو شروع ہی سے امیرائن اور ہنٹر کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا: یعنی پاکستان میں رہ جانے والے چھے سویلین جن کی امیدیں ایک ایسی ایجنسی (ایف بی آئی) سے بندھی ہوئی تھیں جس کے پاس انھیں رہا کرانے اور وطن واپسی کے لیے جنوبی ایشیا میں نہ تو وسائل تھے اور نہ ہی قانونی اختیارات۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برگڈال کی آزادی کے بدلے میں طالبان قیدیوں کی رہائی سے اٹھنے والے سیاسی طوفان کے باوجود وائٹ ہاؤس اور ایف بی آئی عالمی سطح پر (امریکی شہریوں کے) اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی خبریں دبانے میں کام یاب ہوگئے۔ 2012ء کے اواخر اور 2013ء کے اوائل میں داعش نے متعدد امریکی پکڑ لیے جو جنگ زدہ شام کی صورت حال رپورٹ کرنے یا وہاں امداد پہنچانے کی کوششیں کررہے تھے۔ جیسے جیسے امریکی شہریوں کے اغوا کی وارداتیں بڑھیں اور ان کا دائرہ مشرق وسطی تک وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے امریکی بیورو کریسی کا دردِ سر بھی بڑھتا چلا گیا۔

مئی 2014ء میں جب کہ ہنٹر کے دفتر نے برگڈال کی رہائی میں رکاوٹ بننے والے عوامل کی نشان دہی کردی تھی، دی اٹلانٹک (میڈیا کمپنی) کے مالک ڈیوڈ بریڈلے نے داعش کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے شہریوں کے والدین کو جارج ٹاؤن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا۔ بریڈلے کا خیال تھا کہ وہ بیوروکریسی کی بھول بھلیوں سے گزرنے میں ان کی مدد کرسکتا ہے۔

مگر ’’دی نیویارکر‘‘ میں شائع ہونے والی لارنس رائٹ کی اذیت ناک رپورٹ کے مطابق حکومتی ایجنٹوں نے بریڈلے اور متأثرہ خاندانوں کی راہ میں، ہر موڑ پر رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہل کاروں نے انھیں دھمکایا کہ دہشت گرد تنظیموں سے گفت و شنید کرنے کے ’جُرم‘ میں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ایف بی آئی نے بھی خفیہ طور پر یہی راستہ اختیار کیا۔ یرغمالیوں کے اہل خانہ کی راہ میں ایک ایسے نظام کار کے ذریعے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس کا مقصد ان کے بچوں کی رہائی سے زیادہ آپس کی لڑائیاں جیتنا نظر آتا تھا۔ اس کے لیے ایف بی آئی زیادہ قصور وار تھی۔ رائٹ نے اپنی رپورٹ میں ایف بی آئی کی نااہلیت کے واقعات سے لے کر مغویوں کے والدین کو لکھے گئے مایوس کُن پیغامات تک کئی باتوں کا ذکر کیا تھا

۔ سرکاری اداروں سے باہر اگر کسی نے کوئی حل پیش کرنا چاہا اور اس ضمن میں پیش رفت بھی کی تو اس کی حوصلہ شکنی کی گئی اور اس کی پیش رفت کو مسترد کردیا گیا۔

گذشتہ دسمبر میں وائٹ ہاؤس نے اس صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیے جانے کے احکامات جاری کیے۔ اور کیپیٹل ہل میں امیرائن کے بیان حلفی دیے جانے کے دو ہفتے بعد حکومت کی جانب سے پالیسی پر نظرثانی کا اعلان سامنے آگیا۔ صدارتی حکمنامے میں، جسے ’’بیرون ملک یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں اور سرکاری اہل کاروں کی بازیابی کی کوششیں‘‘ کے عنوان سے جانا جاتا ہے، صورت حال کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا گیاکہ :’’حکومت یرغمالیوں کے معاملات سے بہتر انداز میں نمٹے، اور بالخصوص ان خاندانوں کے ساتھ جن کے پیارے ان سے جدا کردیے گئے ہیں، رابطوں اور گفت و شنید کے عمل کو بہتر بنائے۔‘‘

یہ حکمنامہ غیرسرکاری اداروں یا شخصیات کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی اجازت دیتا ہے چاہے وہ یرغمالیوں کے خاندان ہوں یا پھر بریڈلے جیسے ہمدرد۔ حکمنامے میں اغوا کاروں کے ساتھ نجی یعنی غیرسرکاری سطح پر رابطہ کاری کی اجازت بھی دی گئی۔ وائٹ ہاؤس نے Family Engagement Team تشکیل دی اور وعدہ کیا کہ’’یرغمالیوں کے اہل خانہ کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘ تاہم تاوان نہ دینے کی قومی پالیسی میں کسی بھی تبدیلی کے امکان کو مسترد کردیا، جب کہ امریکی حکومت پاکستان سے لے کر فلپائن تک دہشت گرد گروپوں کو بار بار تاوان کی ادائیگی کرتی رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Hostage Recovery Fusion Cell کے قیام کی صورت میں، وائٹ ہاؤس کے جائزے میں ہنٹر کے کچھ ناقدین کو بھی جواب دیا گیا ہے۔ جائزے میں اس سیل کو ’امریکا کی واحد اور مستقل انٹرایجنسی باڈی (interagency body) کہا گیا ہے جو بیرون ملک امریکی یرغمالیوں کی بازیابی کے سلسلے میں جانے والی کوششوں کو مربوط کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔‘‘ لیکن یہ فیوژن سیل ایف بی آئی ہیڈکوارٹرز کے اندر ہی قائم کیا جائے گا، اور یوں عملاً یہ غیرمؤثر ثابت ہوگا۔ ہنٹر کے خیال میں ’’حکومت کا یہ اقدام محض دکھاوے کے لیے ہے۔

یرغمالیوں سے متعلق حکومتی پالیسی پر تنازع ایف بی آئی سے شروع ہوا تھا اور اسی کے ساتھ جاری رہے گا۔‘‘ ہنٹر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ کرنل جیسن امیرائن کی مشکلات کے پس پردہ یہی ایجنسی ہے۔ ’’کرنل جیسن امیرائن کا کیس اس کی اہم مثال ہے کہ ایف بی آئی ہر اس مفاد کے خلاف جو اس کا اپنا نہ ہو، کس طرح مزاحمت کرتی ہے۔‘‘

ری پبلک پارٹی سے تعلق رکھنے والے اراکین سینیٹ (چک گریسلے اور رون جونسن) کی سربراہی میں الگ الگ قائم کی گئی کمیٹیاں ایف بی آئی اور فوج سے جواب طلب کررہی ہیں کہ امریکی قوم کی طویل ترین جنگ کے اولین ہیروز میں شامل جیسن امیرائن یکایک کیسے راندۂ درگاہ قرار پایا۔ نیوزویک کو دیے گئے بیان کے مطابق سینیٹر جونسن نے کہا کہ ’’ کمیٹی کی جانب سے متعدد بار درخواست کرنے کے باوجود پینٹاگون ابھی تک اپنی تحقیقات کی تفصیلات فراہم نہیں کرسکا۔‘‘ پھر دس جولائی کو پینٹاگون نے سینیٹر گریسلے کی کمیٹی کو لکھے خط میں ہنٹر کے الزامات کو درست قرار دیا۔

فوج کی تحقیقات کے نتائج سے قطع نظر جیسن امیرائن نے خود کو ملنے والے احکامات کی تکمیل کی: بووے برگڈال اب زندہ سلامت اور اپنے گھر میں ہے۔ امیرائن اور ہنٹر کی کوششوں نے وائٹ ہاؤس کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کردیا ہے جس سے مستقبل میں بیرون ملک یرغمال بنائے گئے امریکیوں کو فائدہ پہنچے گا۔ وارن وینسٹن (فرینڈلی فائر) کے نتیجے میں زندگی ہار گیا ہے مگر دوسرے یرغمالیوں کی وطن واپسی کے امکانات بہتر ہوچکے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نومبر 2001ء کے اوائل میں جب جیسن امیرائن اپنے ماتحتوں کے ساتھ جنوبی افغانستان میں دشمن سے لڑنے کے لیے تیار تھا، اس نے اپنے رجسٹر میں لکھا:’’جب آپ حقیقی دشمن سے زیادہ اپنی چین آف کمانڈ ( chain of command) سے لڑنے کے بارے میں متفکر ہوں تو جنگ اُلجھ جاتی ہے۔‘‘ قریباً چودہ سال گزرجانے کے بعد بھی اس کی جنگ جاری ہے۔

سینیٹ کمیٹی کو امیرائن نے بتایا کہ اسے درپیش مشکلات کی خبر عام ہوتے ہی ان فوجیوں اور کیڈٹس کی طرف سے اسے بھرپور حمایت ملی ہے جو ویسٹ پوائنٹ میں اس کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ امیرائن کا کہنا تھا،’’میں ان کی حفاظت کے خیال سے خوف زدہ ہوں جب انھیں محاذ جنگ پر بھیجا جائے گا، اور وہ واشنگٹن میں میرے تحفظ کے لیے فکرمند ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔