کیا انسان آزاد پیدا ہوتا ہے؟ (پہلا حصہ)

خالد گورایا  ہفتہ 24 اکتوبر 2015
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

18 ویں صدی میں فلسفی ژاں ژاک روسو (Jean Jacques Rousseau) نے کہا کہ “Man is Born Free yet Everywhere he is in Chains” ’’انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن ہر جگہ پابند سلاسل ہے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہی نہیں ہے۔ فلسفہ تو الگ بات ہے لیکن سائنسی حقائق، تجربات، حواسی علم اور مشاہدے کوکسوٹی کے طور پر پرکھا جائے،کرۂ ارض پر انسانی و دیگر لا تعداد حیاتیات کودیکھا جائے تو ہمیں ’’ابوالبشر‘‘ حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک تمام پیدا ہونے والے انسانوں میں کوئی بھی انسان آزاد پیدا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، حتیٰ کہ نباتات، سمندری حیات، چوپائیوں، درندوں، زمین پر رینگنے والے کیڑوں، ہوا میں اڑنے والے پرندوں، دیگر لا تعداد زندہ ذروں (خلیو، جراثیموں) کوئی بھی آزاد پیدا نہیں ہوتا ہے،کائنات کی ابتدا کے بارے میں فلسفہ اور سائنس آج تک صحیح توضیح پیش نہیں کرسکے ہیں۔ مفروضات لا تعداد ہیں لیکن ثبوت نہیں ہیں۔

مشاہدے و تجربے کی بنیاد پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کردہ کھربوں نظام شمسی پر بنی کہکشاؤں کے لا تعداد جھرمٹوں کے بارے میں انسان جاننے کی کوششیں کرتا آرہا ہے۔

ہمارے موجودہ کہکشاں جس میں لا تعداد سورج اور سیارے محو حرکت ہیں۔ ان میں ہمارا سیارہ زمین بھی ہے۔ زمین پر تمام پائے جانے والے جاندار ایک ’’مربوط میکینکل یونیورسل سسٹم‘‘ کے تحت جنم لیتے ہیں۔ زندہ رہتے ہیں، انسانی گود کی ابتدا حضرت آدم علیہ السلام اور حوا ؑ سے شروع ہوئی جب اﷲ نے فرمایا ’’کُن‘‘ یعنی ’’ہوجا‘‘ اس کے بعد عدم سے تمام کہکشائیں وجود میں آگئیں۔ اور ایک منظم مربوط میکینکل سسٹم اسی لمحے ساتھ میں ہی وجود میں آگیا۔

زمین پر جانداروں کی ’’گودیت‘‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہر شے ہر جاندار’’کائناتی ہمہ گیرقانون‘‘ قدرت کے تابع عمل پذیر ہوگیا، ہرجاندار، نباتات، حیوانات ودیگر جاندار آبی زندگی، تمام اپنی تخلیق یا وجود میں آنے کے بعد اپنی اپنی نسل کو ’’گودیت‘‘ کے ذریعے بڑھانے لگے، پردادا کی گود میں دادا اور دادا کی گود میں باپ اور باپ کی گود میں بیٹا، بیٹی جنم لیتے آرہے ہیں۔

منظم مربوط ’’میکینکل سسٹم آف یونیورس‘‘ براہ راست اﷲ تعالیٰ کے تابع ہے، ہر شے اپنی اپنی جگہ اپنی اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی ہے، انسان جب پیدا ہوتا ہے اس کا پورا جسم میکینکل سسٹم کے تحت کام کر رہا ہوتا ہے۔ دل، پھیپھڑے، آنکھیں، معدہ اور تمام اعضا اپنا اپنا کام کررہے ہوتے ہیں۔

پیدائش کے بعد بچے میں کوئی تصور، خیال، شعور، بولنے والی زبان، نہ ہی کوئی نظریہ ہوتا ہے۔ اس کا جسم اپنی ساخت کے میکنزم کے مطابق قانون کائنات پر عمل کرتا ہے۔ ہر جاندار پیدائش کے بعد خوراک لینا شروع کردیتا ہے، چوپاؤں میں ہم روزمرہ زندگی میں دیکھتے ہیں بھینس، گائے،اونٹنی،گھوڑی جب اپنے اپنے بچے جنم دیتی ہیں تو پیدائش کے بعد ان کے بچے لڑکھڑاتے ہوئے دودھ (خوراک) پیتے ہیں،کیا انھیں کوئی شخص سکھاتا یا پکڑکر دودھ پینے کی طرف دھکیلتا ہے۔

انسانی معاشروں میں جنم لینے والے تمام بچے اپنے اپنے ماحول میں زبان، مذہب، ثقافتی کلچر بتدریج اپنے اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں۔ اس طرح ہر جاندار پیدا ہونے سے قبل اور پیدا ہونے کے بعد قانون کائنات کے ’’تابع‘‘ ہوتا ہے، جاندار کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہے، قانون کائنات کے مطابق ہر جاندار کو اس کی جسمانی ساخت کے مطابق اپنے اپنے جغرافیائی ماحول میں خوراک مہیا کی ہوئی ہے۔ (1) انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان بتدریج اپنے داخلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خارجی دنیا میں تبدیلیاں پیدا کرتا آرہا ہے، انسان اپنے چھ حواسوں کے ذریعے ترقی کرتا آرہا ہے۔

آنکھوں سے سیکھنے کا عمل،کانوں سے سننے کا عمل، ناک سے سونگھنے کا عمل، زبان سے بولنے اور چکھنے کا عمل، جسم کی جلد اور ہاتھ سے چھوکر محسوس کرنے کا عمل یعنی گرم سرد، سخت، نرم محسوس کرنے کا کام جلد اورہاتھوں کے ذریعے کرتا ہے۔ چھٹا اور سب پر مقدم عضو یا حواس دماغ (مغز) جو تمام دیگر پانچ حواسوں سے حاصل نتائج کو عمل میں ڈھالنے کے لیے پرکھتا ہے ’’آزادی عمل‘‘ کوکنٹرول کرتا ہے۔

اس کے بعد انسان شعوری طور پر عمل کرتا ہے، انسان کی تخلیق میں انسان کو تمام مخلوقات سے افضل بنانے میں انسانی دماغ کا کردار نمایاں ہے، دماغ یاد داشت کو محفوظ رکھتا ہے اور اسی وجہ سے انسان نے عددوں1،2،3 وغیرہ اور حروف تہجی (الف، ب، پ، ت یا A,B,C,D وغیرہ ایجاد کرلیے۔ ’’عضو دل‘‘ غیر ارادی فعل کرتا ہے، اگر کوئی جاندار بے ہوش ہوجائے تو دماغ سے جڑے تابع تمام عضو معطل ہوجاتے ہیں۔ چھونے یعنی احساس کرنے کی حِس گرمی، سردی، دیکھنے کا عمل، آنکھیں، چکھنے، سونگھنے، سوچنے، تصورات، خیال کے اعمال معطل ہوجاتے ہیں۔ دل، گردے، جگر، پھیپھڑوں سے جڑی باریک رگیں، مختلف سیال کی غدودوں والی باریک نالیاں اپنے عضوؤں کے تحت کام کرتی رہتی ہیں۔

انسان ہوش میں ہوتا ہے تو دونوں ارادی اور غیر ارادی فعل کرتا ہے مثلاً جیسے آپ کہیں جارہے ہیں اور ساتھ سوچوں میں گم ہیں ایک چیونٹی آپ کے پاؤں کو کاٹ لیتی ہے۔ آپ کا ہاتھ، یا دوسرا پاؤں ’’فوراً غیر ارادی‘‘ طور پر چیونٹی کو ہٹانے کے لیے عمل کرتا ہے اس طرح ہر جاندار کے جسم کا میکنزم اپنی اپنی ساخت کے مطابق کام کرتا ہے اور جسم کا میکنزم کائناتی اصول و میکنزم سے جڑا ہوا ہے۔

پوری کائنات اورکائنات میں پائے جانے والے ستارے (سورج) سیارے جیسے ہماری زمین کا ہرذرہ اپنے کائناتی میکنزم کے تابع عمل پذیر ہے، تابع کے معنی اطاعت، فرمانبرداری ہے، اس میں قیدی یا غلام کا تصور نہیں ہے، انسان کو پیاس لگتی ہے تو پانی یا کچھ اور پیتا ہے، بھوک لگتی ہے تو کھانا یا کچھ اور کھاتا ہے، کھانے کا عمل انسان کی اپنی جسمانی یا داخلی ضرورت ہے۔ ہر جاندار جب جنم لیتا ہے تو اس کے جسم کا تقاضا اسے دودھ کی طرف لے جاتا ہے اور وہ اپنی ماں کا دودھ پیتا ہے۔

(2)انسان اپنی داخلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خارجی ماحول میں تبدیلیاں کرتا ہے۔ جیسے بڑھتی خوراک کی ضرورت کو دیکھ کر انسان نے کاشت کاری کا طریقہ ایجاد کیا۔ ارد گرد کی اشیا کے بارے میں جاننا انسان کی سرشت میں ہے، جو ’’مشینی کلچر‘‘ اس وقت ہماری زندگی کا حصہ ہے۔

موجودہ مشینی کلچر اُن ہی لوگوں کی جدوجہد کا ثمر ہے، جنھوں نے کائناتی اصولوں کو جاننے کی کوششیں کیں، جیسے ارشمیدس (212-287ق م) نے ’’پانی میں اچھال‘‘ کا اصول دریافت کیا، ارشمیدس سے قبل ہزاروں لوگ ٹب میں نہائے ہوںگے۔ چوں کہ ارشمیدس کے سامنے بادشاہ Hiero کے سونے کے بنے تاج میں ملاوٹ کو ڈھونڈنا تھا۔

ارشمیدس جب ٹب میں اترا تو اس کے جسم کے ڈوبنے سے ٹب میں سے پانی باہر گرا، اس تجربے سے ارشمیدس نے مایع میں اچھال کا اصول دریافت کرلیا کہ پانی میں ڈوبے ہوئے جسم کا اتنا ہی وزن کم ہوجاتا ہے جتنا وزن باہر گرے ہوئے پانی کا ہوتا ہے۔

انسانی تاریخ میں بقراط، ارسطو، اقلیدس، ارشمیدس، بطلیموس، جالینوس، جابر بن حیان، ابو عثمان جاحظہ، محمد بن موسیٰ، خوارزمی، ابو محمد زکریا الرازی، الفارابی، ابوالقاسم الزہراوی، ابن الہشیم، البیرونی، عمر خیام، ابن النفیس، راجر بیکن، لیونار ڈو ڈاونچی، نکولس کوپرنیکس، ٹائکوبراہی، گلیلیو گیلیلی، جوہانزکپلر، ولیم ہاروے رینے ڈی کارٹے، بلیز پاسکل، رابرٹ، بوئیل، کرسچئین، ہائی کنز، النطون وان لیون ہک، رابرٹ ہک، نیوٹن کارل لی نیئس، لازارو، سبیلانزنی، ہنری کیونڈش، جوزف پریسلے، جیمز واٹ، کارل ولہم شیلے، جرمن اوٹو، آیساندرو ولٹا، ایڈورڈ جینر، بنجمن تھامپسن، جان ڈالٹن، ہمفرے ڈیوی، مائیکل فیراڈے، جوزف ہنری، لوئی آگاسی، میکس پلانک، لوئی پاسچر، لارڈ کیلون، جیمز کلرک میکسویل، میکس پلانک، جوزف تھامسن، مادام میری کیوری، الیگزینڈر فلیمنگ، تھامس ایلیوا ایڈیسن اور ان کے علاوہ کئی موجد سائنسدان ہیں۔

انسانی معاشروں میں جتنی ترقیاں، تبدیلیاں ہوئی ہیں یہ ان موجدوں اور سائنسدانوں کی مرہون منت ہیں جو معاشرہ جتنا زیادہ قانون کائنات کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اتنا ہی زیادہ ترقی کرتا ہے، جاننا، علم حاصل کرنا اور مشاہدہ کرنا اور پھر تجربہ کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ انسانی تاریخ میں نظریات، علم، تجربہ بھی انسانی معاشروں میں گود در گود انسانی داخلی تقاضوں اور خارجی دنیا میں تبدیلیوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے تبدیل ہوتے رہتے ہیں کوئی نظریہ حتمی اور قطعی نہیں ہوتا ہے۔

ابتدا میں کی جانے والی بھدی ایجاد ہوائی جہاز 1903 میں اور آج 2015 میں مزید ترمیموں اور تبدیلیوں کے ساتھ جدید ہوائی جہازوں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یہاں پر فلسفی ماہر، قانون دان، خادم تھیم، کے نقطہ نظر کو سامنے رکھتا ہوں ’’کہ بدلاؤ کو ہی بقاء ہے، باقی ہر شے (چیز) کو فنا ہے یہ بدلاؤ انسانیت، انسان کے لیے بہتر سے بہتر زندگی کی سہولیات کے لیے ہونا ہی قانون قدرت ہے‘‘ راقم الحروف کے نقطہ نظر کے مطابق انسان گزشتہ تجربے کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ اپنے لیے دنیا کو تبدیل کرسکتا ہے۔   (جاری ہے۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔