مریم نواز شریف، ملالہ یوسفزئی اور پاکستانی بچیوں کی تعلیم

تنویر قیصر شاہد  منگل 3 نومبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

26اکتوبر کے ہولناک بھونچال کے بعد محترمہ مریم نواز شریف کی بیالیسویں سالگرہ آئی ہے۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی نے زلزلہ زدگان سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اپنی سالگرہ کی تقریبات نہیں منائیں گی۔ زلزلے سے تقریباً تین سو پاکستانی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر اور لاتعداد زخمی ہیں۔ غم و اندوہ کی ان گھڑیوں میں مریم نواز کا سالگرہ نہ منانا اور زلزلہ متاثرین سے اظہارِ یک جہتی ایک مستحسن عمل ہے۔ اس اعلان نے اخلاقی سطح پر یقینا وزیراعظم کو بھی تقویت دی ہے۔

وزیراعظم کی صاحبزادی ہونے کے ناتے مریم نواز شریف کا نام کسی نہ کسی شکل میں اخبارات و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا میں گونجتا رہتا ہے لیکن جب سے میاں صاحب (دوسری بار) امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کرکے آئے ہیں، دخترِ اول کا اسمِ گرامی زیادہ نمایاں انداز میں سامنے آرہا ہے۔ مریم نواز اپنے والدِ گرامی اور والدہ صاحبہ کی ہمراہی میں واشنگٹن پہنچی تھیں اور وہائٹ ہاؤس کے بلیئر ہاؤس میں قیام پذیر ہوئیں۔ امریکا کی طرف سے آنے والی اس سرکاری دعوت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ امریکی خاتونِ اول مشعل اوباما کی جانب سے مریم نواز شریف کو خصوصی دعوت دی گئی تھی۔

یہ دعوت نامہ صدرِ امریکا کے ایک خصوصی ایلچی ڈاکٹر پیٹر لیوائے کے ہاتھ واشنگٹن سے براہ پاکستان میں مریم نواز کو پہنچایا گیا تھا۔ مشعل اوباما، جو پندرہ سے انیس سال کی بچیوں کی تعلیم کے لیے عالمی سطح کی ایک این جی او بھی چلاتی ہیں، مریم نواز شریف سے مل کر پاکستان میں بھی گرلز ایجوکیشن کو بڑھاوا دینا چاہتی ہیں۔ اس تعلیمی پروگرام کو Let  Girls  Learn کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس کے لیے 800 ملین ڈالر کے فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ امریکا 350 ملین ڈالر کے ساتھ، جنوبی کوریا دو سو ملین ڈالر اور جاپان ڈھائی سو ملین ڈالر کے ساتھ اس میں مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ مشعل، مریم نواز ملاقات کو اشاعت کے اعتبار سے امریکا کے سب سے بڑے اخبار ’’یو ایس نیوز اینڈو رلڈ رپورٹ‘‘ نے دو کالمی فوٹو کے ساتھ جس طرح پیش کیا، اسے غیر معمولی واقعہ کہا جانا چاہیے۔

مریم نواز شریف کی مشعل اوباما سے ہونے والی ملاقات خاصی ثمر آور ثابت ہوئی ہے کہ اب پاکستان کو ستّر ملین ڈالر مل سکیں گے۔ مریم نواز کے توسط سے اگلے تین برسوں میں (بشرطیکہ پاکستان اپنے ایجوکیشن بجٹ میں دگنا اضافہ کرے گا) یہ سات کروڑ ڈالر پاکستان کی دو لاکھ بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ ہوں گے۔ یقینا اس کے مثبت اثرات بھی مرتب ہوں گے اور مریم نواز کو اپنی شخصیت کے جوہر دکھانے کے مواقع بھی مل سکیں گے۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ دختر اول کے توسط و توسل سے خرچ ہونے والے ان تعلیمی فنڈز کا دائرہ لاہور اور اسلام آباد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ میرٹ اور انصاف کے ساتھ یہ فنڈز پورے پاکستان کی مستحق بچیوں پر یکساں تقسیم کیے جائیں گے۔ یوں شکوے شکایات بھی نہ ہوسکیں گے۔ جن لوگوں نے مشعل اوباما کو مریم نواز شریف کی مہمانداری اور خاطر داری کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے، گواہی دیں گے کہ امریکی انتظامیہ پاکستان کی دخترِ اول کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کرنے کی خواہشمند ہے۔

امریکی خاتونِ اول سے پاکستان کی دخترِ اول کی ہونے والی ان ملاقاتوں کو معمولی نہیں خیال کرنا چاہیے۔ اس کے لیے فریقین کی طرف سے بڑی محنت اور سنجیدگی سے کام لیا گیا۔ اس میں مستقبل کے منصوبے بھی شامل ہیں اور ان کی بنیادیں بھی۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، جو وطنِ عزیز کی ممتاز دانشور اور مصنفہ ہیں، کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ مشعل اوباما سے مریم نواز کی ملاقات یہ ظاہر کررہی ہے کہ میاں محمد نواز شریف اپنی صاحبزادی کی اسی طرح گرومنگ کررہے ہیں جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی تربیت کرتے تھے۔ بھٹو خاندان تو اب بھی امریکیوں سے تعلقات استوار کیے ہوئے ہے۔ مثال کے طور  پر گذشتہ دنوں ہی آصفہ بھٹو زرداری کی ہیلری کلنٹن، جو کہ صدارتی انتخاب لڑنے جارہی ہیں، سے طویل ملاقات۔

وہائٹ ہاؤس کے بلیوروم میں اپنی والدہ محترمہ کلثوم نواز اور امریکی خاتونِ اول مشعل اوباما کی موجودگی میں مریم نواز شریف نے پاکستان میں بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے جو خطاب کیا، اور جسے خاصا سراہا بھی گیا ہے، کہا جارہا ہے کہ مریم نواز کی باقاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے اور وزیراعظم نواز شریف اس معاملے میں سنجیدہ بھی ہیں تو اس میں بھلا کیا مذائقہ ہے؟ مریم نواز کو سیاست میں آنے سے محض اس لیے نہیں روکا جانا چاہیے کہ ان کے والدِ گرامی وزیراعظم اور ان کے چچا ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔

اگر مقتدر سرشاہ نواز بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم اور بھٹو کی صاحبزادی وزیراعظم اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر صدرِ پاکستان بن سکتے ہیں تو مریم نواز سیاسی میدان میں قدم کیوں نہیں رکھ سکتیں؟ اگر وزیراعظم محمد خان جونیجو کی صاحبزادی فضہ جونیجو کو رکن اسمبلی بنایا جاسکتا تھا تو قومی اسمبلی کے دروازے مریم نواز پر کیسے بند کیے جاسکتے ہیں؟ اگر امریکا میں صدر جارج بُش سینئر کے دو بیٹے گورنر اور ایک بیٹا امریکی صدر بن کر وراثتی سیاست میں کامیاب ہوسکتے ہیں تو پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے لیے وراثتی سیاست کو آگے بڑھانا قابلِ اعتراض کیوں؟

اگر بھارت میں ایک وزیراعظم (نہرو) کی بیٹی وزیراعظم بن سکتی ہیں اور پھر اس بیٹی کا بیٹا (راجیو گاندھی) بھارتی وزارتِ عظمیٰ کا تاج و تخت سنبھال سکتا ہے تو پاکستان میں مریم نواز کے راستے میں دیوار کیسے کھڑی کی جاسکتی ہے؟ اگر سری لنکا کے ایک وزیراعظم کی بیٹی (بندرا نائیکے) بھی اپنے ملک کی حکمران بن سکتی ہے تو مریم نواز سیاست میں کیوں نہیں آسکتیں؟ اگر کینیڈا کے (سابق) وزیراعظم پیری ٹروڈے کے 43سالہ صاحبزادے جسٹن ٹروڈے حال ہی میں انتخابی معرکہ جیت کر کینیڈا کے وزیراعظم بن سکتے ہیں تو محترمہ مریم نواز کو انتخابی اور اقتداری سیاست میں داخل ہونے سے کیونکر روکا جاسکتا ہے؟ اگر مریم نواز میدانِ سیاست میں اتر کر عوامی پذیرائی سے محروم رہتی ہیں تو یہ ایک الگ بات ہے لیکن ان کے راستے میں صرف اس لیے روڑے اور کانٹے نہیں بکھیرے جانے چاہئیں کہ وہ وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔

محترمہ مریم نواز شریف امریکی فنڈز سے پاکستانی لڑکیوں کا تعلیمی مستقبل بہتر اور محفوظ بنانے کے لیے جو خدمات انجام دینے جارہی ہیں، پاکستان کی ایک اور قابلِ فخر بیٹی بھی یہی مستحسن کام حاصل کردہ نوبل انعام کی رقم اور مغربی ممالک کے فراہم کردہ فنڈز سے سرانجام دے رہی ہیں۔ ان محترمہ کا نام ملالہ یوسفزئی ہے۔

ان کا نام اور کام ساری دنیا میں گونج رہا ہے۔ یہ مغربی اور امریکی میڈیا کا کرشمہ ہے۔ ملالہ آج دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستان کے خطے خیبر پختونخوا میں بچیوں کی تعلیم کے فروغ میں جو کارنامے انجام دے رہی ہیں، ان کی تحسین کی جانی چاہیے۔ ظالمان نے ’’کے پی کے‘‘ میں جن لاتعداد گرلز اسکولوں کو بموں سے تباہ اور زمین بوس کیا، ملالہ کے فراہم کردہ فنڈز سے ان گرلز اسکولوں کو پھر سے تعمیر بھی کیا گیا ہے اور وہاں لڑکیوں کی تعلیم پر ملالہ فنڈز بھی صَرف ہورہے ہیں۔

ملالہ کی طرف سے مگر گذشتہ دنوں جاری کردہ ایک بیان نے اہلِ پاکستان کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ یہ بیان ملالہ سے منسوب ہوکر شایع اور نشر ہوا ہے کہ وہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی خواہاں ہیں۔ اس خواہش کا اظہار عین اس وقت کیا گیا جب مودی حکومت بھارت میں مسلمانوں کے خون اور حُرمت کی پامالیاں اور بھارتی سیکیورٹی فورسز (BSF) ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شہید کررہی تھیں۔

جس وقت ملالہ، مودی سے ملاقات کرنے کی تمنا کا اظہار کررہی تھیں، عین اس وقت مودی کی فوجیں پاکستانی علاقے شکر گڑھ، نارووال اور سیالکوٹ میں پاکستانی شہریوں کو قتل اور ان کی عمارتوں پر بمباری کررہی تھیں۔ ملالہ کا یہ بیان پاکستانیوں کی اکثریت کو پسند نہیں آیا۔ چنانچہ نامناسب ہوگا کہ ان حالات میں ملالہ یوسفزئی بھارت جاکر مودی سے ملاقات کریں۔ جناب عبدالستار ایدھی کے ادارے نے نریندر مودی کی طرف سے پیش کردہ ایک کروڑ روپیہ قبول نہ کرکے شاندار اقدام کیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق، 46فیصد پاکستانی شہریوں نے ایدھی فاؤنڈیشن کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔