حالیہ بلدیاتی الیکشن اور ملکی سیاست

عبد الوارث  جمعـء 6 نومبر 2015

ایک طویل عرصے کے لیت و لعل کے بعد بالآخر ملک کے دو بڑے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا انعقاد کیا گیا۔ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں بلوچستان سب پر بازی لے گیا، جہاں پر یہ انتخابات سب سے پہلے منعقد ہوئے، یہ وہ انتخابات تھے جن پر سب سے کم سوالات اٹھائے گئے اور مجموعی طور پر پرامن ماحول میں قیمتی جانوں کے ضیاع کے بغیر ان انتخابات کے منعقد ہونے کو یقیناً کامیاب گردانا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد صوبہ خیبرپختونخوا میں ہونے والے انتخابات میں جس طرح قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا اور مبینہ دھاندلیوں اور بے قاعدگیوں کا ذکر کیا گیا ہے اس سے پورے ملک میں سیاسی درجہ حرارت بہت بڑھ گیا اور اپوزیشن جماعتوں نے صوبائی حکومت کو ان تمام دھاندلیوں اور قتل و غارت گری کا ذمے دار قرار دیا اور کچھ عرصے کے لیے صوبائی حکومت کے استعفے کی تحریک بھی شروع کی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دم توڑ گئی۔

الیکشن کمیشن نے ان تمام بے قاعدگیوں کا ذمے دار صوبائی حکومت کو قرار دیا جب کہ صوبائی حکومت نے ان تمام ناکامیوں کا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا، نتیجتاً کئی یونین کونسلوں میں فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات منعقد کروائے گئے جس کے بعد ناظمین کے انتخابات کرائے گئے اور مقامی حکومتوں کے قیام کا کٹھن مرحلہ مکمل ہو گیا۔ صوبائی حکومت کی جانب سے ایک خطیر رقم ان مقامی حکومتوں کے لیے مختص کی گئی ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ لوگوں کے مسائل گراس روٹ لیول پر ہی حل ہو سکیں گے۔

سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود جو ملک کے دو بڑے صوبوں کی حکومتیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر بلدیاتی انتخابات کی راہ میں بوجوہ روڑے اٹکاتی رہیں، کیوں کہ کوئی بھی حکومت اختیارات کو نچلے درجے تک منتقل کرنے سے ہچکچا رہی تھی تا کہ طاقت کا توازن اپنے حق میں برقرار رکھ سکے، اس سلسلے میں طرح طرح کے بہانے تراشے گئے تا کہ ان انتخابات کو لمبے عرصے تک ٹالا جا سکے۔ لیکن آخرکار یہ انتخابات منعقد کرائے گئے۔

خیبر پختونخوا کے تلخ تجربے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کو مرحلہ وار کرانے کا فیصلہ کیا جو کہ یقیناً ایک مستحسن اقدام تھا، کیونکہ اس سے مانیٹرنگ اور جانچ پڑتال کا نظام آسان بنانے میں مدد ملتی ہے لیکن ایک دفعہ پھر کئی ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے، جن میں سب سے افسوس ناک واقعہ خیرپور میں پیش آیا جہاں پر دو سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں 12 افراد کی زندگی کے چراغ گل ہو گئے۔

الیکشن کمیشن اور اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے سندھ حکومت پر اس واقعے میں براہ راست ملوث ہونے یا ذمے دار قرار دینے کا بیان سامنے آیا، جب کہ سندھ حکومت نے اس الزام کی تردید کرنے اور واقعے کی انکوائری کی یقین دہانی کرائی گئی۔ فائرنگ اور بے قاعدگیوں کے واقعات پنجاب سے بھی رپورٹ ہوئے، سب سے زیادہ خبریں فیصل آباد سے سامنے آئیں جہاں پر حکمران جماعت کے دو دھڑوں میں جھگڑے اور کئی مقامات پر فائرنگ کی وجہ سے شہروں میں خوف و ہراس پھیلا۔ صوبے کے کئی اضلاع میں مبینہ بے قاعدگیوں کی رپورٹس کے بعد الیکشن کمیشن نے ان اضلاع میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا ہے۔

ملک میں جاری سیاسی عدم برداشت اور عدم رواداری نے الیکشن کو اب ایک اکھاڑا بنا دیا ہے، سیاسی پارٹیاں اور افراد اپنے گروہی اور سیاسی اختلافات کو نفرت میں بدل کر ایک دوسرے پر اس طرح حملہ آور ہوتے ہیں جیسے دو دشمن آپس میں برسر پیکار ہیں۔ اس صورتحال کے ذمے دار ہمارے سیاسی لیڈر اور کمزور انتظامیہ ہے ان لیڈروں کی آشیر باد کی وجہ سے کارکن آپس میں گتھم گتھا ہوے سے گریز نہیں کرتے پھر پولنگ کے عمل کے دوران جس طرح بد نظمی اور لڑائی جھگڑا دیکھنے میں آتا ہے وہ یقیناً ایک تہذیب یافتہ (Civilized) معاشرے کی ترجمانی نہیں کرتا۔ یہ تمام واقعات دیہاتوں کے علاوہ شہروں میں بھی دیکھنے میں آئے ہیں اور شاید اب بدقسمتی سے ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے، ساتھ ہی ساتھ جگہ جگہ ہتھیاروں کا استعمال اور کھلے عام نمائش انتظامیہ کی کمزوری کا عکاس ہے۔

اس صورتحال کا ذمے دار کسی ایک پارٹی یا فرد کو نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اس سلسلے میں ہمارا پورا نظام زندگی آلودہ ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن کی بے بسی اور ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد میں ناکامی تو اب ہر طرف عیاں ہے، سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے جس طرح اس ضابطہ اخلاق کی دھجیاں اڑائی وہ سب کے سامنے ہے۔ یہی منظر لاہور کے حلقہ این اے 122 میں بھی سامنے آیا اور الیکشن کمیشن ایک خاموش تماشائی بن کر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا رہا۔ یہ تمام صورتحال ہمارے جمہوری نظام اور الیکشن کے نظام کے لیے کچھ اچھا شگون نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عام آدمی جس کا تعلق متوسط طبقے سے ہو ان الیکشن میں کامیابی تو کیا ان میں حصہ لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے اور یہ سارا عمل صرف با اثر اور امیر افراد تک محدود ہو گیا ہے، جو منتخب ہونے کے بعد اپنی پوزیشن کو استعمال کر کے پہلے اپنی اس سرمایہ کاری یا خرچے کو پورا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں جو انھوں نے الیکشن جیتنے میں صرف کی ہے۔ ان تمام حالات میں ان منتخب نمایندوں سے عوام کی خدمت کو اپنی اولین ترجیح رکھنا شاید ایک مذاق کے برابر ہی معلوم ہوتا ہے۔

صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات میں جس طرح بد نظمی اور پیسے کی ریل پیل نظر آتی ہے تقریباً وہی کچھ ان انتخابات میں بھی نظر آتا ہے اور محسوس ایسا ہی ہوتا ہے کہ ان مقامی حکومتوں کو اقتدار پر براجمان سیاسی جماعتیں اپنے مفادات اور طاقت کو مضبوط کرنے میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں تا کہ صوبے کے معاملات اور 2018ء میں ہونے والے انتخابات کے لیے اپنے لیے فضا سازگار بنا سکیں۔ اگر ان مقامی حکومتوں کو کھل کر کام کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کو فنڈز کی بروقت ترسیل کی جائے تو ایک عام آدمی کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے کیونکہ لوگوں کے زیادہ تر مسائل علاقائی نوعیت کے ہی ہوتے ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں گروہی اور علاقائی مفادات ہمیشہ قومی مفاد پر غالب رہے ہیں، اور انھی بنیادوں پر ہمیشہ الیکشن لڑا اور جیتا گیا۔ اگر ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالی جائے تو تقریباً ساری جماعتیں اپنے اپنے صوبے پر گرفت جمانے میں مصروف ہیں اور کہیں ایسی جماعت موجود نہیں جو بیک وقت پورے ملک  کی ترجمانی کرتی ہو، جو کہ ہماری یکجہتی اور سالمیت کے لیے کوئی اچھا شگون بہرحال نہیں ہے۔

ن لیگ کی ساری توجہ پنجاب پر ہے، تحریک انصاف خیبر پختونخوا اور پنجاب تک محدود ہے، ایم کیو ایم کا زور صرف سندھ کے شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ پیپلز پارٹی جس کو ایک زمانے میں وفاق کی علامت مانا جاتا تھا اب صرف سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو گئی ہے، ان تمام جماعتوں کی حکمت عملی کو اگر بغور دیکھا جائے تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ یہ تمام ہی جماعتیں صرف مخصوص علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں اور ان میں وفاقیت کا عنصر بہت کم ہے جو کہ یقیناً تشویش ناک امر ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ حالیہ ہیجان انگیز بلدیاتی انتخابات کے بعد لوگوں کے بڑھتے ہوئے مسائل میں کمی آئے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔