ترقی معکوس کا سفر

سید نور اظہر جعفری  منگل 10 نومبر 2015

قوموں کی زندگیوں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور دنیا بھر کی قومیں (وہ خوش قسمت قومیں) جہاں استعماریت نے قدم نہیں جمائے ترقی کرتی رہیں اورکر رہی ہیں۔گھوڑے کی پیٹھ پر سفر کرنیوالے رولز رائس والے بن گئے اور بن جانا تھا کیونکہ تاریخ کا سفر آگے کی سمت ہوتا ہے مگر جہاں بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات کے کھیل کھیلے وہ ملک صرف اس وجہ سے کہ اس ملک کے لوگوں نے ان طاقتوں کے ایجنٹ کا کردار انجام دیا، ہر سطح پر وہ ملک ترقی معکوس کا شکار ہوئے۔

ہم اپنے ملک کا شمار بھی بہت فخر کے ساتھ اس فہرست میں کرسکتے ہیں ۔ اب تو آپ جو بچت کرتے ہیں اس کا منافع Lowest سطح پر ہے اور عوام جو قرضہ لیں اس پر مارک اپ کی سطح Highest ہے جب کہ قائد اعظم نے جو پاکستان بنایا تھا، اس پاکستان میں یہ الٹ تھا مگر اس سے رئیسوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں کوکیا ملتا وہ بھی عام پاکستانی ہی کہلاتے لہٰذا وزارت خزانہ کے کرتا دھرتا جیسے مہربان ’’میں ہوں نا‘‘ کے تحت اب آپ کے محفوظ سرمائے کی منتقلی پر بھی نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔

ادھر آپ نے سرمایہ منتقل کیا اپنی ضرورت کے تحت نکالا اور ادھر انھوں نے With Holding کی ’’چٹکی‘‘ بھر لی۔ کبھی ہم ایسی خوش آیند خبریں سنا کرتے تھے کہ پاکستان فلاں سال میں خودکفیل ہوجائے گا اور پھر یہ کبھی ماضی میں سنتے رہے کہ پاکستان خودکفیل ہوگیا ہے مگر جب سے ملک میں دو بڑی پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہونا شروع ہوئیں اور اقتدارکی ’’بندربانٹ‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا تو ملک اس حال کو پہنچ گیا کہ ایک عوامی حکمران ذوالفقارعلی بھٹوکا قائم کیا ہوا ’’اسٹیل مل‘‘ اب ’’نجکاری‘‘ کے مرحلے میں ہے۔

جس ملک کے پاس اسٹیل مل ہو اس کی ترقی یقینی ہوتی ہے یہ ایک Hard Fact ہے پاکستان کے علاوہ پاکستان میں ’’اسٹیل مل‘‘ کو چلنے ہی نہیں دیا جا رہا تھا اور نہیں چلنے دیا جائے گا کیونکہ اس کے متوازی لوہے کی انڈسٹری نہیں چل سکے گی لہٰذا ملک کے بڑے بڑے اور تعمیراتی پراجیکٹ میں لوہا وہاں سے ملے گا جہاں سے بہت ’’زیرک‘‘ انداز میں Market کیا گیا۔ یہ اب کی بات نہیں 25 یا 30 سال سے یہ کام ہوتا رہا اور اب اسٹیل مل غیروں کے پاس جانے والا ہے جو اس سے آپ کو منافع کما کر دکھا دینگے۔ جس ملک میں ایک بڑے بینک کو چھوٹے بینک میں ضم کردیا جائے اربوں روپوں کے اثاثوں کے ساتھ صرف ایک ہزار روپے کے عوض اس ملک میں ’’ترقی معکوس‘‘ کی میری یہ گفتگو کیا غلط ہے اور آپ یہ دیکھئے کہ یہ سب کچھ Public ہوچکا ہے مگر پبلک کو اس کی پرواہ نہیں ہے۔

قائد نے پاکستان کی قومی زبان اردو کو قرار دیا تھا آج تک یہ قوم اپنی اس زبان کے اس Status سے محروم ہے۔ ہم نے دوسری زبانوں اور اس زبان کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی زبان میں کچھ نہیں ہو رہا اور لوگ ذاتی مفادات اس میدان میں بھی حاصل کر رہے ہیں زبانوں کو کچھ نہیں مل رہا۔

اردو بول رہے ہیں مگر اردو قومی زبان کے طور پر رائج نہیں ہے اڑسٹھ سال کے بعد بھی۔کیا دوسرے ملکوں میں ایک سے زیادہ زبانیں نہیں ہیں مگر ان کی ایک قومی زبان تو ہے۔ چینیوں کو انگریزی آتی ہے مگر وہ چینی بولتے ہیں جب پوچھا جاتا ہے تو ان کا راہ نما کہتا ہے کہ ’’ہم چینی اس لیے بولتے ہیں کہ دنیا کو بتا سکیں کہ ہم گونگے نہیں ہیں۔‘‘ مگر ہم فخریہ اپنے آپ کو ’’گونگا‘‘ مانتے ہیں۔ ہمارا وزیر اعظم، صدر ہر جگہ ’’انگریزی‘‘ بولتا ہے کیونکہ ہماری کوئی زبان نہیں ہے شاید! اشتہاروں میں صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنرز کے فوٹو اس شان سے لگائے جاتے ہیں سرکاری اخراجات پر جیسے کہ وہ منصوبہ ان حضرات یا خواتین وزرا کے ذاتی اکاؤنٹ سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔

حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ دینا اس کو کہتے ہیں۔ قائد اعظم کی تصاویر سے اپنا موازنہ کرنے والوں سے پوچھا جائے کہ قائد اعظم نے تو قوم کو پاکستان دیا ہے۔ آپ نے پاکستان کو کیا دیا ہے۔ بلکہ یہ تحقیق اور انکوائری ہونی چاہیے کہ تم نے پاکستان سے کیا ’’لیا‘‘ ہے۔ دنیا بھر کی اقوام رات دن سہولیات کے لیے کام کرتی ہیں اور ہم صرف ’’رشوت، چور بازاری، ناجائز منافع، ملاوٹ‘‘ کے لیے کام کرتے ہیں اور یہ کام بہت آرام سے ’’سرکاری سرپرستی‘‘ میں انجام پاتے ہیں کیونکہ ان ’’ضروری‘‘ کاموں کے علاوہ آپ کے کوئی کام نہیں ہوتے۔

دنیا کی تمام اقوام بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ان کی اکثریت شروع سے پانچ دن کام کرتی اور دو دن Rest & Recreation کے عمل سے گزرتی ہے اور ہم جب ان لغویات اور مفادات میں مبتلا ہوئے تو دو دن باقاعدہ کام کرتے ہیں اور پانچ دن Rest & Recreation۔ جس دفتر میں جائیے صاحب چھٹی پر ہیں۔

کلرک چھٹی پر ہے۔ بعض محکموں کے سربراہان تو دوسرے ممالک میں چھٹیاں منا رہے ہیں اور دفتر پاکستان میں چل رہا ہے ’’سرکاری بھتہ‘‘ یعنی رشوت انھیں باقاعدگی سے عدم موجودگی میں بھی مل رہی ہے کیونکہ واپسی پر ان تمام کاغذات پر Counter Sign تو وہی کریں گے۔ لہٰذا ان کے گماشتے یہاں ’’دودھوں نہاؤ اور پوتوں پھلو‘‘ کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں۔ یہ انگریز کی لگائی ہوئی ڈالی ہے جو پاکستان میں تناور درخت بن چکی ہے۔ ہمیں ’’برائیوں کا سوداگر‘‘ بناکر وہ ہماری شرافت اور دیانتداری کا لبادہ خود لے گئے اور پہن لیا۔

وہ ماضی کے ظالم لوگ جو ’’کالوں‘‘ پر ظلم کرنے کی بھیانک تاریخ رکھتے ہیں ان کے ملک میں ایک ’’کالا‘‘ ملک کا صدر بن گیا اور ہم نے گوروں کو نہ جانے کیا کچھ بنا کر اپنے منہ پر ’’کالک‘‘ مل لی ہے۔ جب ملک کے انتخابات میں ’’کھلی دھاندلیاں‘‘ موجود ہیں۔ ملک کی حکومتیں جعلی مینڈیٹ پر قائم ہو رہی ہیں اور چل رہی ہیں اور جس کا جی چاہے ’’جہاں دھاندلی‘‘ کرے جہاں چاہے ’’دھرنا‘‘ دے۔ اب کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔ اب تو نیا ٹرینڈ قائم ہو رہا ہے یہ ’’عمرانی ٹرینڈ‘‘ ہے جو ’’دھونس اور دھمکی‘‘ سے حکومت کرنے کا ٹرینڈ ہے۔ آپ پارٹی چیئرمین کی زبان سن لیں۔

ان کے وزیر اعلیٰ کی گفتگو سنیں آپ کو’’شرافت کا جنازہ‘‘ سامنے رکھا نظر آجائے گا۔ اور ایک وہی کیا؟ کئی سیاسی جماعتیں بھی بلکہ ’’سیاسی نیم مذہبی‘‘ جماعتیں بھی ایسی ہی زبان استعمال کرتی نظر آئیں گی زیادہ تر جملے ہوتے ہیں ’’یہ برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ ، ’’وہ برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ اور سب برداشت کر لیا جاتا ہے تھوڑے سے فائدے کے لیے۔ ملک کے عوام کا ’’جوس‘‘ نکال دیا ہے اس حکومت نے عام زبان میں اور یہ سارے نام نہاد عوامی لیڈر یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم برداشت نہیں کریں گے ان ’’سیاسی ڈراموں‘‘ نے قوم کو نامرادی، شکستگی، بزدلی، کم ہمتی کے امراض میں مبتلا کردیا ہے اور قوم خود اپنے آپ کو ان لیڈروں کے ہاتھوں ’’لٹتے، برباد ہوتے‘‘ دیکھ رہی ہے کوئی پیمانہ نہیں بچا برائی کا جو اس قوم کے رذیلوں نے عبور نہ کرلیا ہو مگر سزا نہیں ہے، جرائم کا وہی حال ہے، عورتوں بچوں کی حرمت پامال ہو رہی ہے، قائد کے پاکستان میں۔ ایک جرنیل کیا کرسکتا ہے کتنے محاذوں پر لڑ سکتا ہے۔

اللہ کرے کہ یہ قوم اٹھ کھڑی ہو۔ اس کے ’’مرد بیمار‘‘ جاگ جائیں۔ یہ سب مل کر مجھے غلط ثابت کردیں۔ ہم روشن اجالوں کی طرف سفر کریں اور تاریکیوں سے نکل آئیں۔ کاش! یہ دعا بھی ہے کہ خداوند کریم قوم کو نہ بدلے، قوم کی ذہنی، اخلاقی، مادی، حالت کو تبدیل فرمادے ورنہ اس کا اصول تو یہ ہے کہ وہ دوسری قوم کو لے آتا ہے پھر اس قوم کے بدلے جو اس کا راستہ چھوڑ دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔