انسانیت کا قتل

سید نور اظہر جعفری  منگل 17 نومبر 2015

سب کو سانپ سونگھ گیا ہے! سارے لوگ بے حس، بے درد اور ظالموں کی فہرست میں نام لکھوانے کو تیار ہیں مگر زبان سے ایک لفظ نہیں ادا ہورہا کیوں کہ خارجہ پالیسی کا کوئی اصول نہیں ہے ملک میں کوئی وزیر خارجہ نہیں ہے، لہجے میں وزن اور باتوں میں سچائی نہیں ہے اور اس بار یہ حال حکومت کا ہی نہیں عوام کا بھی ہے، سب خاموش ہیں، اپنے مفادات کے تحت فلسطین کارڈ استعمال کرنے والوں نے اب اسے موبائل کارڈ استعمال شدہ کی طرح ایک طرف پھینک دیا ہے کیوں کہ سعودی عرب نے فلسطین، اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا ہے اور نظر انداز کردیا ہے کہ یہ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے یہاں لوگوں نے ’’ہنود‘‘ کا اضافہ کردیا تھا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے تھا کہ ہندو پاکستان میں بھی بستے ہیں اور پاکستان کے ایسے ہی محب وطن شہری ہیں جیسے میں خود، مگر ان جماعتوں نے ’’ہنود‘‘ کا اضافہ ’’یہود‘‘ کے ساتھ کرکے اپنی دکانیں چمکالیں اور پاکستان میں ہندوؤں کا رہنا دشوار کردیا۔

کچھ علاقوں میں مقصد بد نیتی اور بد دیانتی ان کی جائیداد اور عزت پر نظریں اور اس کا کلمہ پڑھنے والے جس نے فتح مکہ کے بعد سارے لوگوں کو معاف ہی نہیں کردیا بلکہ اقلیتوں کے حقوق کی پابندی کی ہدایت کی، جزیہ لینے کا مطلب یہ تھا کہ آپ اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ یہاں بھی ٹیکس کی صورت یہ لوگ سرکاری ادائیگیاں کررہے ہیں مگر اپر سندھ کے حالات کو دیکھیں کہ کیا ہورہا تھا اور اب تک وہ خوف کی فضا ختم نہیں ہوئی، اغوا برائے تاوان میں بڑے بڑے نامی گرامی سیاسی لوگ شامل ہیں اور تھے، کیا ہوا کسی پر ہاتھ ڈالا گیا نہیں، کچھ نہیں ہوا، ایک چکی کراچی ہے۔

پیستے جاؤ جب تک پیس سکو، اعتراض کراچی پر نہیں ہے، دوسری جگہوں پر کیوں نہیں، کراچی میں ہی امن ضروری نہیں ہے بلکہ شکارپور، سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد کے علاقوں میں اور ملحقہ علاقوں میں بسنے والے اقلیتوں کے لوگوں کو بھی امن فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔

دنیا بھر میں کیا ہورہاہے جس کارڈ کو استعمال کرکے مخصوص جماعتوں نے سیاسی قوت حاصل کی اور ذاتی فائدے بھی حاصل کیے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ضیا الحق کے دور میں کس نے MAXIMUM فائدے حاصل کیے۔ تاریخ میں سب کچھ محفوظ ہے اور رہے گا تردید سے کیا حاصل۔تعلیمی اداروں کو کس نے تباہ کیا تھا وہ کونسی طلبہ تنظیم تھی، یہ کل کی باتیں ہیں کوئی دوچار صدی پہلے کی باتیں نہیں ہیں۔ انھیں جماعتوں کے ڈنڈا برداروں نے تعلیمی اداروں کے تقدس کو پامال کیا تھا۔ اب زور نہیں چلتا کیوں کہ مقابل کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے ہرجگہ!

سوشل میڈیا پر خود میں نے بھی پوسٹ کی ہے وہ تصویر بلکہ دو تصویریں شیئر کر کے جس میں ایک فلسطینی کم عمر بچے کے سینے میں گولی پیوست ہے اور وہ حیرت سے گولی چلانے والے اسرائیلی کو دیکھ رہا ہے جو سامنے کھڑا ہے، دو قدم کے فاصلے پر جس نے اس پر گولی چلائی ہے۔

اس بچے کی آنکھوں کی حیرت یاد رکھیے گا اور اب میانمار آجائے وہاں کی ایک تصویر آپ میرے اکاؤنٹ میں بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں ایک روہنگیا مسلمان بچے کو ایک بدھ بھگشو اپنے پیروں تلے دبائے ہوئے ہے ایک پیر گلے پر اور دوسرا پیر بچے کے نازک مقام پر وہ بچے پر کھڑا ہوا ہے اور وہ بچے کی آنکھوں میں بے گناہی کی اداسی کی شام اتر رہی ہے۔

پشاور کے اسکول میں ننھی کلیوں کو کچلنے والے مسلمان دیکھ لیں! ان میں اور ان میں کیا فرق ہے مسجدوں، امام بارگاہوں، اجتماعات کو نشانہ بنانے والے جو غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں وہ دیکھ لیں کہ انھیں کیا کرنا چاہیے، فلسطین کا یہ بچہ اور روہنگیا بچہ میانمار کا صرف مسلمان بچے ہیں ان کا ابھی دین سے بھی وہ تعلق شاید پورا قائم نہیں ہوا کہ یہ اختلاف کی سوچ رکھتے ہوں! ایک فرق ہے یہ بچے ان کے دشمن کے بچے ہیں اور ہمارے ملک کے بچے ہمارے اپنی قوم کے بچے ہوتے ہیں۔

کون زیادہ ظالم ہے جو دشمن کے بچوں کو مار رہا ہے حالانکہ دنیا بھر کی مذہبی کتابوں اور قوانین میں یہ بھی ظلم ہے، غلط ہے، ایک اور ’’کربلا‘‘ ہے مگر جو اپنے بچوں کو اپنی قوم پاکستانی بچوں علاقوں، مردوں کو ہلاک کریں، ان کو کیا نام دیا جائے، ہم قربانی دینے والی قوم ہیں۔

1947 کے آگ اور خون کا دریا عبور کر کے ہم نے پاکستان بنایا تھا مگر یہ مظلوم بچے فلسطین اور میانمار کے بچے عورتیں، مرد، ان کے بارے میں کوئی نہیں آواز اٹھاتا کوئی موم بتیاں نہیں جلاتا کوئی احتجاج نہیں ہے کہاں ہیں وہ نام نہاد مسلمانوں کی جماعتیں جنھوں نے پاکستان کو اپنی پسند کا اسلامی ملک بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے کیا مسلمان ایک جسم اور جان نہیں ہیں۔ NGO فنڈ کھاکھاکر عیش کررہی ہیں ہزاروں NGO ہیں اور ملک کے عوام کا حال وہی ہے، بلکہ بد تر ہے نہ جانے یہ NGO ملک کے کس حصے میں کام کرتی ہیں، کچھ کا کام تو نظر آتا ہے خدا انھیں اور توفیق دے باقی ساری VIP بیگمات کی انجمنیں ہیں جہاں ستائش باہمی اور کھانے پینے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا صاحب سرکاری ملازم ہیں اور بیگم NGO کی سرپرست، یعنی سرپرست، تو کون ان مسلمان بچوں کے بارے میں بات کرے۔

یہاں تو ہر چیز برانڈڈ ہے اسلام بھی برانڈڈ لانا چاہتے ہیں، شاید کوئی 73 واں فرقہ وجود میں آرہا ہے، خون ایک ہے مسلم کا اور وہ کوئی بھی ہو کہاں بھی ہو اس پر ہر مسلم آنکھ روتی ہے، رونا چاہیے، اقوام متحدہ گونگوں، بہروں کی جماعت ہے جہاں انصاف نہیں ملتا باقی سب کچھ ملتا ہے ہم تو اب امدادی ملک ہیں۔ قائد اعظم نے پاکستان کی فوج کی تعریف یوں ہی نہیں کی تھی، ان کی دور رس نگاہوں نے پاکستان کی فوج کو پہچان لیا تھا لوگو! خدا کا خوف کرو، کشمیر، فلسطین، روہنگیا مسلمانوں کا خیال کرو، ان کے بارے میں اٹھو اور احتجاج کرو، ان جماعتوں کو چھوڑو ان کے اپنے ایجنڈے میں اسلام کا صرف پرچم بنایا ہوا ہے، ہرایک نے اپنا اپنا، اور نہ NGO کچھ کریںگی نہ اقوام متحدہ، ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا، میں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے اب آپ کی باری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔