جرم کوئی نہیں مگر ’’قیدی’’ تو ہم سب ہیں
ایک مدت کے گزجانے کے بعد قیدی بھی اپنے قید خانے سے محبت کر ہی بیٹھتا ہے۔
خود کے بجائے خدا سے محبت کی جائے تو رستے ہی منزل بن جائیں گے اور بلا شبہ کامیابی ہمارے قدم اور حوصلے آسمان چھو ہی لیں گے۔ فوٹو :فائل
PESHAWAR:
قیدی ضروری نہیں جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد ہی اس شرف سے بہرہ مند ہو، بلکہ بسا اوقات تو اس کا کسی خود ساختہ اور مصنوعی فوقیت و برتری پرست گروہ کی تخلیق کردہ ''تعصب'' کی بنا پر کسی رنگ، نسل یا ذات سے تعلق رکھنے پر بھی اُس کا نصیب زندان کی اونچی دیواروں کو تکنا ہی بن جاتا ہے اور وہ پیدائشی قیدی بن جاتا ہے۔
میرا خاندان بھی کچھ ایسے مصائب کے کوہساروں کی سربہ فلک اونچائیوں کو تکنے کے سوا کچھ نہ کرسکا اور اپنی آزادی کا پوٹلہ خواہشات کی لہروں میں حقوق کے دریا میں بہا دیا جو من موجی سمندر میں جاگرا اور آبی مخلوق کی خوراک بنا۔
آئیے اس قید خانے کی سیر کریں۔
کہتے ہیں کہ اس قید خانے کی تاریخ بڑی سبق آموز اور روح فرسا مناظر سے سرشار او ر قربِ قیامت کے آثار میں سے ہے۔ یہ قید خانہ دنیا کے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسکے طول و عرض میں پہاڑی سلسلے، سلگتے ریگستان، بہتے دریا، اُمید کی فصلِ بہار سے لہلہاتے میدان، ظلم کی تاریکی میں اُمید کی کرنوں سے جگمگ کرتے شہر اور آبرو کے آبگینوں کو چور ہوتے دیکھ کر بھی مسلسل مسکراتے، بانہیں پھیلائے، اناج پروستے دیہات ہیں۔
کئی سال پہلے اس قید خانے کو عین شیطانی نفس کی طرز پر تعصبانہ بنیاد پر 4 بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس قید خانے کی باگ دوڑ سنبھالنے اور قیدیوں کی سزا برقرار رکھنے کیلئے 4 جلاد ہر 5 سال بعد مسلط کئے جاتے ہیں، کچھ 5 سال پورے کرتے ہیں اور کچھ تسلسل کی ڈور سے موتی کی طرح پھسل اور اقتدار سے نکل جاتے ہیں اور کیا کہیے نام نہاد، ادنیٰ ظرف اور انصاف کے ٹھیکیداروں کا کہ گود سے لحد تک مظالم کی بارش سے تر ہی رکھتے ہیں اور بد سے بدتر رکھتے ہیں۔
ہاں! قابلِ ستائش آزادی یہاں بچے پیدا کرنے کی آزادی ہے، کیونکہ آبادی ہوگی نہیں تو کوڑوں کی سنسناہٹ، گالیوں اور ذلت کی آری سے گلے کس کے کاٹیں گے؟ تو پیدائش کے بعد اپنی سفاکی کا مظاہرہ بڑا پُر زور انداز سے کرتے ہیں کہ موت بھی کانپ اُٹھے۔ دنیا میں آنے والے بچوں کو قتل تو کبھی پیرہنِ حیات میں پانی کی کمیابی کے پیوند لگا کر تو کبھی اسکولوں میں دھماکوں یا اُن کو محرومِ آبرو کرکے زندگی کی بھیک دیتے ہیں اور یوں ہی پُر خطر تاروں کو اپنی زینت، کوڑوں کے نشانوں کو علامتی نشان، بے باک زبانوں سے نکلتے انگاروں کو ہضم کرتے کرتے یہ بچے قید خانے کے دوسرے پڑاؤ میں پہنچ جاتے ہیں جی ہاں جوان ہوجاتے ہیں۔
اب یہ نسل جلادوں کیلئے مزید مظالم سہنے اور ایک مثلِ فولاد دیوار ہوتی ہے جس پر جو تحریک چاہے ''وال چاکنگ'' سے اپنا نام لکھ دے اور ضرورت کے پیشِ نظر دیواروں کو مسمار کرنے کا حق بھی ''وال چاکنگ'' والی تحریکوں کے پاس منتقل ہوجاتا ہے، چونکہ اس قید خانے میں بد ترین سیاست بھی ہے جو شفافیت اور محاسبہ سے پاک دامن ہے۔ لہٰذا اس نحوست زدہ سیاست کیلئے نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور بد دیانتی، بے ایمانی، انتقام اور خون ریزی کے ملیدے میں تلخی کا تڑکا لگا کر کڑوے، بد ذوق اور ناقابلِ تقلید و اتباع درندے تیار کئے جاتے ہیں۔
یہ مراحل نہایت پُر خطر ہوتے ہیں اور جو اُس کڑواہٹ کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیتا ہے اُسے چند لاکھ روپے، ہزاروں شمعیں اور یک روزہ سوگ کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔ اِس رخصتی تقریب میں ترانے کی گونج کئی مُردہ ضمیروں میں روح پھونکتی ہے اور ذہن کے کسی کونے سے صدا آتی ہے کہ یہ،
اور پھر نومولود ضمیر ناگزیر حالات کا سامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کبھی بے روزگاری آڑے آتی ہے تو کبھی دہشت گردی کے واقعات، کبھی مذاہب سے پرکھا جاتا ہے تو کبھی مہنگائی کے باریک تاروں سے آبرو تار تار کی جاتی ہے، اِن تمام آلام زدہ حالات میں جینے والے بہر کیف قیدی اور نسل در نسل قیدی ہی ہیں۔ شاید اِن آزاد جسموں کو نفس کی غلامی کے ساتھ اعصاب کی قید بھی پسند آنے لگی ہے اور اپنی خواہشات کو ہی خبر بنا کر مسرت سے جھومتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قلب پر تاریکی کے دبیز پردے چڑھائے، بغض اور کینہ کی بیڑیوں میں سموئے غلامی کے طوق پہن کر وہ اُس مقام پر پہنچنے سے قاصر ہیں جو اُن کے خالق نے اُن کے لئے مخصوص فرمایا ہے۔
ویسے تو اس قید خانے کا نظامِ ابلاغ بڑا ہی جدید اور نِت نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے مگر نام نہاد آزاد میڈیا بھی جکڑا ہوا ہے۔ عوام کی آواز کی اعلیٰ حکام تک رسائی کی خاطر چند چائے خانے کھلتے تو ہیں مگر ہر شام سرد اسٹوڈیو میں گرم چائے پیتے ہوئے ریشم کی ٹائی پہن کر قوم کی گردن سے غلامی کے طوق نکالنے کی بات بے معنی لگتی ہے۔ البتہ چند اینکرز اور مہمان تو بے مقصد، بلا تحقیق، بے ترتیب اور بے نتیجہ گفت و شنید کے بعد مناسب ڈیل کرکے اُٹھتے ہیں اور یوں میڈیا کی دکان بھی خوب چمکتی ہے۔
مگر یہ چمک بے نور آنکھوں کیلئے ہی بہتر ہے کیونکہ اصل خوبصورتی کا سر چشمہ تو دل ہوتا ہے اور اگر دل میں تاریکی غالب آجائے تو انسان بے ایمان ہوجاتا ہے۔ پھر ظاہر ہے ایمان کا تعلق تو دل سے ہے مگر اس قید خانے میں کچھ دل کا حال بتانے والے ''مولانا'' بھی پائے جاتے ہیں جو چہرہ دیکھ کر ہی فتویٰ دینے کا فن رکھتے ہیں اور اپنی انا کی خاطر ہر دوسرے شخص کو کافر کہنا اپنا شرعی حق اور سماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اُن کا بس چلے تو بچوں کو رونے، خواتین کو کمانے، جگنو کے چمکنے، بھنورے کے گنگنانے، بادل کے رستے بدلنے، دریا کے چلنے اور اُن کے ہر ایک فلسفے پر سر نہ جھکانے پر ''کافر'' اور ''جنت'' میں پہنچنے سے ''قاصر'' قرار دے دیں۔ تاحال ایسی ہی چند شخصیات کے طفیل اس قید خانے میں مزید فساد برپا ہوا اور کئی مانگیں اُجڑیں، کئی آنکھیں بے نور اور کئی گودیں بے رونق ہوگئیں۔ بے رونقی جتنی بھی چھا جائے ایک مدت کے بعد بے وفا طوطا بھی پنجرے سے، چڑیا اپنے گھونسلے سے، غریب اپنی جھونپڑی سے اور قیدی اپنے قید خانے سے محبت کر ہی بیٹھتا ہے اور یہ محبت ہی تو ہے جو دلوں کو نرم کرتی ہے۔ خود کے بجائے خدا سے محبت کی جائے تو رستے ہی منزل بن جائیں گے اور بلا شبہ کامیابی ہمارے قدم اور حوصلے آسمان چھو ہی لیں گے۔
بس دیر اتنی ہے کہ ''کتابِ بلاغت'' کو جزدان سے نکال کر چوما جائے اور اُس میں موجود 7 منزلوں کو اپنی حتمی منزل تسلیم کرکے اُس علیم، بصیر اور خبیر کے حضور توبہ کے دروازوں پر دستک دی جائے۔ یقینًا جواب آئے گا اور قیدیوں کی رہائی کا سامان لائے گا، فی الحال رات بہت ہوگئی کوئی قیدیوں کیلئے کھانا لائے گا۔ یہ آواز تو جلاد کے قدموں کی ہے، لگتا ہے کہ کوئی آرہا ہے پھر کلام ہوگا بشرطِ وفاء زندگی۔
فقط،
آپ کا قیدی
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
قیدی ضروری نہیں جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد ہی اس شرف سے بہرہ مند ہو، بلکہ بسا اوقات تو اس کا کسی خود ساختہ اور مصنوعی فوقیت و برتری پرست گروہ کی تخلیق کردہ ''تعصب'' کی بنا پر کسی رنگ، نسل یا ذات سے تعلق رکھنے پر بھی اُس کا نصیب زندان کی اونچی دیواروں کو تکنا ہی بن جاتا ہے اور وہ پیدائشی قیدی بن جاتا ہے۔
میرا خاندان بھی کچھ ایسے مصائب کے کوہساروں کی سربہ فلک اونچائیوں کو تکنے کے سوا کچھ نہ کرسکا اور اپنی آزادی کا پوٹلہ خواہشات کی لہروں میں حقوق کے دریا میں بہا دیا جو من موجی سمندر میں جاگرا اور آبی مخلوق کی خوراک بنا۔
آئیے اس قید خانے کی سیر کریں۔
کہتے ہیں کہ اس قید خانے کی تاریخ بڑی سبق آموز اور روح فرسا مناظر سے سرشار او ر قربِ قیامت کے آثار میں سے ہے۔ یہ قید خانہ دنیا کے پر پھیلا ہوا ہے۔ اسکے طول و عرض میں پہاڑی سلسلے، سلگتے ریگستان، بہتے دریا، اُمید کی فصلِ بہار سے لہلہاتے میدان، ظلم کی تاریکی میں اُمید کی کرنوں سے جگمگ کرتے شہر اور آبرو کے آبگینوں کو چور ہوتے دیکھ کر بھی مسلسل مسکراتے، بانہیں پھیلائے، اناج پروستے دیہات ہیں۔
کئی سال پہلے اس قید خانے کو عین شیطانی نفس کی طرز پر تعصبانہ بنیاد پر 4 بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس قید خانے کی باگ دوڑ سنبھالنے اور قیدیوں کی سزا برقرار رکھنے کیلئے 4 جلاد ہر 5 سال بعد مسلط کئے جاتے ہیں، کچھ 5 سال پورے کرتے ہیں اور کچھ تسلسل کی ڈور سے موتی کی طرح پھسل اور اقتدار سے نکل جاتے ہیں اور کیا کہیے نام نہاد، ادنیٰ ظرف اور انصاف کے ٹھیکیداروں کا کہ گود سے لحد تک مظالم کی بارش سے تر ہی رکھتے ہیں اور بد سے بدتر رکھتے ہیں۔
ہاں! قابلِ ستائش آزادی یہاں بچے پیدا کرنے کی آزادی ہے، کیونکہ آبادی ہوگی نہیں تو کوڑوں کی سنسناہٹ، گالیوں اور ذلت کی آری سے گلے کس کے کاٹیں گے؟ تو پیدائش کے بعد اپنی سفاکی کا مظاہرہ بڑا پُر زور انداز سے کرتے ہیں کہ موت بھی کانپ اُٹھے۔ دنیا میں آنے والے بچوں کو قتل تو کبھی پیرہنِ حیات میں پانی کی کمیابی کے پیوند لگا کر تو کبھی اسکولوں میں دھماکوں یا اُن کو محرومِ آبرو کرکے زندگی کی بھیک دیتے ہیں اور یوں ہی پُر خطر تاروں کو اپنی زینت، کوڑوں کے نشانوں کو علامتی نشان، بے باک زبانوں سے نکلتے انگاروں کو ہضم کرتے کرتے یہ بچے قید خانے کے دوسرے پڑاؤ میں پہنچ جاتے ہیں جی ہاں جوان ہوجاتے ہیں۔
اب یہ نسل جلادوں کیلئے مزید مظالم سہنے اور ایک مثلِ فولاد دیوار ہوتی ہے جس پر جو تحریک چاہے ''وال چاکنگ'' سے اپنا نام لکھ دے اور ضرورت کے پیشِ نظر دیواروں کو مسمار کرنے کا حق بھی ''وال چاکنگ'' والی تحریکوں کے پاس منتقل ہوجاتا ہے، چونکہ اس قید خانے میں بد ترین سیاست بھی ہے جو شفافیت اور محاسبہ سے پاک دامن ہے۔ لہٰذا اس نحوست زدہ سیاست کیلئے نوجوانوں کو استعمال کیا جاتا ہے اور بد دیانتی، بے ایمانی، انتقام اور خون ریزی کے ملیدے میں تلخی کا تڑکا لگا کر کڑوے، بد ذوق اور ناقابلِ تقلید و اتباع درندے تیار کئے جاتے ہیں۔
یہ مراحل نہایت پُر خطر ہوتے ہیں اور جو اُس کڑواہٹ کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیتا ہے اُسے چند لاکھ روپے، ہزاروں شمعیں اور یک روزہ سوگ کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔ اِس رخصتی تقریب میں ترانے کی گونج کئی مُردہ ضمیروں میں روح پھونکتی ہے اور ذہن کے کسی کونے سے صدا آتی ہے کہ یہ،
''تو تحفہ ہجرت ہے، آقا کی بشارت ہے، شہدا کی امانت ہے، شاعر کا خواب ہے، قائد کی محنت ہے اور رمضان المبارک کی برکت ہے''۔
اور پھر نومولود ضمیر ناگزیر حالات کا سامنا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر کبھی بے روزگاری آڑے آتی ہے تو کبھی دہشت گردی کے واقعات، کبھی مذاہب سے پرکھا جاتا ہے تو کبھی مہنگائی کے باریک تاروں سے آبرو تار تار کی جاتی ہے، اِن تمام آلام زدہ حالات میں جینے والے بہر کیف قیدی اور نسل در نسل قیدی ہی ہیں۔ شاید اِن آزاد جسموں کو نفس کی غلامی کے ساتھ اعصاب کی قید بھی پسند آنے لگی ہے اور اپنی خواہشات کو ہی خبر بنا کر مسرت سے جھومتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قلب پر تاریکی کے دبیز پردے چڑھائے، بغض اور کینہ کی بیڑیوں میں سموئے غلامی کے طوق پہن کر وہ اُس مقام پر پہنچنے سے قاصر ہیں جو اُن کے خالق نے اُن کے لئے مخصوص فرمایا ہے۔
ویسے تو اس قید خانے کا نظامِ ابلاغ بڑا ہی جدید اور نِت نئی ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے مگر نام نہاد آزاد میڈیا بھی جکڑا ہوا ہے۔ عوام کی آواز کی اعلیٰ حکام تک رسائی کی خاطر چند چائے خانے کھلتے تو ہیں مگر ہر شام سرد اسٹوڈیو میں گرم چائے پیتے ہوئے ریشم کی ٹائی پہن کر قوم کی گردن سے غلامی کے طوق نکالنے کی بات بے معنی لگتی ہے۔ البتہ چند اینکرز اور مہمان تو بے مقصد، بلا تحقیق، بے ترتیب اور بے نتیجہ گفت و شنید کے بعد مناسب ڈیل کرکے اُٹھتے ہیں اور یوں میڈیا کی دکان بھی خوب چمکتی ہے۔
مگر یہ چمک بے نور آنکھوں کیلئے ہی بہتر ہے کیونکہ اصل خوبصورتی کا سر چشمہ تو دل ہوتا ہے اور اگر دل میں تاریکی غالب آجائے تو انسان بے ایمان ہوجاتا ہے۔ پھر ظاہر ہے ایمان کا تعلق تو دل سے ہے مگر اس قید خانے میں کچھ دل کا حال بتانے والے ''مولانا'' بھی پائے جاتے ہیں جو چہرہ دیکھ کر ہی فتویٰ دینے کا فن رکھتے ہیں اور اپنی انا کی خاطر ہر دوسرے شخص کو کافر کہنا اپنا شرعی حق اور سماجی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اُن کا بس چلے تو بچوں کو رونے، خواتین کو کمانے، جگنو کے چمکنے، بھنورے کے گنگنانے، بادل کے رستے بدلنے، دریا کے چلنے اور اُن کے ہر ایک فلسفے پر سر نہ جھکانے پر ''کافر'' اور ''جنت'' میں پہنچنے سے ''قاصر'' قرار دے دیں۔ تاحال ایسی ہی چند شخصیات کے طفیل اس قید خانے میں مزید فساد برپا ہوا اور کئی مانگیں اُجڑیں، کئی آنکھیں بے نور اور کئی گودیں بے رونق ہوگئیں۔ بے رونقی جتنی بھی چھا جائے ایک مدت کے بعد بے وفا طوطا بھی پنجرے سے، چڑیا اپنے گھونسلے سے، غریب اپنی جھونپڑی سے اور قیدی اپنے قید خانے سے محبت کر ہی بیٹھتا ہے اور یہ محبت ہی تو ہے جو دلوں کو نرم کرتی ہے۔ خود کے بجائے خدا سے محبت کی جائے تو رستے ہی منزل بن جائیں گے اور بلا شبہ کامیابی ہمارے قدم اور حوصلے آسمان چھو ہی لیں گے۔
بس دیر اتنی ہے کہ ''کتابِ بلاغت'' کو جزدان سے نکال کر چوما جائے اور اُس میں موجود 7 منزلوں کو اپنی حتمی منزل تسلیم کرکے اُس علیم، بصیر اور خبیر کے حضور توبہ کے دروازوں پر دستک دی جائے۔ یقینًا جواب آئے گا اور قیدیوں کی رہائی کا سامان لائے گا، فی الحال رات بہت ہوگئی کوئی قیدیوں کیلئے کھانا لائے گا۔ یہ آواز تو جلاد کے قدموں کی ہے، لگتا ہے کہ کوئی آرہا ہے پھر کلام ہوگا بشرطِ وفاء زندگی۔
فقط،
قیدی ہو کر قفس کو چمن جاننے والا
غربت کے غم کدے کو وطن جاننے والا
خود ساختہ سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹنے والا
سزا وار لازم اور پیدائشی ملزوم لقب پانے والا
قیدی نسل در نسل قید پانے والا
آپ کا قیدی
[poll id="783"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔