بُک شیلف

’’جودر اور اس کے بھائی‘‘ بچوں کی الف لیلہ سلسلے کی پانچویں کتاب ہے جسے محمد سلیم الرحمٰن نے اردو روپ بخشا:فوٹو: فائل

’’جودر اور اس کے بھائی‘‘ بچوں کی الف لیلہ سلسلے کی پانچویں کتاب ہے جسے محمد سلیم الرحمٰن نے اردو روپ بخشا:فوٹو: فائل

حضرت جنید بغدادیؒ
مصنف: پروفیسر مرزا صفدر بیگ
قیمت :600 روپے،صفحات: 346
پبلشر: بک کارنر، بک سٹریٹ ، جہلم

صوفیاء کرام ؒ نے پوری دنیا میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا بلکہ یہ کہا جائے کہ دنیا میں اسلام پھیلا ہی صوفیا ء کی بدولت ہے تو غلط نہ ہو گا ۔ کیونکہ یہ صوفیا ء ہی ہیں جو اسلام کی تبلیغ کے لئے بے سروسامانی کی حالت میں بھی دوردراز علاقوں تک جا پہنچے۔

صوفیاء نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے کا جو طریقہ اپنایا اس سے نہ صرف راہ حق کے متلاشیوں کی راہنمائی ہوئی بلکہ تصوف کا ایک ایسا روشن راستہ بھی متعارف ہوا جو حق کے جویا افراد کے کے لئے آج بھی مشعل راہ ہے۔ زیر تبصرہ کتاب حضرت جنید بغدادی ؒ کی حیات طیبہ کا احاطہ کرتی ہے۔ آپ کا شمار تبع تابعین میں ہوتا ہے۔

آپ نے اپنے ماموں حضرت سری سقطیؒ کے ہاں پرورش پائی جو کہ اس وقت کے صوفیاء میں ممتاز مقام رکھتے تھے اس لئے تصوف سے آپ کا ناتا شروع سے ہی جڑ گیا، حضرت سری سقطیؒ نے آپ کو تصوف کے رموز سے آشنا کرایا بعد ازاں آپ حضرت حارث المحاسبیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تصوف کی منزلیں طے کیں۔

فقہ کی تعلیم آپ نے حضرت ابو عبیدؒ اور حضرت ابو ثورؒ سے حاصل کی ۔ اس کے علاوہ اس کے دور کے دیگر جید اساتذہ کرام اور صوفیاء سے بھی کسب فیض کیا ۔ آپ بغداد کے صوفی مدرسہ سے منسلک رہے اور تیسری صدی ہجری کے آخر میں استاد و مرشد و معلم ملہم قرار پائے، یہ مدرسہ دوسرے صوفی مدارس سے افکار میں بہت مختلف تھا۔ اس مدرسے نے خدا اور انسان کے بارے میں از سر نو بحث و استفسار کا دروازہ کھولا ۔ ذاتی تجربے کی بہت اہمیت جتائی اور یوں ہر اس روایتی تصور کی چولیں ہلا ڈالیں جو اس وقت تک مسلمہ سمجھا جاتا تھا۔

لیکن روایتی تصورات کو متزلزل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اسلامی روایات کو ایک نئی زندگی اور نیا آہنگ بھی عطا کیا اور انھیں عام سطح سے اٹھا کر نئی اخلاقی اور تخیلی بلندیوں پر جا پہنچایا۔ اس مدرسے کے آج کے زمانے تک کے تمام صوفیاء پر اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ مصنف نے حضرت جنید بغدادیؒ کی زندگی کو احاطہ تحریر میں لانے سے قبل بہت تحقیق کی ہے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

میں ساحر ہوں
مصنفین:چندرورما، ڈاکٹرسلمان عابد
قیمت:800 روپے،ناشر:بک کارنرشوروم، جہلم
ساحرلدھیانوی کے اس دنیائے فانی سے چلے جانے کے بعد بہت کچھ لکھا گیا، ان کی زندگی کو ہر زاویہ سے لکھا اور پڑھا گیا، تاہم اس کے باوجود ان کے بارے میں لکھنے اور پڑھنے کی پیاس ختم نہیں ہورہی ہے۔

ہرچاہنے والے نے ساحر پر جی بھر کے لکھا۔ آپ نے ساحر پر لکھی تمام کتابیں پڑھ رکھی ہوں گی لیکن شاید آپ کو بھی گلہ ہوگا کہ بہت سی کتابوں میں تحقیق سے کام نہیں لیاگیا۔ سبب یہ ہے کہ لکھنے والوں نے ساحر کی زندگی کا گہرا مطالعہ نہیںکیا، انھیں جو معلومات آسانی سے ملیں، انھی کی بنیاد پر کتابیں لکھ دیں۔ زیرنظرکتاب کے مصنف کے مطابق ’’یہی وجہ ہے کہ ہم نے ساحر کی شخصی زندگی، شعری زندگی، فلمی زندگی اور شخصیت، ان کے شعری ذہن اور ان کی شاعری میں چھپے پیام اور فلسفہ پر ایک تحقیقی کتاب لکھنے کا منصوبہ بنایا۔ ‘‘

آٹھ برس کی مسلسل تحقیق کے بعد آپ بیتی ہی کے انداز میں کتاب لکھی گئی۔ کتاب کے پہلے صفحے سے آخری صفحہ تک ساحر اپنے بارے میں خود ہی بول رہے ہیں۔ اس کتاب میں ساحر کی شاعری کے کچھ حصے نقل کئے گئے ہیں، ظاہر ہے کہ ساری شاعری کو شامل کرنا ممکن نہ تھا، چنانچہ یہ کتاب ساحر کو بھرپور سمجھنے کے لحاظ سے ایک مضبوط قدم قرار پائے گی جبکہ ساحر کی شاعری کی کتابیں ، ساحر کے پیام اور فلسفہ کو سمجھنے کے لئے آخری قدم۔

’میں ساحر ہوں‘ کی دو خوبیوں کا ذکر بہت ضروری ہے، اولاً: اس میں ساحر اپنی پوری سچائی کے ساتھ ، اپنی زندگی اور ذہن و دل کے آئینوں میں صفائی کے ساتھ جھلک رہے ہیں، ثانیاً:ساحر کا وہ کلام جو کہیں ملتا نہیں، اگر ملتا ہے تو ادھوری شکل میں ملتا ہے، وہ پوری صحت کے ساتھ یہاں پیش کردیا گیا ہے۔ کتاب میں ساحر کی تمام یادگار تصاویر بھی شامل ہیں۔ مختصراً یہ کہ یہ کتاب ساحرلدھیانوی کے چاہنے والوں پر ایک احسان عظیم ہے۔

طارق بن زیاد(ناول)
مصنف: الماس ایم اے ،قیمت: 500 روپے
ناشر: مکتبہ القریش، سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور

طارق بن زیاد بربر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور بنو امیہ کے جرنیل، جنہوں نے یورپ میں مسلمانوں کے اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں سپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اموی صوبہ افریقیہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔

طارق کی افواج جبرالٹر پر اتریں۔سپین کی سرزمین پر اترنے کے بعد طارق نے تمام کشتیوں کو جلادینے کا حکم دیا۔ تاکہ فوج فرار کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔سات ہزار کے مختصر لشکر کے ساتھ پیش قدمی شروع کی اور وہاں کے ظالم حکمران کے ایک لاکھ کے لشکر کو بہادری کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے ایک ہی دن میں بدترین شکست دی۔ اس کے بعد مسلمانوں کے قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ زیرنظر ناول میں یہی حیران کن اور ایمان افروز کہانی بیان کی گئی ہے۔

جناب الماس ایم اے کی تحریر کا ہر قاری جانتا ہے کہ وہ ناول نگاری برائے ادب نہیں بلکہ برائے مقصد کرتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں ناول نگاری کے تمام بنیادی اجزا پوری طرح موجود ہوتے ہیں ، ان کے ناول مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے حصول کی خواہش اور قوموں کے عروج و زوال کے بارے میں ان کے فلسفے کا مؤثر اظہار بھی ہوتے ہیں۔ نئی نسل کواپنے ہیروز سے آگاہ کرنے کے لئے ایسے ناولوں کا ہر گھر کی لائبریری میں ہونا ضروری ہے۔ مکتبہ القریش نے اس ناول کی بہترین انداز میں طباعت کرکے حق ادا کردیا ہے۔

بلال صاحب( ناول)
مصنف:شکیل احمد چوہان،قیمت:700 روپے
ناشر:علم وعرفان پبلشرز، الحمد مارکیٹ، 40۔اردوبازارلاہور

ناول نگار پیشے کے لحاظ سے تاجر ہیں، زندگی کے کئی ماہ وسال متحدہ عرب امارات میں گزارے، اب لاہور میں مقیم ہیں۔ بچپن ہی سے فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی تھی بالخصوص اردوادب، پاکستانی ڈرامہ اور ورلڈ سینما۔فنی سفر کا آغاز بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فلم’دیوربھابھی‘ سے کیا، ہدایت کارحسن عسکری کے ساتھ بھی کام کیا، حال ہی میں ایک پاکستانی انگلش فلم میں بھی بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر کام کیا۔ لکھنے کے حوالے سے، ان کا دعویٰ ہے کہ محترمہ بانوقدسیہ سے بہت کچھ سیکھاہے۔ محترمہ بانوقدسیہ کی یہ بات انہیں بہت پسند آئی،’’ لکھنے کے لئے ایک وقت مقرر کرل پھر خیالات کی مچھلیاں روز اسی وقت آجایاکریں گی‘‘۔

زیرنظرناول شکیل احمد چوہان کی پہلی کاوش ہے، ان کے بقولٍ’’کچی عمر کی محبت اور پہلی تحریر، دونوں ہی دل کے قریب ہوتی ہیں، یہ دونوں ننھے پودے دل کی مٹی پر محبت کا پانی گرنے سے نشوونما پاتے ہیں۔‘‘ یہ کہانی بنیادی طورپر یہ فلم سکرپٹ کی طرح لکھی گئی ایک کہانی تھی، بعدازاں اسے طویل کہانی کا روپ عطاکردیا۔ کہانی کیسی ہے، اس کا اندازہ آپ کو کہانی پڑھ کر ہوگا البتہ ناول نگار کی والدہ ایک کہانی کا ایک حصہ سن کر روپڑی تھیں۔

سمے کی چڑیا ہاتھ نہ آئی
شاعر: سلیم الرحمان
صفحات: 118،قیمت:260روپے
ناشر: سنگت پبلشرز ، لوئر مال ، لاہور

’’سمے کی چڑیا ہاتھ نہ آئی‘‘ سلیم الرحمان کی شاعری کا مجموعہ جو غزلوں اور نظموںپر مشتمل ہے ۔سلیم الرحمن ایک سینئر لکھاری ہیں۔ خود ان کے بقول ’’چالیس برس سے مشق ِسخن جاری ہے‘‘اس عرصہ میں یہ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے جو اشاعت پذیر ہواہے ا س میں اس قدر تاخیر کو وہ تسلیم تو کرتے ہیں لیکن اس تاخیر کی وہ وجہ بتانا ضروری نہیں سمجھتے۔

بہرحال یہ شاعری کا ایک خوبصورت مجموعہ ہے ۔سلیم الرحمان کی غزلوں میں کلاسیکیت کا رچاؤ بھی ہے اور جدیدیت کا حسن بھی ۔خیال وفکر کی رعنائی بھی ہے اور گہرائی بھی ۔وہ محبت اور عشق کے جذبات کا اظہار دبے لفظوں میں کرتے ہیں جس میںایک شائستگی اور وقار پایا جاتا ہے وہ حالات کے جبر اور زمانے کی بے ثباتی کو بھی بیان کرتے ہیں تو اس میں نعرے بازی یا احتجا ج کا سہار ا نہیں لیتے ایک شکایت کی صورت میں بڑے سلیقے کے ساتھ عرض ِ مدعا کرتے ہیں ۔

یہی رکھاؤ ان کی نظموں میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔مجموعے میں پر تاثیر مناجات بھی شامل ہیں اور متفرق اشعار بھی۔البتہ بعض اشعار میں ’’تیر‘‘ا ،’’تیری ‘‘،’’ میرا‘‘،’’ میری‘‘کی جگہ ’’ ترا‘‘ ، ’’تری‘‘ اور’’ مرا‘‘،’’ مری‘‘کے الفاظ (یااِملا) اور اسی طرح ’’نہ ‘‘ کو ’’نا ‘‘کے وزن پربرتنا محلِ نظر دکھائی دیتا ہے ،علاوہ ازیں کچھ اشعار میں وزن کے اعتبار سے سقم محسوس ہوتا ہے جسے یقیناً پروف ریڈنگ کی غلطیوں میں شمار کیا جاسکتا ہے جو بہرحال نہیں ہونی چاہئیں تھیں۔جس کی چند مثالیں ’’مشتے نمونہ از خروارے ‘‘ کے طورپر درج ذیل ہیں ۔

میر ؔسے اشعار کی کاوش تو کرتا ہے سلیم ؔ
غالب ِؔبے مثل کے آگے مغلوب بھی
(ص 50)
اپنے دل میں تلاش کر تو سہی
میں اسی گھر میں گم ہوا کہیں
(ص 116 )
لاریب تو ہے وہ قریب مجیب ہے
لطفِ کثیر دستِ تہی میں تو ڈال دے
(ص82)
شجر ماتم کرے جب بھی کبھی بے برگ ہاتھوں سے
کہ جب ہر شاخ بے پت جھڑے تو کیا گزرتی ہے
(ص30)
توقع ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں یہ خامیاں دور کرلی جائیں گی۔کتاب طباعت ، پروڈکشن اور قیمت کی مناسبت سے بہترین ہے ۔
جودر اور اس کے بھائی

’’جودر اور اس کے بھائی‘‘ بچوں کی الف لیلہ سلسلے کی پانچویں کتاب ہے جسے محمد سلیم الرحمٰن نے اردو روپ بخشا۔ اس سے پہلے اس سلسلے کی چار کتابیں، ’’سندبادجہازی‘‘، ’’علی بابا چالیس چور‘‘، ’’الہ دین کا چراغ‘‘ اور ’’معروف موچی‘‘ چھپ کر قبولیت کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ جودر اور اس کے بھائی ایک دلچسپ کتاب ہے۔ ایک حیرت کدہ، تماشاخانہ، داستاں در داستاں۔ ایک طرف جودر کی اپنے بھائیوں سے محبت ہے اور دوسری طرف جودر کے بھائی سالم اور سلیم کا ناروا سلوک۔ جودر خیرکا پرچار کرنے والا کردار ہے جب کہ اس کے بھائی سالم اور سلیم سراپا شر ہیں۔

محمد سلیم الرحمٰن نے خیر اور شر کی اس داستان کو نہایت شائستہ نثر کا پیرہن دیا ہے۔ داستان ایک کیفیت سے دوسری کیفیت تک پہنچنے میں جھٹکا محسوس نہیں کرتی۔ اردو روپ دینا آسان نہیں ہوتا۔ واقعات میں کانٹ چھانٹ کرنا ہوتی ہے۔ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات تلخیص کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ غیرضروری تفاصیل سے اجتناب کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں کئی اوقات ایسی صورت درپیش آنے کا خدشہ رہتا ہے کہ داستان کا ربط ٹوٹتا نظر آتا ہے۔

بلاغت میں رخنہ آ سکتا ہے۔ نثر غیرفصیح ہو سکتی ہے مگر محمد سلیم الرحمٰن کا قلم ایسا نہیں کرتا اور حیرتوں کو جذب کر لیتا ہے۔ ایسی ستھری نثر کسی جاذب قلم کا ہی مقدر بنتی ہے۔ محمد سلیم الرحمن نے جودر اور اس کے بھائی کو اردو روپ دیتے وقت اپنے مخصوص قارئین یعنی بچوں کو فراموش نہیں کیا۔

آسان نثر لکھی ہے۔ جملے چھوٹے لکھے ہیں۔ طوالت سے اجتناب کیا ہے۔ کئی دفعہ ایسی صورت پیدا ہوتی نظر آ رہی تھی جس میں جزئیات کو دہرانے کی کیفیت پیدا ہو سکتی تھی۔ مگر محمد سلیم الرحمن نے ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے داستان کی روانی میں فرق نہیں آنے دیا اور ’’جودر اور اس کے بھائی‘‘ کو رواں اور شائستہ نثر کا مرقع بنا دیا جس سے بچے بڑے برابر حظ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک طرف قصے کی طاقت ہے اور دوسری طرف زبان کا لوچ۔ قاری کھو سا جاتا ہے۔

الف لیلہ سلسلے کی پانچوں کتابیں مسحور کر دینے والی کتابیں ہیں جو بلاشبہ محمد سلیم الرحمن کی اجلی اور دھلی دھلائی نثر کی نشانیاں ہیں۔ جنھیں القا پبلی کیشنز نے آئندگاں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ جن پر مریم محمود اور آمنہ محمود کی بنائی ہوئی تصاویر شر پر خیر کی فتح کا پتہ دیتی نظر آتی ہیں۔

فریب نا تمام (یادیں اور یاداشتیں)
مصنف: جمعہ خان صوفی
صفحات: 550،قیمت:1500 روپے
ناشر: پاک بک یمپائر ،اردو بازار ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب معروف پشتون دانش ور اور بائیں بازو کے سیاست داں جمعہ خان صوفی کی سوانح حیات ہے ۔جس میں آج کے دور کے اہم سیاسی واقعات اور افغانستان و پاکستان کے درمیان تعلقات، دونوں ممالک میں پائی جانے والی کشیدگی اور اس کے پس منظر کاذکر ہے۔

اس کتاب کی اہم بات یہ ہے کہ یہ محض کسی فرد ِ واحد کی سرگزشت ِ حیات ہی نہیں ہے پاکسان کے داخلی و خارجی معاملات کے حوالے سے بھی ایک دستاویز کا درجہ رکھتی ہے ۔کہ جس میں بلوچستان ، پختونستان اور آزادو گریٹر افغانستان کے سٹنٹ اور اس میں فعال کردار ادا کرنے والے اس کے دور کے سیاستدانوں کی ’’حب الوطنی ‘‘کا پردہ چاک کیا گیاہے ۔

بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کے الفاظ میں کتاب میں پاکستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کی سیاست، افغانستان میں پشتون اور بلوچ نوجوانوں کی عسکری تربیت ، بلوچستان میں گوریلا جنگ، خیبر پختون خواہ میں تخریبی کارروائیوں، حیات محمد خان شیرپاو کا قتل ، اس کے رد عمل کے طورپر پاکستان میں افغان مجاہدین کی عسکری تربیت ، پاک افغان تعلقات ، بھارت اور افغانستان کی حکومتوں اور خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان میںمداخلت ایسے اہم تاریخی واقعات و حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے ۔

کتاب کا انداز بیاں دلچسپ ہے اور ملکی سیاست سے دلچسپی رکھنے والے عام قاری سے لے کر سیاست کے طالب علموں کے لیے ایک تحفہ ہے جس کا مطالعہ ان کی معلومات میں بیش بہا اضافے کا سبب بن سکتاہے ۔کتاب کے مصنف کے پاس ابھی سیاسی واقعات اور ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کے حوالے سے کہنے کو ابھی بہت کچھ ہے۔اس لحاظ سے اس کتاب میں تشنگی پائی جاتی ہے ۔سو جمعہ خان صوفی کی نئی کتاب کا انتظار رہے گا جو ا س تشنگی کو دور کرنے کا باعث بن سکے گی۔

تاریخ مدینہ
مصنف: جدون ادیب
صفحات: 234، قیمت: 400 روپے
ناشر: الحسن اکیڈمی،کراچی

جدون ادیب کا اصل نام سہیل احمد خان جدون ہے جو گزشتہ دو عشروں سے پاکستان میں بچوں کے ادب سے وابستہ ہیں۔ اب تک سیکڑوں کہانیاں تحریر کرچکے ہیں اور متعدد ایوارڈ بھی وصول کیے ہیں۔ تاریخ مدینہ ان کی پہلی تصنیف ہے جو نان فکشن ہے۔ یہ ان کا ایک خواب تھا کہ مدینہ منورہ کی تاریخ کو جو متعدد جگہ بکھری ہوئی ہے۔

آسان اور دل چسپ انداز میں یکجا کیا جائے۔ کتاب کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ بچوں اور بڑوں سب کے لیے خوشی اور راحت کا سبب بنے گی، میں بھی اس کی تالیف کے دوران لطف و انبساط کی ایک روحانی کیفیت سے گزرا اور اس کام کو تکمیل تک پہنچا کر قلبی طمانیت حاصل کی۔ اس کتاب کی تالیف میں شیخ محدث دہلوی کی تاریخ مدینہ‘ الرحیق المختوم‘ لکشمن داس کی عرب کا چاند جیسی معروف کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔

بہشت چار ساعت (شعری مجموعہ)
شاعرہ: نائلہ حنا
صفحات: 128، قیمت: 250 روپے
بقول آتشؔ، بندشِ الفاظ، نگینے جڑنے جیسا ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا نہیں، مگر شوقِ سخن نائلہ حنا کو بہرحال اس میدان میں لے آیا۔ یہاں انھوں نے مشکل زمینوں، قوافی و ردیف میں ’’کمال‘‘ دکھایا۔ یہ مجموعہ ان کی تقریباً ایک سالہ ’’سخن وری‘‘ کا نتیجہ ہے اور زمانہ ہے، 1992 سے 1993 کا، جب وہ خاصی کم عمر تھیں۔

خود شاعرہ نے اسے اپنے بچپن کی کاوش قرار دیا ہے اور کہتی ہیں کہ اس شاعری کو سمجھنے کے لیے اُسی دور میں جانا ہو گا۔ بچپن کہہ لیں یا نوجوانی میں، بہرحال اس دور کے نائلہ سے بڑی عمر کے دیگر شعرا بھی اس طرح الفاظ اور تراکیب پر گرفت نہیں رکھتے ہوں گے۔ فارسی و عربی کے علاوہ ہندی کے الفاظ جس طرح ان کے اشعار میں ’’جڑے‘‘ ہیں، وہ حیران کُن ہے۔ شاعرہ تراکیب اور تشبیہات سے یوں کھیلتی نظر آتی ہیں، جیسے اپنے گڈے گڑیا کو ادھر سے ادھر رکھ رہی ہوں۔ محتاط اندازہ یہ ہے کہ شاعرہ کی عمر اپنے تخیل کو صفحات پر منتقل کرنے کے عرصے میں لگ بھگ پندرہ برس ہو گی۔

نائلہ نے اپنی شاعری کے بارے میں لکھا ہے،’’شاعری کے مختلف ادوار ہوتے ہیں۔ سو یہ شاعری بچپن کے ناپختہ ذہن کی پیداوار ہے۔ کچھ بھی کوشش سے نہ کیا، سب آمد کا نتیجہ ہے۔‘‘ اس مجموعے کے ساتھ قاری کو لغت کی بھی ضرورت پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔