سندھ کے مسائل کون حل کرے گا؟

سید نور اظہر جعفری  منگل 24 نومبر 2015

پاکستان کے دو صوبوں میں کچھ اقدار، رسم و رواج تو ایک جیسے ہی ہیں اور شناخت زیادہ تر بولی سے ہوتی ہے کیونکہ ’’ماں بولی‘‘ الگ الگ ہے۔ اردو سب کی مشترکہ وراثت اور زبان ہے۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور قدر یا انگریزی میں Record ایک جیسا ہے۔ آپ خدانخواستہ اسے ترقیاتی ریکارڈز سمجھ لیجیے گا۔ پنجاب کی طرف چلتے ہیں۔ بہاولپور سے آپ کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ’’پنجاب بدل رہا ہے‘‘ بہت معمولی سی بات ہمیں ایک خاتون نے بتائی کہ اس بار پنجاب جاکر بہت حیرت ہوئی وہ بہاولپور تشریف لے گئی تھیں۔ میں نے پوچھا کیا خاص بات تھی ہم تو ریل سے جب پنجاب کی طرف سفرکرتے ہیں تو صبح سویرے پٹڑیوں کے کنارے کھیتوں میں ایک سے منظر نظر آتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہم جس محلے میں رہا کرتے تھے وہاں کوڑے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے اور اس بار وہاں ایک خوبصورت پارک تھا جہاں بچے کھیل رہے تھے اور خواتین واک کر رہی تھیں۔ ہنس بول رہی تھیں آپس میں۔ یہ ایک چھوٹی سی بات ہے انھوں نے کہا کہ وہاں سے جو ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی ہیں انھوں نے اپنے ترقیاتی بجٹ سے یہ پارک بنوایا ہے۔

جیساکہ میں نے عرض کیا کہ یہ ایک چھوٹی سی بات ہے۔ مگر دیگ کے چاول کی مثال اور لاہور جسے تخت لاہور سیاسی طور پر کہا جاتا ہے وہاں کی سیاسی بصیرت کا یہ اندازہ ہے کہ بہاولپور جو لاہور سے بظاہر دور دراز ہے کو بھی ترقیاتی فنڈز کا فائدہ پہنچا اور وہ ممبر اسمبلی لائق صد مبارکباد ہے کہ جس نے ضمیر کی آواز سنی اور اپنے علاقے کے ووٹرزکو وہ سہولت فراہم کی جو ان کا حق ہے۔ وہ سہولت اس نے اپنے پاس سے نہیں دی ہے بلکہ یہ عوام کے TAXکا پیسہ ہے مگر خوشی کی بات یہ ہے کہ عوام کے لیے خرچ ہوا۔ ورنہ جھوٹے بورڈ تو ملک بھر میں لگے رہتے ہیں Your Taxes On Work اور صرف بورڈ لگے رہتے ہیں اور دوسری حکومت آجاتی ہے۔

سپرہائی وے اس کی بہترین مثال ہے شاید پندرہ سال ہوگئے اس کا نصیب نہ بدلا کما کر دینے کے باوجود اس سے تو سیہون، دادو روڈ زیادہ اچھا ہے بلکہ حیدرآباد سے دادو تک۔ ہم نے اس پر سفر کیا اور سپر ہائی وے سے بہتر پایا۔ خیر بات کسی اور طرف نہ نکل جائے لہٰذا واپس آتے ہیں پنجاب کی طرف ’’لاہور ، لاہور ہے، جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘‘ یہ محاورہ ہم اپنے بچپن میں پڑھا سنا کرتے تھے، پھر جب لاہور بحیثیت پروڈیوسر 1977 میں پوسٹنگ ہوئی تو لاہور کو ایک سال تک قریب سے دیکھا۔ انگوری باغ جو شالامار باغ کے سامنے ہے اس میں رہائش تھی وہاں سے ریڈیو پاکستان تک ویگن کا سفر بھی کیا۔

تانگے بھی دیکھے، مزاروں پر بھی حاضری دی، قلعہ، باغ، نہر یہ لاہور کی کچھ سوغات ہیں اور بھی ہیں مگر یہ خاص ہیں تو لاہور کو دیکھا۔ ملتان دیکھا، سیالکوٹ دیکھا، گجرانوالہ، گجرات، جہلم، دینہ ، پنڈی، اسلام آباد، چکوال اور پھر اوپر کے علاقے۔ تو تاریخ بھی پڑھی بادشاہوں کے دور میں بھی یہ علاقے خوشحال سرسبز اور آباد تھے، بلکہ شاہی فوج کو جوان بھی فراہم کرتے تھے آج بھی کر رہے ہیں پاکستان کی فوج کو تازہ خون فراہم۔ تو شاہوں کے دور میں بھی پنجاب نے اپنا ریکارڈ قائم رکھا تھا۔ اور اب آج کے پنجاب میں خصوصاً لاہور نے جو ترقی کی ہے وہ بے مثال ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ شریف برادران لاہور میں رہتے ہیں۔ مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ لاڑکانہ کا کیا حال ہے۔ نوابشاہ کس حال میں ہے، کراچی کو کیا ہوا؟ یہ الگ سوالات ہیں، مگر ہیں پوچھے جانے کے لائق۔ وہ ریکارڈ جس کا ہم نے ابتدا میں ذکر کیا اگر ہم درست ہیں تو وزیر اعلیٰ کے طور پر کسی شخصیت کے ریکارڈز ہیں مگر الگ الگ راستوں کے ریکارڈز شہباز شریف نے چلیے کہہ لیجیے کہ اپنے شہر کو کتنی ترقی دی کوئی بھی وجہ ہو، کسی طرح بھی کیا ہو مگر فائدہ عوام کو ہی ملا۔ نہ شہباز شریف بس میں سفر کرتے ہیں نہ اور کوئی عوامی سہولت وہ استعمال کرتے ہیں۔

ممکن بھی نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ پسند بھی نہ ہو! مگر ریکارڈ مدت میں انھوں نے لاہور کو لاہور بنادیا۔ پنجاب کے اور علاقے بھی یقینا اس سہولت سے فیضیاب ہوں گے، ہوجائیں گے، اور پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج نے کافی حد تک اس بات کو ثابت کیا ہے صوبائی وزرا کی پالیسیوں اور رویے سے اختلاف کے باوجود عوام نے (ن) لیگ کو ووٹ دے کر یہ حق بحال رکھا ہے کہ ان کو ترقی چاہیے اور ملنی چاہیے۔ اور یقینا تمام اختلافات کے باوجود اور ان کاموں کو دوسرے رنگوں میں سیاسی طور پر بیان کرنے کے باوجود لوگ اپنے ڈرائنگ روم میں پنجاب کی ترقی کی بات ضرور کرتے ہیں۔ ہمارے ایک جونیئر ساتھی جو آج کل لاہور ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں کے بقول ’’پنجاب بہت آگے نکل گیا ہے۔‘‘

دوسرے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ ہیں وزیر اعلیٰ تو بہت تھے ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے‘‘ جب سنا تھا تو ہم نے سوچا تھا کہ یہ صرف بلوچستان تک ہے، مگر سندھ میں بھی یہی حال ہے۔ ہوسکتا ہے کہ خیرپور نے ترقی کرلی ہو مگر سکھر کا برا حال ہے جہاں سے قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی بھی ہیں سید خورشید شاہ مگر کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ سید قائم علی شاہ سب سے طویل عرصے سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور ہیں مگر ان کے تمام ادوار میں سندھ پستی کا شکار رہا ہے اور ہے میرٹ کا خون شاہ صاحب کے ادوار کی ایک خصوصیت ہے اور یہ خون ہر جگہ ہر محکمے میں تھا اور ہو رہا ہے اور عملاً تمام محکمے معطل اور بے کار ہیں اور کچھ کام نہیں ہو رہا۔ رشوت اور چور بازاری کا ’’بول بالا‘‘ ہے۔

عوامی ’’بھتے‘‘ ختم ہوئے مگر ’’سرکاری بھتے‘‘ جاری ہیں۔ کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا اور اب رشوت لینے میں کوئی شرم نہیں ہے یہ تو اب Term of Reference ہے کہ اس کا ہونا لازمی ہے۔ کوئی بھی میٹر لگوانا ہو، کوئی بھی جائز سہولت چاہیے صرف ناجائز طریقے سے مل سکتی ہے اداروں میں سربراہان کو زبان نہیں آتی لہٰذا فائلیں ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں جوکہ ’’چابکدست‘‘ ہیں اور یوں کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، نوابشاہ، بدین، لاڑکانہ کوئی شہر لے لیں ہر شہر پر کوئی نہ کوئی ’’دادا گیر‘‘ مسلط ہے جس کی مرضی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا فنڈز کا پتہ نہیں چلتا۔ ایم کیو ایم نے مشرف دور میں جو کام کروائے تھے وہ بھی زائدالمدت ہونے کی وجہ سے افادیت ختم کرچکے۔

سید قائم علی شاہ نہ تھر کے مسائل حل کرسکے نہ دوسرے شہروں کے یا سوٹ بہت اچھے پہنتے ہیں، کھانے خوش خوراکی کے مظہر ہیں، اور نیند کے متوالے، جہاں چاہیں سو جائیں، کسی ایک پراجیکٹ کا نام لیجیے نامکمل، فرسودہ، بوسیدہ، تعلیم کا بیڑہ غرق، نقل عروج پر، تعلیمی اداروں کے سربراہ ایسے لوگ ہیں جن کی اہلیت اور صلاحیت کا ان کے شہر کے لوگوں کو خوب پتہ ہے۔ بہرحال پنجاب نے ترقی کی کہ وزیر اعلیٰ نے کوشش اور محنت کی، سندھ سوتا رہا کیونکہ اس کا وزیر اعلیٰ سوتا رہا، اور جاگے بھی تو یہ کہہ کر وفاق نے فنڈز نہیں دیے۔

اس سے پہلے سالوں کے فنڈز کہاں ہیں؟ اور اب گیارہویں مہینے میں یعنی بجٹ کے بعد چھ ماہ گزر گئے ابھی تک آپ فنڈز کا انتظار کر رہے ہیں۔ پنجاب نے فنڈز ختم کرلیے۔ وفاق نے بھی بھرپور جواب دے دیا کہ ترقیاتی منصوبے شروع کرو تو بجٹ یا حصہ دیں گے اب چند ماہ میں وفاق پیسے بھی دے دے گا۔ سندھ میں ان فنڈز کی ’’بندربانٹ‘‘ بھی ہوجائے گی اور کاغذوں پر منصوبے نظر بھی آئیں گے اور پھر وہی دھکے، بے ایمانی کا راج ہوگا۔

تھر سے بجلی پیدا کرنے کے وزیر اعلیٰ نے بڑے بڑے بیان دیے۔ تھر کو خود بجلی نہیں مل رہی۔ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات معطل رہتی ہیں مٹھی کی۔ حساب تو ہوگا یہ ہم ہمیشہ کہتے ہیں اور میرا کہا نہیں قرآن کا کہا ہے۔ حساب ہوگا۔ حکمرانوں کا حساب سخت ہوگا وہ ذمے دار ہیں، امانت میں خیانت، عوامی فنڈز کا استحصال اور ذاتی مفاد میں استعمال اس کا حساب ہوگا ضرور ہوگا۔ اور وزیر اعلیٰ بھی حساب دیں گے۔ سب کا حساب دیں گے کیونکہ وہ سب کے ذمے دار ہیں، رانا ثنا اللہ ہوں یا شرجیل میمن سب کا حساب وزیر اعلیٰ کو دینا ہوگا۔ ایک قانون ہے طے شدہ ہے۔ بدل نہیں سکتا ہے کہ الٰہی قانون ہے۔

تازہ ترین یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کے لیے سندھ اسمبلی کی چھت پر ہیلی پیڈ بنایا گیا ہے تاکہ وہ آ جاسکیں یہ ہے سندھ کی ترقی، کام دھیلے کا نہیں خرچ روپیہ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔