بُک شیلف

ایکسپریس اردو  جمعـء 26 اکتوبر 2012
بلوچستان آثاریاتی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز ہے، لیکن بدقسمتی سے علمی و تحقیقی سطح پر برسوں اِسے نظرانداز کیا گیا۔ فوٹو: فائل

بلوچستان آثاریاتی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز ہے، لیکن بدقسمتی سے علمی و تحقیقی سطح پر برسوں اِسے نظرانداز کیا گیا۔ فوٹو: فائل

بلوچستان، قدیم تہذیبوں کا گہوارہ

مصنف: محمد رضا بلوچ

قیمت:200روپے ،صفحات: 179

ناشر: قلات پبلشرز، کوئٹہ

علم آثاریات تاریخی و تہذیبی ارتقا کو ماپنے کا آلہ ہے، کہ اِس کا براہ راست تعلق انسانی معاشرت سے ہوتا ہے۔ ہم اِسے تاریخ کا دستاویزی ثبوت بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلوچستان آثاریاتی نقطۂ نگاہ سے انتہائی زرخیز ہے، لیکن بدقسمتی سے علمی و تحقیقی سطح پر برسوں اِسے نظرانداز کیا گیا۔ گنتی کے جن افراد نے جستجو کے ہتھیار سے لیس ہو کر اِس کی زرخیزی کو تحریر کی صورت دینے کی سعی کی، اُن میں زیر تبصرہ کتاب کے مصنف، محمد رضا بلوچ بھی شامل ہیں۔

کوئٹہ میں مقیم، ’’یونیورسل ہسٹری‘‘ میں روس کی ’’کیوبان اسٹیٹ یونیورسٹی‘‘ سے ماسٹرز کی سند حاصل کرنے والے محمد رضا بلوچ 96ء سے اِس موضوع پر باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔ اُن کی تحاریر کا بنیادی محور بلوچستان کی قدیم تہذیبیں، کھنڈرات اور تباہ شدہ بستیاں ہیں۔ اِس سے قبل اُن کی چار کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جنھوں نے قارئین اور ناقدین میں یک ساں پذیرائی حاصل کی۔ یہ اُن کی پانچویں کتاب ہے، جو اُن کی پہلی کتاب ’’بلوچستان، قدیم تہذیبوں کا سنگم‘‘ کا ترمیم شدہ ایڈیشن ہے۔ کتاب میں ’’آغاز سے قبل‘‘ کے عنوان سے مصنف کا مضمون شامل ہے۔

’’تشخص کی تلاش‘‘ نامی مضمون معروف صحافی، مقبول احمد رانا کے قلم سے نکلا ہے۔ مجموعی طور پر کتاب پندرہ ابواب پر مشتمل ہے، جن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے بڑی جستجو اور تحقیق کے بعد یہ مواد اکٹھا کیا ہے۔ کتاب میں تصاویر بھی شامل ہیں۔ بے شک تاریخ کے طلبا کے لیے اِس کا مطالعہ ناگریز ہے، البتہ طباعت میں بہتری کا امکان موجود ہے۔

انسانی شعور کا ارتقا

مصنف: ڈاکٹر خالد سہیل

قیمت:250روپے،صفحات:158

ناشر: سٹی بک پوائنٹ، کراچی

یہ کتاب ڈاکٹر خالد سہیل کے نفسیاتی اور فلسفیانہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل شاعر اور ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی بیس سے زاید کتابیں شایع ہوچکی ہیں، جن میں شعری اور افسانوی مجموعوں کے علاوہ غیرملکی ادب کے تراجم، ناولٹ اور سیاسی و نفسیاتی مضامین کے مجموعے شامل ہیں۔ اِس وقت وہ کینیڈا میں مقیم ہیں، جہاں ایک جانب علمی محاذ پر مصروف ہیں، وہیں اپنے طریقۂ علاج ’’گرین زون تھراپی‘‘ کی بھی پریکٹس کر رہے ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب سترہ مضامین پر مشتمل ہے، جو مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ وہ خشک نہیں، اُن میں مصنف کے شخصی تاثرات شامل ہیں، جو مطالعیت کے عنصر کو بڑھاتے ہیں۔ ’’سٹی بک پوائنٹ‘‘ اِس سے پہلے ڈاکٹر سہیل کی کتاب ’’شائیز فرینیا‘‘ بھی شامل کر چکا ہے، اور ادارے نے مستقبل میں مصنف کی مزید کتابیں شایع کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ کتاب کا سرورق بامعنی اور طباعت معیاری ہے۔

(تبصرہ نگار: اقبال خورشید)

خواب اور طرح کے

مصنف: ڈاکٹر شکیل احمد خاں

زیر اہتمام:مطبوعات لوح ادب ، حیدرآباد

صفحات:160

قیمت:200 روپے

اردو افسانہ اپنے آغاز سے عہد جدید تک کئی اسلوب اور کئی پیراہن بدل چکا ہے۔ منشی پریم چند سے کرشن چندر تک، پھر ترقی پسند افسانے سے منٹو اور انتظار حسین تک اور پھر تجریدی اور علامتی افسانے تک یہ تخلیقی سفر بڑا رنگا رنگ ثابت ہوا۔ لیکن ادھر چند برس سے افسانے میں کہانی کی واپسی نے اسے قارئین کے لیے ایک بار پھر کشش انگیز بنادیا ہے، لیکن ڈاکٹر شکیل احمد خاں نے افسانے کے بدلتے ہوئے تخلیقی رجحانات کے بر خلاف اپنے لیے جو راستہ چُنا ہے، وہ ’’خواب اور طرح کے‘‘ میں بڑا واضح اور شفاف ہے۔ انہوں نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے میں جو گذشتہ پچیس چھبیس برس کی طوالت پر مبنی ہے۔ صرف انیس افسانوں کا کڑا انتخاب کیا ہے۔

ڈاکٹر شکیل احمد خاں کے مدِنظر افسانے میں مقصدیت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور یوں کم وبیش ان کے تمام افسانوں میں یہ مقصدیت ایک واضح رنگ کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ چاہے وہ ’’شہادت‘‘ہو ’’خواب اور طرح کے‘‘ ہو ’’میںکس کے ہاتھ پہ اپنا لہو۔۔۔۔‘‘ ہو یا دیگر افسانے ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر معاشرتی تضاد، ہر سماجی الجھن اور ہر طبقاتی کشمکش کے بیچ ایک مثبت نقطۂ نظر کی آمیزش روا رکھی ہے۔ اسی لیے اس مجموعے کے تمام افسانے مختلف سچویشنز، مختلف کرداروں اور سماج کے مختلف نفسیاتی مراحل کے دوران افسانہ نگار سے بغاوت کی جرأت نہیں کرتے اور مصنف اپنے مخصوص سانچے کے ساتھ اپنے مختصر بیانیہ پر پوری گرفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ جلد ہی وہ نتائج افسانے سے برآمد کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے، جو اس کی اپنی فکر اور تجربات کے مساوی ہوتے ہیں۔

تاہم یہ افسانے کہیں کہیں گھٹن کا احساس بھی دلاتے ہیں اور ’’کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘ کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔ کتاب میں موجود تمام مضامین بڑے کام کے ہیں، اور ان سے ڈاکٹر شکیل احمد خاں کی شخصیت اور فن کے بارے میں قاری کو بنیادی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ اب یہ قاری کا حق ہے کہ وہ افسانوی مجموعہ پڑھنے کے بعد اپنے مطالعے کی روشنی میں ایک الگ رائے قائم کرے یا کتاب میں موجود آرا سے متفق رہے۔

(تبصرہ نگار: خ ۔ م)

کنگلے کا بنگلا

مصنف: م ص ایمن

نا شر: ایمن لائبریری

صفحات: 284 ،قیمت:330 روپے

کنگلے کا بنگلا نا م ہی ایسا ہے، جو قاری کو اپنی جا نب متوجہ کرتا ہے۔ بقول مصنف یہ سچی کہانی ہے۔ مصننف نے مقدمہ یہ شکوہ کرتے ہو ئے خود لکھا ہے کہ کسی نے لکھ کر نہیں دیا۔ انتساب ڈاکٹر عبدالقدیرخان کے نام ہے۔ کہانی کا ہیرو صفدر، جسے لوگ کنگلا کہتے ہیں۔ نیکی و پارسائی کا پیکر ہے۔ کنگلا ایک بنگلے میں ملازم ہے اور لوگوں کی مدد کے لے ہر وقت تیار۔ ساری کہا نی نیکی، انسانی حقوق، ایثاروقربانی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ جابجا اعمال صالح کی تلقین قرآنی آیات اور ترجمہ کے حوالوں کے ساتھ کی گئی ہے۔

(تبصرہ نگار : کتاب دوست)

رخش خیال

مصنف:ڈاکٹر معین الدین احمد

ناشر: ال جلیس انٹرنیشنل پاکستان بک پبلیشنگ سروسز

صفحات:334 ، قیمت:450 روپے

زیر ِنظر کتاب ’’رخش ِ خیال‘‘ ایک ایسے پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی ہے، جن کا خاص میدان تحقیق ہے اور انہیں پاکستان میں نباتات کے موضوع پر خاص درک بھی حاصل ہے۔ ڈاکٹر معین الدین ایک طویل عرصے سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں اور پاکستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں تحقیق اور استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے چکے۔ ان دونوں ڈاکٹر صاحب اردو یونی ورسٹی میں فارن پروفیسر کی حیثیت سے طلبہ و طالبات میں جدید تحقیق کے حوالے سے عملی اور علمی راہ نمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

’’رخش ِخیال ‘‘میں ڈاکٹر معین الدین احمد اپنے چند بڑے شان دار اور معلوماتی مطبوعہ اور غیرمطبوعہ مضامین یک جا کیے ہیں ۔یہ مضامین ایک جانب سائنس اور تحقیق کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں، جن میں حیاتیاتی تنوع، حیاتیاتی تحفظ، سیم و تھور، کاربن ڈائی آکسائیڈ، ڈینڈروکرونولوجی اور ماحولیاتی تبدیلیوں وغیرہ کے حوالے سے مضامین جمع کیے گئے ہیں، تاہم ان مضامین اور موضوعات کا دائرہ صرف تحقیق اور سائنس تک محدود نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے نباتاتی تحقیق کے ضمن میں ایک دو نہیں مسلسل کئی مضامین تحریر کیے ہیں، کیوں کہ یہ اُن کا من پسند موضوع ہے۔

البتہ یہ مضامین عام تحقیقی مضامین کی طرح خشک اور بور نہیں، بلکہ ان میں ڈاکٹر صاحب کی شگفتہ بیانی اور تحقیق کے شعبے میں موجود حقیقی رکاوٹوں کا دوٹوک اظہار موجود ہے۔ اس طرح کتاب میں شامل دیگر مضامین بھی قابل ِمطالعہ ہیں، کیوں کہ ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی کا میلان تحقیق اور سائنس کے ساتھ ساتھ تعلیم، ماحول، معاشرہ، قانون، کرپشن، عصبیت، اور موجودہ استحصالی نظام بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات یہ ہے ڈاکٹر معین الدین احمد ایک بے حد درد مند دل رکھنے والے سچے پاکستانی ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ تحقیق اور ایجوکیشن میں گزرا ہے، اور اسی لیے وہ اپنی تحریروں میں ذاتی تجربات کی روشنی میں جب کوئی نکتہ آفریں پہلو اٹھاتے ہیں، تو یہ بیان ایک معروف محقق اور صاحب ِ دانش کی صدا بن جاتا ہے۔

موضوع کوئی بھی ڈاکٹر صاحب ہمہ وقت سوچتے رہتے ہیں اور اسی لیے ان کی تمام تحریروں میں ایک بیدار مغز لکھنے والے کی آہ اور واہ دونوں بہ یک وقت پاکستان کی تاریخ اور نئے منظر نامے کا احاطہ کرتی ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب صرف قدم قدم پر موجود سرخ فیتوں، منافقانہ سازشوں، پیشہ ورانہ رقابتوں، کھوکھلے تعلیمی اور معاشرتی نظام پر بلیغ طنز کے ساتھ ایک مسیحا کے طرح مرض کا علاج بھی تجویز کرتے جاتے ہیں۔ 334 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ڈاکٹر معین الدین احمد کے چند شاگردوں کے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں اور یوں یہ کتاب اپنے موضوعات اور تحریروں کی رنگا رنگی کے باعث عام طلبہ وطالبات کے ساتھ اچھی کتابیں پڑھنے والوں کے لیے بھی اپنے اندر کشش رکھتی ہے۔

(تبصرہ نگار: خالد معین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔