ہندوؤں کی تاج محل کی جگہ کو مندر قرار دیئے جانے کی کوشش ناکام

ہندو انتہا پسند وکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کی فن تعمیر ایک قدیم مندر کا حصہ ہے جسے بھارتی حکومت نے مسترد کردیا

ہندو انتہا پسند وکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کی فن تعمیر ایک قدیم مندر کا حصہ ہے جسے بھارتی حکومت نے مسترد کردیا، فوٹو: فائل

تین صدیاں بیت جانے کے بعد بھی محبت کی یاد گاراور فن تعمیر کا دلکش نمونہ تاج محل اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں ترو تازہ ہے جس کی تعمیر کبھی بھی متنازعہ نہیں رہی لیکن کچھ ہندوانتہا پسند وکلا نے دعویٰ کیا کہ یہاں کسی زمانے مین مندر تھا جس پر تاج محل کی تعمیر کی گئی لیکن بھارت کی حکومت نے ان کے دعوی کے برخلاف عدالت کو بتایا ہے کہ اسے اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ آگرہ میں واقع تاج محل ماضی میں ہندوؤں کا کوئی مندر تھا۔

بھارتی وزیر ثقافت نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں بتایا کہ انہوں نے آگرہ میں تاج محل سے متعلق عدالت کو تحریری جواب میں بتا دیا ہے کہ تاج محل کی جگہ کبھی کوئی مندرنہیں رہا اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی شواہد سامنے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ان کے علم میں ہے کہ تاج محل کے سلسلے میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے لیکن حکومت نے اس دعوے کے لیے تمام تر ذرائع کا استعمال کیا لیکن انہیں تاج محل کی جگہ کسی مندر کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ اس تنازعے کی وجہ سے حکومت کو ابھی تک تاج محل کی سیاحت کے سلسلے میں کوئی منفی اثر نظر نہیں آیا ہے۔




مقدمے میں ہندو انتہا پسند وکلا نے دعویٰ کیا تھا کہ تاج محل کو ہندو مندر قرار دیا جائے اور ہندوؤں کو وہاں پوجا کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ شیو مندر ہے۔ اس سے قبل بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ نے بھی اس دعوے کو مسترد کر دیا تھا کہ آگرہ میں موجود 17 ویں صدی کے مغل فن تعمیر کے اس نمونے کا ہندوؤں سے کوئی تعلق ہے۔



واضح رہے کہ ایک متنازع ہندو تاریخ دان نے کچھ عرصہ قبل یہ بحث شروع کی تھی اور اترپردیش میں بی جے پی کے صدر اس آگ پر تیل چھڑکتے ہوئے اسے آگے بڑھا رہے تھے جس میں ان کا دعوی تھا کہ فن تعمیر کا یہ نمونہ دراصل ایک قدیم مندر کا حصہ ہے جو ہندو راجہ جے سنگھ نے بنوایا تھا۔
Load Next Story