شکریہ

سید نور اظہر جعفری  منگل 15 دسمبر 2015

کچھ لوگوں کو میرے کالموں کا انداز ’’کالمانہ‘‘ نہیں لگتا اور وہ اس کا اظہارکرتے ہیں جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔ بات یہ ہے کہ میں ’’تاریخ داں‘‘ نہیں۔ ’’جغرافیہ داں‘‘ نہیں۔ سماجیات کا کوئی پروفیسر نہیں۔ میں نے ادب، شاعری، نثریات کے میدان میں اب تک زندگی بسر کی ہے۔ اور شکر ہے کہ شاید وہ واحد وصف جس کو میں اپنے لیے شمار بھی کرتا ہوں اور اس کے بارے میں وثوق سے کہہ بھی سکتا ہوں وہ ہر قسم کی ’’دیانت‘‘ ہے اور چونکہ یہ ان دنوں ایک کھوٹا سکہ ہے لہٰذا اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

یہ بھی ایک خیال ہے کہ شاید میں کسی سیاسی خیال کا حامی یا مخالف ہوں یہ بھی غلط ہے۔ دوسروں کی سیاست کی وجہ سے میری زندگی میں مجھے کئی نقصان پہنچے مگر میں کبھی سیاسی آدمی نہیں تھا نہ ہوں اور نہ سیاست کو غلط کہتا ہوں۔ ابھی تک میں نے کوئی NGOنہیں بنائی، کہیں سے ’’صحافتی ادھار‘‘ نہیں لیا۔ یہ کام میں کر نہیں سکتا کیونکہ میں ایک ’’سچے محنت کش‘‘ کا بیٹا ہوں۔ سچا محنت کش میں نے سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔

سب جانتے ہیں کہ ایک سے زیادہ محکموں میں ملازمت کرنا اور کئی جگہ سے آدھی تنخواہ لینا Ghost محنت کشوں کا ایک عام کام ہے۔ کبھی اپنے سابقہ محکمے کے Ghost ملازمین پر بھی تبصرہ کریں گے ابھی دعا کرتے ہیں کہ افسران اعلیٰ و بالا خود بھی اسے درست کرلیں۔ بہرحال تو ہم تو وہ لکھتے ہیں جو محسوس کرتے ہیں اور ان میں سب سے اہم ہے ’’پاکستان‘‘۔پاکستان کی قیمت پر ہی اس ملک میں دھاندلی، چور بازاری، ملاوٹ، مہنگائی، ٹیکس براہ راست اور بالواسطہ ہیں یہ سب پاکستان کے خوبصورت چہرے پر اس معاشرے کے گھناؤنے لوگوں کے لگائے ہوئے کیل مہاسے ہیں۔ پاکستان کا چہرہ ضرور ان سے صاف ہوگا۔

صاف کیا جا رہا ہے ناراضگیاں مول لے کر، ان کی بھی جو یہاں ہیں یا ’’وہاں‘‘ ہیں۔ ’’وہاں سے مراد پاکستان سے باہر کئی ممالک میں۔ یہ بات لکھتے ہوئے میں کبھی نہیں گھبرایا کہ جس طرح مودی کی ’’تاجپوشی‘‘ میں ہم بھاگے بھاگے گئے تھے وہ سخت غلط اقدام تھا اور مودی نے اس کا وہی جواب دیا جو اسے دینا چاہیے تھا۔

یعنی پاکستان کی سرحدوں پر مسلسل فائرنگ ہے اور پاکستانیوں کا خون بہانا اور دنیا میں یہ تاثر دینا کہ پاکستان سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اپنے عوام کو بھی پاکستان کے خلاف صف آرا کرنے کی ناکام کوششیں، گائے کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانا، گجرات کے خونیں معاملات میں رنگے ہوئے ہاتھوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے ہماریحکمرانوں کو احساس نہیں ہوا کہ گجرات میں کیا کیا تھا اس شخص نے، کشمیر میں کیا کر رہا ہے یہ آدمی؟ بے گناہ کشمیریوں کا خون روز بہہ رہا ہے۔ ہمارے سرحدی علاقوں کے سیکڑوں شہری اب تک شہید کردیے بھارتی افواج نے فائرنگ کرکے، ہم نے گیتا واپس کردی اچھا کیا۔ وہاں بھی کچھ لوگ ہیں پاکستان کے بے گناہ وہ کب آئیں گے؟

نیپال نے اپنے ملک کے آئین کو ہندو آئین بنانے سے انکارکردیا، کیونکہ وہ بھارت کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا، سیکولر آئین کے سلسلے میں سرحد پر ایک نیپالی فوجی ہلاک ہونے پر بھارت کا یہی وزیر اعظم نیپال کے صدر کو فون کرتا ہے معذرت کا اور وہ اسے جھاڑ پلاتا ہے اور آیندہ محتاط رہنے کا کہتا ہے اور اس کے بعد کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ اور یہاں عجب عجب کہانیاں گھڑکر بھارت کے حق میں بیان کی جاتی ہیں کہ وہاں انتخابات ہو رہے ہیں۔

اس وجہ سے بھارت ایسا کررہا ہے تو کیا ہمارے خون سے مودی ریاستی انتخاب لڑے گا؟ ہمارا خون اتنا ارزاں ہے کیا؟ کشمیریوں کا خون بہاتے بہاتے اب پاکستانیوں کا خون بہانے لگے بھارتی فوجی اور ہم افسوس کا اظہارکرتے رہتے ہیں۔ نہایت بے جان تقریر اقوام متحدہ میں کی گئی اور سرسری سا ذکر رہا۔ اگر یہ معاملہ امریکا یا روس کا ہوتا تو ان کے سربراہان کا رویہ اور تقریر آپ دیکھتے بات وہی ہے کہ مفادات کا کھیل ہے سارا، بچوں کا مستقبل ہے۔

کاروبار ہے، حالانکہ اصل کاروبار صرف دو گز زمین ہے اور اس کی قیمت زندگی ہے جو ہر ایک کو ادا کرنا ہے اور ایسا ہر ایک کے ساتھ ہونا ہے چاہے وہ مہاتما ہو یا عام آدمی۔ موت کے بعد چہرے کی شکنیں بھی برقرار نہیں رہتیں۔ کون سمجھے ہوس دنیا نے برباد کردیا حکمرانوں کو اور قوموں کو مگر آج بھی لوگ باز نہیں آتے جانتے ہیں آخر کار مرجائیں گے کچھ اچھا کرجائیں مگر شاید ہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ یہ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کے قلوب پر مہریں لگا دی ہیں۔ یا اللہ! تو ہی اصل منصف ہے۔

پاکستان کی کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ کو ہی دیکھ لیجیے۔ ارادہ ہے پاکستان کی وزیراعظم بننے کا اور وہ بھی مودی کی دلدادہ ہیں۔ پاکستان سے تو ان کو کوئی امید نہیں ہے لہٰذا بھارت جاکر مودی صاحب سے ملیں گی اور ان کو لڑکیوں کی تعلیم پر قائل کریں گی۔

چیزوں کی حقیقت کو تو یا خدا جانتا ہے یا وہ چیز خود جسے خدا نے تخلیق کیا ہو مگر اس کے باوجود کہ ملالہ کو مغرب میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے اور اس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی تھی اور اب وہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کبھی یورپ اور امریکا نے پاکستان کے کسی شخص کو یہاں تک کے پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کو بھی وہ پذیرائی نہیں بخشی جو ملالہ کو حاصل ہوئی۔

اسے طالبان کے خلاف ایک Character کے طور پر پیش کیا گیا جو بہت اچھی طرح ریہرسل کیا گیا تھا اور بہت تیاری کے ساتھ منظر عام پر لایا گیا۔ جس طرح اسامہ بن لادن پراجیکٹ کا کبھی پتہ نہیں چلے گا کہ وہ کیا تھا ملالہ بھی ایک ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔ افادیت کھونے کے بعد اس کا بھی ڈراپ سین ہوجائے گا۔ مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ملالہ کا تعلق اس علاقے سے ہے جس کا کشمیر سے گہرا تعلق ہے۔ آزاد کشمیر تو صوبہ سرحد کے غیور قبائلیوں نے آزاد کرایا تھا

۔ تاریخ اس حقیقت کو کبھی نہیں بدل سکتی اور سیاسی غلطی نہ کرتے تو پورا کشمیر بھی آزاد ہوجاتا۔ 1962 میں بھی کہا جاتا ہے کہ کشمیر مل سکتا تھا کشمیریوں کو! ملالہ کو معلوم ہے کہ کم ازکم اس نے جب سے ہوش سنبھالا ہے وہ تو یاد ہوگا کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ کیا کر رہا ہے۔

کس قدر عورتیں اور بچیاں بھارتی درندوں کا شکار ہوئی ہیں۔ آج بھی کیا ظلم کشمیریوں پر نہیں ہو رہا۔ مگر وہ بی بی سی کی ڈائری رائٹر نوبل انعام یافتہ لڑکی اس شخص سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے جس نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو آگ لگوائی۔ کشمیر میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اس شخص کو جا کر لڑکیوں کے اسکولوں کو بم سے اڑایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں آج بھی بچیوں کی تعلیم اور ان کی حفاظت کی خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ سزا کا نظام بہت طویل ہے اور سزا نہیں ملتی لوگ بچ جاتے ہیں۔ لڑکیوں کی کم عمری کی شادی نہیں رکی۔ چوری چھپے یہ کام جاری ہے۔ کاروکاری، ونی، بہت رسمیں چل رہی ہیں۔

بی بی ملالہ صرف وزیر اعظم نہ بنو پاکستان کی اوپر سے آکر ، بلکہ عوام کی خدمت کا سوچو ابھی سے یہ بھی شاید لوگوں کو کالم نہ لگے مگر ہم عام آدمی ہیں۔ عام باتیں کرتے ہیں وہ باتیں جو لوگوں کو اچھی بری لگتی ہیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ہم نے اندازہ یہی لگایا ہے کہ ملالہ کی صورت میں ہم ایک اور مالدار خاندان کا اضافہ پاکستان کے معاشرے میں دیکھیں گے جو بااثر بھی ہوگا دنیا بھر میں اور یہ بھی غریب عوام پر دوسرے سیاسی خانوادوں کے شہزادے، شہزادیوں کی طرح حکومت کرنا چاہتی ہیں اور ہم ایسے ہی رہے تو شاید کر بھی لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔