"نون" کے بعد "الف" بھی چلا گیا!

محمد ارشد قریشی  جمعـء 18 دسمبر 2015
کمال احمد رضوی ایک بہترین مصنف، منجھے ہوئے ہدایتکار اور لاجواب فنکار ہونے کے ساتھ ایک خوش اخلاق اور سادہ طبعیت کی مالک شخصیت بھی تھے۔ فوٹو :فائل

کمال احمد رضوی ایک بہترین مصنف، منجھے ہوئے ہدایتکار اور لاجواب فنکار ہونے کے ساتھ ایک خوش اخلاق اور سادہ طبعیت کی مالک شخصیت بھی تھے۔ فوٹو :فائل

پاکستان ٹیلیویژن کے شہرہ آفاق ادکار، ڈرامہ نگار اور الف نون کا کردار الن کمال احمد رضوی انتقال کر گئے۔ رفیع خاور (ننھا) اور کمال احمد رضوی (الن) کی  ڈرامہ الف نون میں جوڑی کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ کمال احمد رضوی پاکستان ٹیلیویژن کے پسندیدہ کرداروں میں سے ایک تھے، جنہیں تھیٹر کے بانیوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ایک بہترین مصنف، منجھے ہوئے ہدایتکار اور  لاجواب فنکار ہونے کے ساتھ ایک خوش اخلاق اور سادہ طبعیت کی مالک شخصیت بھی تھے۔

کمال احمد رضوی یکم مئی 1930 کو  ہندوستان کے علاقے بہار کے ایک قصبے ’’گیا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ کمال احمد رضوی کے والد محترم عبدالرشید محکمہ پولیس سے وابسطہ تھے اور صوم و صلاۃ کے پابند تھے۔ کمال احمد رضوی 1951ء میں پاکستان کے شہر لاہور آگئے اور وہیں سے 1958ء میں اپنے فنی کیرئیر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ مشہور ڈرامہ ’’بالا کی بد ذات‘‘ 1960ء میں تھیٹر پر پیش کیا۔ ڈرامہ کی پذیرائی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا یہ ڈرامہ 2005ء جنوری میں  لاہور میں منعقد ہونے والے ڈرامہ فیسٹیول میں دوبارہ پیش کیا گیا۔

پاکستان ٹیلیویژن سے نشر ہونے والے کئی ڈراموں میں سے ’الف نون‘ کے علاوہ ’چور مچائے شور‘ اور ’میرا ہمدم میرا دوست‘ نے بھی بے پناہ شہرت پائی۔ ’الف نون‘ کمال احمد رضوی کی وہ واحد ڈرامہ سیریز ہے جو 1965ء سے 1982ء تک مختلف وقفوں سے 4 دفعہ نشر کی گئی۔

پاکستان کی معروف شاعرہ پروین شاکر مرحومہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’الف نون‘ ہماری گھٹن سے بھرپور زندگیوں میں بارش کے جھونکے کی طرح داخل ہوا اور یہاں سے وہاں تک تمام دریچوں پر دستک دیتا چلا گیا۔

’الف نون‘ میں کمال احمد رضوی نے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو ایک منفرد انداز میں بے نقاب کیا۔ ’الف نون‘ میں کمال احمد رضوی  کے لکھے اور انہی کی زبانی ادا کئے گئے کئی مکالمے بظاہر مزاحیہ انداز میں ہوتے تھے لیکن ان میں ایک تلخ حقیقت پنہاں ہوتی تھی۔ ’الف نون‘ ڈرامہ سیریز کے چند لازوال مکالمے جو میرے ذہن میں آج بھی نقش ہیں جو انہوں نے ننھا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ادا کئے۔

الن اپنے ایک سیٹھ کردار کو الیکشن میں کھڑا ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ سیٹھ استفسار کرتا ہے کہ کیا قوم مجھے ووٹ دے گی؟ الن کہتا ہے کہ کیوں نہیں سیٹھ صاحب! آپ نے تو 25 سال اس قوم کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (لمبی خاموشی کے بعد) خدمت کی ہے۔

ایک اور ڈرامے میں ننھا نہایت خلوص سے کسی انگریز سے گالیاں سیکھ کر آتا ہے اور الن کے سامنے بنا ان کا مطلب جانے، نہایت وثوق سے وہ تمام دوہرا رہا ہوتا ہے۔ وہ الن کو ’ایڈئیٹ‘ کہتا ہے اور الن کے ناراض ہونے پر کہتا ہے کہ تُو تو اس طرح ناراض ہورہا ہے جیسے میں نے تجھے کوئی گالی دی ہو۔

ایک اور منظر میں ننھے کی صاف گوئی کی وجہ سے اسپانسر کے بھاگ جانے پر ننھا الن کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے،

نھنا: اب ناراض نہ ہو۔ تو نے بھی تو مجھے وہ کام لگا دیا ہے جو میرے باپ دادا نے بھی کبھی نہیں کیا۔

الن: تو جو کر رہے ہیں، ان کے باپ دادا نے کیا تھا کبھی؟

ایک اور منظر میں کمرے میں اسپانسر خاتون اور ننھا،

خاتون: (ثمینہ احمد ایک وارفتگی کے لہجے میں) آپ نے پہلی پینٹنگ کب بنائی تھی؟

ننھا: جی، پرسوں رات، خبرنامے سے کچھ  دیر پہلے۔

خاتون: (انتہائی حیرت و بے یقینی سے) جی؟

ننھا: ہاں جی، آپ کو نہیں پتہ، یہ الن بڑا استاد آدمی ہے۔ اس کو اچانک یہ خیال آیا کہ یہ ’’آرٹشٹ‘‘ لوگ بڑا پیسہ کما رہے ہیں تو کیوں نہ یہ دھندا شروع کیا جائے۔ بس پھر کیا تھا اس نے ایک ٹرک کے پیچھے سے یہ ترپال کھینچی، اس کے ٹوٹے کرائے اور ایک رنگ والی مائی سے جاکر یہ برش اور یہ بالٹی لے آیا۔

کمال احمد رضوی سے جب ان کے بہترین دوست رفیع خاور (ننھا) کی خود کشی کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو اکثر وہ جواب میں صرف اتنا کہتے تھے کہ اس بارے میں بہت کچھ کہا اور سنا جاچکا ہے۔ بس وہ ہی کافی ہے لیکن بہت اصرار پر کبھی انٹرویو میں اتنا کہہ دیتے تھے کہ جس پر عشق کا بھوت سوار ہوجائے تو پھر عقل پر پردہ پڑجاتا ہے۔ ایسا ہی ننھا کے ساتھ ہوا۔

کمال احمد رضوی کے انتقال کے بعد مزاحیہ ڈراموں کا ایک اور باب بند ہوگیا۔ طنز و مزاح  کے ڈراموں اور تھیٹر کے شائقین کے لئے ابھی معین اختر اور سکندر صنم  کا ہی غم تازہ تھا کہ ایک اور ہنسنے ہنسانے اور لوگوں میں خوشیاں بانٹنے والا  اداکار سب کو غمگین کر گیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی

ریڈیو لسننگ سے وابسطہ ہیں، اکثر ریڈیو میں لکھتے ہیں۔ شعر و شاعری اور سماجی کاموں سے دلچسپی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔