سندھ کا ثقافتی تہوار

جاوید قاضی  ہفتہ 19 دسمبر 2015
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سندھ میں ایک بہت بڑی تبدیلی کی شہادت ملی مگر کسے خبر نہ ہوئی۔ خبر گر ہوئی تو خبر نہ بنی۔ دیکھنے والے کی آنکھ کو شاید یرقان لگا ہوا تھا۔ فرض کریں پورا پنجاب گلیوں میں باہر نکل آتا ہے، ڈھولکی پہ دھمال لگاتا ہے، بلھا، باہو، فرید کو گاتا ہے اور ناچتا ہے، سب نے دھوتیاں پہنی ہوئی ہیں تو پاؤں میں کھسے ہیں، ادھر حقہ ہے تو ادھر گندڑا دا ساگ ہے مکھن ہے تو مکئی ہے۔ پورا پنجاب عید کرتا ہے کہ وہ مذہبی انتہا پرستی کے خلاف اپنے صوفیوں کے دیے ہوئے پیغام کو اپنے ہتھیار بنا کے روکے گا۔ امن بھائی چارہ اور محبت کا پیغام دے گا۔ بلکہ ایک دن مخصوص ہوتاہے ۔ پنجاب کی ثقافت کا دن۔ جب سارے پنجابی زبان ہی چینل پنجابی زبان کی فروغ کی بات کرتے تو شاید پورے پاکستان کو نظر آتا۔

ہم نے سنا ہوگا بلکہ کہا جاتا ہے کہ سندھ صوفیاؤں کی دھرتی ہے۔ امن اور محبت کی دھرتی ہے۔ مگر اب میں نے پورے سندھ نے لوکل میڈیا کے ذریعے دیکھا اور سنا۔ گلی گلی لوگوں کے جھرمٹ لگے ہوئے تھے۔ اسی طرح جس طرح جلاوطنی سے 80 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو وطن کو لوٹی تھیں۔ ہر طرف کوچہ جاناں میں روشن لہو کی بہار تھی۔ ایم آر ڈی 83 تحریک میں جو فصل بوئی گئی تھی لہو کے شاخوں و نالوں سے وہ پک کے راس ہوئی تھی۔ اب کے بار سندھی سارے گلیوں، کوچوں بازاروں میں ٹوپی، اجرک، پہنے، بچے، بوڑھے، مائیں، بہنیں، بھائی سب جھوم رہے تھے، گا رہے تھے، بھٹائی، سچل سامی کو ، شیخ ایاز کو، بلھا ، باہو، فرید کو۔ لاکھوں تعداد میں تھے یہ سارے سب اور کسے خبر بھی نہ ہوئی۔ اور اس ساری جہد کا لب لباب یہ تھا کہ سندھ دھرتی کہہ رہی تھی کہ ان کو مذہبی انتہا پرستی سے دو دو ہاتھ کرنا خوب آتا ہے۔

پوری صوفی تحریک کی روح ہی یہی ہے کہ ہر ایک کا مذہب اس کا ذاتی فعل ہے، وہ جانے اور خدا جانے۔ سچل کی شاعری کسی اور زبان میں نہیں بلکہ اردو میں ہے اور وہ بھی ڈھائی سو سال پہلے ایک شاعر اردو میں شاعری کرتے کہتا ہے ’’ارے لوگو تمہارا کیا، میں جانوں میرا خدا جانے‘‘ کون سا شہر تھا، کون سی بستی تھی، گاؤں تھا یا گھر تھا جہاں 13 دسمبر کو سندھ کا ثقافتی دن نہ منایا گیا ہوگا کراچی پریس کلب کے سامنے پورا دن بیس ہزار لوگوں سے اوپر کا مجمع رہا، یہی حالت سندھ کے سب بڑے شہروں میں تھی۔ نہ صرف 13 دسمبر بلکہ پورا ہفتہ اس فیسٹیول کو مختلف رنگوں میں، کالجوں، اسکولوں میں، چھوٹے بڑے اداروں میں، ملک سے باہر رہتے ہوئے سندھیوں نے منایا۔

ہاں مگر اس بار اس پورے تہوار کی کوئی سیاسی قیادت رہنمائی نہیں کر رہی تھی۔ جس طرح کبھی بے نظیر بھٹو کیا کرتی تھیں۔ لاکھوں کے ان کے جلسے ہوا کرتے تھے۔ میلوں پہ پھیلی ان کی ریلیاں ہوا کرتی تھیں۔ جھومتی تھیں سندھ جمہوریت کے نام پر آمریت مردہ بعد کے نام پر۔ مگر اس بار 13 دسمبر کو سندھ رینجرز اور قائم علی شاہ کے بیچ ان بن سے بے نیاز تھی۔ اور اب یہ روایت ہر سال ایک تہوار کی شکل لے کے بیٹھ گئی۔ سندھیوں کا صرف ثقافتی حوالے سے تہوار ایک ایسا تہوار جس کا کوئی مذہب نہیں، رنگ نہیں، نسل نہیں۔ وہ بس انسانیت، امن، محبت کا تہوار ہے۔

ڈاکٹر مالک نے ایک حکومتی سطح پر کوشش کی کہ بلوچوں کا بھی ثقافتی دن ہو مگر وہ حکومتی سطح پر تھا۔ اس کے برعکس سندھ کے ثقافتی دن کا جنم کسی حکومتیِ سطح پر نہ ہوا بلکہ ایک فطری رویہ تھا۔ سندھ نے ہمیشہ پاکستان کے بیانیہ سے ایک معقول اختلاف ہمیشہ رکھا۔ ملکی میڈیا کہتی رہی کہ اسلام حملہ آوروں نے پھیلایا۔ اس کے برعکس سندھی میڈیا یہ کہتا رہا کہ اسلام صوفیوں کے پیغام سے پھیلا ملکی بیانیہ میں جنرل ضیا الحق جیسے لوگوں نے جب جناح کے دیے ہوئے پیغام کو بالکل ہی چھٹی کروادی تب سندھ میں اور بے چینی پیدا ہوئی اور ایک دن نوے کی دہائی میں 80 کی دہائی کے لگ بھگ تحریک سے سندھ میڈیا کے انقلاب کی بنیاد پڑی لوگوں نے اردو اخبارات کم اور سندھی اخبار زیادہ پڑھنے شروع کیے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اردو میڈیا نے سندھی لوگوں کی خبروں کو صحیح طرح پیش نہیں کیا، ان خبروں کو میرٹ نہ دی۔ پوری ایم آر ڈی کی تحریک کو محدود کر کے ضیا الحق کہنے لگے کہ یہ بحالی تحریک کی جدوجہد نہیں بس صرف سندھ کے چھوٹے قصبوں تک یہ محدود ہے۔

2000 تک سندھ میں اب سب سے زیادہ سندھی اخباروں کی طرف راغب ہوئے ۔ پہلی مرتبہ سندھ میں کالم نگاری کا رواج پڑا اور پھر یوں 2005 تک الیکٹرانک میڈیا آیا ۔ اس طرح اردو میڈیا کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ مضبوط اگر کوئی میڈیا ہے جس نے خود کو اپنی تاریخ سے ثقافت سے جوڑے رکھا ۔ سندھی میڈیا کسی چیریٹی کے تحت یہ کام نہیں کر رہا تھا بلکہ اس سے اس کا معاشی پہلو بھی جڑا ہوا تھا۔ سندھ میں دو تحریکیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں، ایک تحریک آمریت کے خلاف تحریک تھی، بھٹو نے سندھی زمینداروں کے معاشی پہلو کو اس تحریک سے جوڑے رکھا تو دوسری طرف وہ زمیندار بھی تھے جو مسلم لیگ کے پرانے طور طریقوں سے جڑے ہوئے تھے کہ جہاں اسٹیبلشمنٹ وہاں یہ لوگ۔ جو برا ہوا سو سندھ کی مڈل کلاس کی سیاست کا ہوا۔ اس میں بھی دو بڑے دھارے تھے ایک رسول بخش پلیجو کی عوامی تحریک تھی جو بحالی جمہوریت کی 83 کی تحریک کا حصہ تھی اور دوسری طرف جی ایم سید کی جئے سندھ تحریک تھی جو جمہوریت سے بھی بدظن تھی اور پھر دونوں تحریکوں پر زراعتی قدروں کا اثر تھا۔ فرد پارٹی پر مسلط ہوگئے اور پارٹیوں کے ورکر بے چارے بے راہ روی کا شکار ہوگئے۔

یوں کہیے کہ اب کے بار ثقافتی تحریک میں جو سندھ کو متحرک کر گئی ہے اس میں سیاسی قیادت کا فقدان اس بات کی واضح علامت بھی ہے کہ لوگوں کو اب سیاستدانوں پر اعتماد کم ہی رہا ہے۔ بھٹو سے پہلے سندھی وڈیرے کے کہنے پہ ووٹ دیتے تھے ۔ بھٹو کے بعد سندھی بھٹو کے کہنے پہ وڈیرے کو ووٹ دیتے تھے۔ بے نظیر کے زمانے تک یہ بات رہی۔ اور بے نظیر آخر زمانے میں سندھی دہقان، یہ دیہاتی لوگ آدھے سید ، وڈیرے کے ساتھ ہوتے تھے اور آدھے بے نظیر کے کہنے پہ ہوتے تھے۔پھر اس طرح سے یہ کام چلتا رہا۔ لیکن اب واپس سندھ سید کا اور وڈیروں کا ہے۔ اس بلدیاتی انتخابات میں مکمل یہ حقیقت واضح ہوئی کہ پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی طاقت سے اور حکومت کی طاقت سے انتخابات جیت گئے۔

اگرچہ دکھائی دیتا ہے یا نہیں لیکن پیپلز پارٹی کی کارکردگی زرداری صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا نہ ہونا تو الگ بات ہے ، بلکہ سرے سے لوگوں سے اور سندھ سے لاتعلق ہونے نے ایک بڑا بحران پارٹی کے لیے پیدا کردیا ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ آپ الیکشنوں میں جیت جاتے ہیں لیکن اب کے بار کوئی آمریت آئی تو کیا پارٹی اس کا عتاب برداشت کرسکے گی؟ جس طرح ضیا الحق یا جنرل مشرف کا عتاب برداشت کیا؟ پارٹی پنجاب میں تاریخ ہوئی۔ کیا آئندہ یہ کام اگر سندھ کی ثقافت میں لوگوں کا بھرپور حصہ دار ہونا اور پیپلز پارٹی سے لاتعلق ہونا اس حقیقت کا عکاس ہے کہ پیپلز پارٹی اب سندھ کے لوگوں کی روحانی ترجمان نہیں بلکہ پنچایتی ترجمان ہے؟

کچھ ہفتے پہلے لاڑکانہ میں مولانا فضل الرحمن کا ایک عظیم الشان جلسہ ہوا ۔ لاڑکانہ کی تاریخ یا پوری سندھ کی تاریخ کا یہ اتنا بڑا پہلا مذہبی اجتماع تھا۔ شمالی سندھ میں مدرسوں نے زور پکڑ لیا ہے۔ خود پاکستان پیپلز پارٹی بھی ان جماعتوں کی اتحادی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تقریر میں جو خاص بات کی وہ یہ تھی کہ وہ پاکستان کو کبھی بھی لبرل ہونے نہیں دیں گے۔ سندھ میں یہ تاثر ابھرا کہ وہ سندھ کی صوفی اقدار کو للکار رہے تھے۔ ڈھکے چھپے لفظوں میں سندھ کے مزاج میں سیکولر رویوں کو خبردار کر رہے تھے۔ دو ہفتے بعد سندھ کے بیس سے تیس لاکھ مختلف شہروں، گاؤں، قصبوں میں نکلے ہوئے جھرمٹ کہیں مولانا کو رد تو نہیں کر رہے تھے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔