- کیا سچی بات کرنے پر آپ وزیراعظم کو بھی بلائیں گے؟، فیصل واوڈا
- بھارت اور بنگلہ دیش میں موسلادھار بارشوں سے 38 افراد ہلاک
- نیب کا بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفتر پر چھاپہ، ریکارڈ قبضے میں لے لیا
- عید الاضحیٰ پر کراچی میں مویشیوں کا سب سے بڑا شہر آباد، خریدار غائب
- پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تیسرا ٹی ٹوئنٹی بارش کے باعث منسوخ
- شدید گرمی میں پالتوجانوروں اور پرندوں پر خصوصی توجہ ضروری
- خیبرپختونخوا اسمبلی میں الیکشن ٹریبونل آرڈیننس کے خلاف قرارداد کثرت رائے سے منظور
- حکومتی اتحادی ایم کیو ایم پاکستان نے نیب ترامیم پر اعتراضات اٹھادیے
- جیسے انگریزوں سے آزادی لی ویسے ہی اپنا حق لیں گے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
- پاکستانی والی بال ٹیم کا آسٹریلیا کے خلاف فاتحانہ آغاز
- فلسطینی شہداء کے 1000 لواحقین بطور شاہی مہمان حج کریں گے
- شدید گرمی، اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو روم کولر کی سہولت مل گئی
- کراچی: مویشیوں کی فیس کے نام پر ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف
- خیبرپختونخوا پولیس کے ٹک ٹاک استعمال پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ
- کراچی میں آج سے یکم جون تک ہیٹ ویو کی پیش گوئی
- پاک بحریہ نے بھاری مقدار میں منشیات اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی
- بھارت جنوبی ایشیا میں میزائل ڈیولپمنٹ قاتل ہے، جنرل(ر) زبیرمحمود حیات
- امریکا میں طوفان نے تباہی مچادی؛ 23 افراد ہلاک
- فوج کے قدموں میں بیٹھنے والا عمران خان آج فوجیوں اور انکے خاندانوں کو بدنام کررہا ہے، وزیراعظم
- ٹیٹو بنوانا خون کے کینسر کے خطرات بڑھا دیتا ہے، تحقیق
سرکاری مسیحا اور سرکاری اسپتال
ڈاکٹر آپ کو اور کتنے گھنٹے لگیں گے دوا لکھنے میں؟ میری ماں کی حالت آپ خود دیکھ کے آئی ہیں۔ تو میں یہاں کیا کر رہی ہوں؟ آپ کا پین نیچے پڑا ہے اور آپ ان کو بتا رہی ہیں کہ کل میں نے ’’دل والے‘‘ فلم دیکھی۔ کیا یہ وقت مریض کو دیکھنے کا ہے یا باتیں کرنے کا؟
دوسری ڈاکٹر یکدم کہنے لگیں تو آپ کسی اور اسپتال سے جا کر علاج کروالیں۔ کسی اور سے کیوں؟ یہ سرکاری اسپتال نہیں ہے؟ کیا یہ آپ کا پرائیویٹ کلینک ہے جہاں آپ جیسے اور جس کا چاہیں علاج کریں گے؟
پہلی ڈاکٹر نے فائل میری طرف پھینکتے ہوئے کہا، یہ دوائی لو اور دفع ہوجاؤ یہاں سے! یہ تمیز ہے آپ کی مریضوں سے بات کرنے کی؟ آپ کا انچارج کون ہے یہاں؟ مجھے اس سے بات کرنی ہے۔ میں اب آپ سے بات نہیں کرنے والا۔ اتنی دیر میں وہاں موجود نرسز اور سیکورٹی گارڈز بھی آ گئے اور الٹا مجھے تحَمل سے کام لینے کا مشورہ دیا کہ سرکاری اسپتال میں ایسی باتیں معمولی ہوتی ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ آپ کی ماں کی جان پر بنی ہو اور علاج کرنے والا لاپرواہی سے ساتھ والے کو بتا رہا ہو کہ اسے فلم پسند کیوں نہیں آئی تو مریض کے لواحقین کا کیا حال ہوگا؟ اور اگر اس پر احتجاج کیا جائے تو جواب ملے کہ دفع ہو جاؤ نہیں کرنا علاج۔
ایسی حالت میں جب عام انسان بھی درد سے تڑپتے شخص کی مدد کے لئے تیار ہوجائے باوجود اس کے کہ اسے کچھ پتا بھی نہ ہو تب ایک ڈاکٹر اس طرح کی غفلت دکھائے اور پوچھنے پر دفع ہوجانے اور کسی اور اسپتال سے علاج کرانے کا مشورہ دے تو انسان کیا کر سکتا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ میں پہلا یا آخری شخص نہیں جس کے ساتھ سرکاری اسپتال میں اس طرح کا سلوک ہوا۔ یہ ہر دوسرے شخص کی کہانی ہے اور ہر مریض کو تقریباً اسی طرح سے تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہمیشہ ہوتا رہے گا؟ کیا سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والوں کو تنخواہ اور مراعات نہیں ملتیں؟ اگر ملتیں ہیں تو پھر مریضوں کو وہ سلوک اور حقوق کیوں نہیں ملتے جن کا تذکرہ اور چرچا کرتے اور دوسرے ممالک کی مثال دیتے نہیں تھکتے مگر جب یہاں پہ وہ نظام اپنے اوپر لاگو کرنے کا وقت آتا ہے تو یکسر مختلف صورتِ حال نظر آتی ہے۔
ادارے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ریاست ان کے ذریعے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکے۔ اور ان میں ایسے ’’قابل‘‘ افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ جو معیار پر پورا اتریں اور اس معیار کو چیک کرنے کے لئے ان کے اوپر نگران مقرّر کئے جاتے ہیں۔ مگر وہ نگران کیا کریں گے جب انکو معلوم ہو کے ہمارے ’’خادم‘‘ کی ساری توانائی اور صوبے کا سرمایہ خدمت کے ’’میگا پروجیکٹ‘‘ پر لگ رہا ہے. ایسی صورتِ حال میں صحت، تعلیم، اور حفاظت کو شعبوں کا نظر انداز ہوجانا اور ان میں موجود قلیل سہولتوں کا بھی عوام تک نہ پہنچنا کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔
ایک ڈاکٹر کو یہ فکر تو ہے کہ وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے کسی کی جان گئی اور اگر سیاستدان ٹھیک ہوجائیں تو کتنی زندگیاں بچ سکتی ہیں، مگر یہ پتا نہیں ہے کہ اگر وہ ٹھیک ہوجائیں تو ساتھ والے بستر پہ پڑے مریض بچ سکتے ہیں۔ ہم سیاستدانوں کو ٹھیک کرنے کے چکر میں خود کو ٹھیک کرنا بھول گئے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔