شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے

قادر خان  بدھ 13 جنوری 2016
qakhs1@gmail.com

[email protected]

صوبہ قندوز افغانستان کے شمال میں واقع ہے، جس کے مشرق میں تخار، جنوب میں بغلان، مغرب میں بلخ اور شمال میں ہمسایہ ملک تاجکستان واقع ہے۔ 8040 مربع کلومیٹر پر پھیلے، اس علاقے کی آبادی آخری سروے کے مطابق 8 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ صوبہ قندوز مرکزی شہر امام صاحب سمیت چھ اضلاع چاردرہ، قلعہ زال، علی آباس، خان آباد اور دشت ارچی پر مشتمل ہے۔

قندوز کے باسی پشتون، تاجک، ازبک، ترکمن، عرب، ایماق اور ہزارہ افغان قبائل ہیں، صوبہ قندوز کا مرکز مزار شریف کے بعد افغانستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ امریکا اور افغانستان کی جانب سے افغان طالبان کی شکست اور نقصانات کے بڑے دعوے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن افغان طالبان کے کمانڈر مولوی رحمت اللہ جو اس علاقے میں ’عزم آپریشن‘ نامی جنگ میں مصروف تھے، بتاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ ان کے مطابق افغان طالبان نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔

صوبے کے مرکز سے ملحق گورتبپے کا علاقہ، تولکہ اور شرکت نامی علاقے، دشت ارچی اور چہار درہ کے دو اضلاع اور امام صاحب کے بھی وسیع علاقوں پر افغان طالبان نے قبضہ کیا۔ 21 چیک پوسٹ مکمل طور پر قبضے میں لی گئیں، چار ٹینک اور ایک رینجرزگاڑی، کرولا کار اور 100 عدد سے زیادہ چھوٹے اور بڑے ہتھیار اسلحہ گولہ بارود بھی افغان طالبان کے ہاتھ لگا۔ کمانڈر مولوی رحمت اللہ 55 افغان اہلکاروں کی گرفتاری کا بھی دعوی کیا تھا۔

قندوز پر چودہ سالہ جنگ کے بعد یعنی 2001ء کے بعد افغان طالبان کی جانب سے پہلی بڑی کارروائی تھی جس میں برسراقتدارحکومت کو نقصان اٹھانا پڑا اور طالبان نے قندوز پر حملہ اور اس کے وسیع علاقے پر تین دن تک قبضہ کر کے پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ طالبان اب بھی ایک بھرپور عسکری قوت رکھتی ہے کہ افغان فوج کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ قندوز کے قبضے پر اشرف غنی نے انکوائری کروائی جس میں شامل تفتیشی کمیٹی کے سربراہ امر اللہ صالح نے نیوز کانفرنس میں اقرار کیا کہ ’’سب سے بڑی ناکامی قیادت کی ہے، اس دن معلوم ہی نہیں تھا کہ انچارج کون ہے؟ امریکا نے صورتحال نازک بتائی۔

قندوز پر افغان طالبان حملے کے چار اہم مقاصد تھے، پہلا یہ تھا کہ وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر کے دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی صوبے کو فتح کر سکتے ہیں، دوسرا ان کا سب سے اہم مقصد قندوز کی جیل میں قید طالبان کو رہائی دلانا تھا، جس میں وہ کامیاب ہوئے، عسکری طور پر اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اسلحہ، گاڑیاں، خصوصاََ بکتربندگاڑیاں اور ٹینکوں کو بھی حاصل کرنا تھا، قندوز پر قبضے کے بعد طالبان نے روایت سے ہٹ کر سیلفیز بنائیں، صحافیوں کو عوام کے ساتھ طالبان کو کھڑے دکھا کر تصاویر لینے کی اجازت دی گئی۔ ا

فغانستان کے نائب آرمی چیف جنرل مراد علی مراد نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ قندوز کے قبضے میں طالبان کو پاکستان جرنیلوں کی حمایت حاصل تھی، افغانستان کی عادت ہی بنتی جا رہی ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والے ہر بڑے واقعے کے عقب میں پاکستان پر بنا ثبوت الزام عائد کر دیتا ہے۔

پاکستان کی جانب سے آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا کہ ’’افغان عہدے دار کی طرف سے عائد کردہ الزامات سراسر بے بنیاد، بغیر ثبوت کے، غیر ضروری اور نقصان دہ ہیں۔‘‘

افغانستان میں امریکا اور ان کی من پسند افغان حکومت کے خلاف افغان عوام میں اپنے وطن کی آزادی کی ایک مگن ہیں۔ امارات اسلامیہ افغانستان کے دعوؤں سے ہٹ کر ہم افغانستان کی تاریخ جانتے ہیں کہ افغان عوام حریت پسند، باعزت اور آزاد و خود مختار اقوام کی صف میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں۔ ایک آزاد ی پسند شہری کے حیثیت سے افغانستان کے عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ صدیوں کی روایت کے مطابق اپنے رسم و رواج کو اپنائیں۔ یہاں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ جب صوبہ قندوز کو افغان طالبان نے فتح کیا تو انھوں نے عام معافی کا بھی اہتمام کیا اور یہ پیغام بھی دیا تھا کہ شدت سے کام نہ لیا جائے، کیونکہ شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے۔

یہ ایک قابل غور نقطہ ہے کہ شدت بغاوت کو جنم دیتی ہے، ہم اپنی اصطلاحات میں اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف شدت پسند اور انتہا پسند جیسے لفظوں کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ہم اس بات سے صرف نظر نہیں کر سکتے کہ القاعدہ کے بعد روس کے خلاف طالبان امریکا کے سی آئی اے کے ایجنٹ اسامہ نے بنائی تھی، جو بعد ازاں افغانیوں کا ہی ہو کر رہ گیا اور باقاعدہ ایک اسلامی ریاست کے لیے متحرک ہو گیا۔

یہاں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکا و نیٹو کی کارروائیاں ملا عمر کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں اور اس نے اپنی بقایا زندگی پر امن و محفوظ گزاری۔ ملا عمر کی وفات کے بعد ہی طالبان کی صفوں میں انتشار پیدا ہوا اور اس کا سہرا بھی امریکا اور بھارت کو جاتا ہے کیونکہ دو سال پرانے وفات کے واقعے کو اس وقت سامنے لایا گیا، جب افغان طالبان، افغانستان اور پاکستان ایک میز پر بیٹھ کر پہلا دور کر چکے تھے۔ اسلام آباد وضاحت سے کہہ چکا ہے کہ افغان طالبان پر ان کا اثر ضرور ہے لیکن وہ ان کے تابع نہیں ہیں۔

یہ ہی وہ نقطہ آغاز تھا جس نے عالمی استعماری قوتوں کو کچھ ایسے منصوبے بنانے پر مجبور کر دیا کہ جو کام سیدھی انگلی سے نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے انگلی ہی ٹیڑھی کر لی جائے، لہذا عالمی استعماری قوتوں نے سرخ ریچھوں سے مقابلے کے لیے جہاد کو صائب اور پاکستان میں ایک بغیر داڑھی والے خلیفہ کو بیٹھا دیا تو جب تک ان کے مفادات رہے، مجاہد، مجاہد اسلام رہا لیکن جیسے ہی سرخ ریچھوں کو شکست ہوئی اور اس کی ریاست طویل جنگ کے مضمرات سے نہیں بچ سکی تو جو مجاہدین اسلام تھے یک بہ یک دہشت گرد، شدت پسند، انتہا پسند بن گئے۔

نائن الیون کے واقعے کے بعد جس طریقے سے افغانستان کے نہتے عوام پر 32 ممالک کی افواج حملہ آور ہوئیں کہ انھیں افغانستان تر نوالہ ملے گا لیکن انھیں یہاں ایسی سخت مزاحمت کا سامنا ہوا کہ جس کا انھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہود و نصاری اور ہنود کی سازشوں سے کون ناواقف ہے۔

یہاں انھوں نے پاکستان میں ایسے گروہوں کی بنیاد رکھ دی جس کا کام دہشت پھیلانا تھا۔ پاکستان کی سرزمین ان کے لیے زرخیز میدان ثابت ہوئی اور یہاں دہشت گردی کی آبیاری ہوتی چلی گئی، پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں پر اسلام کے نام پر قبضے کی مہم شروع ہوئی، سوات مالاکنڈ، وزیرستان، فاٹا کے علاقے پاکستان کے ہاتھ سے نکلتے چلے گئے، سیاسی حکومتیں مصلحت سے کام لیتی چلی گئیں لیکن جب کراچی ائیر پورٹ سانحے میں غیر ملکیوں کی مداخلت اور سانحہ اے اپی ایس رونما ہوا تو عسکری قوت کو ان کا جواب دینا فرض ہو گیا۔ بہت دیر ہو چکی تھی لیکن پاکستانی عسکری قوت کو معلوم تھا کہ یہ وہ دشمن ہے جو بچوں سے ڈرتا ہے۔ وہ پاک عسکری قوت کا سامنا نہیں کر سکا۔

افغانستان میں طالبان کی قوت دیکھ کر عالمی استبدادی قوتوں نے داعش کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس دولت اسلامیہ کہلانے والوں کو افغانستان میں داخل کر دیا جو صرف عراق و شام تک محدود تھے، افغان طالبان سے لڑنے کے لیے داعش سے بہتر ہتھیار عالمی منصوبہ سازوں کے پاس نہیں تھا کیونکہ ان دونوں جماعتوں کے پرچم پر کلمہ طیبہ جو لکھا ہوا تھا۔ دولت اسلامیہ نے امارات اسلامیہ سے جھڑپوں کا سلسلہ شروع کر دیا لیکن پاکستان، پڑوس کی ہر مصیبت کو گلے لگانے کا عادی ہو گیا ہے۔

اس لیے جب پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اقرار کر لیا کہ پنجاب سے 100 کے قریب افراد داعش میں شامل ہونے گئے ہیں تو اس کے بعد دوسرے صوبوں نے تو سختی سے انکار کیا لیکن جب کراچی میں صفورا گوٹھ اور پھر داعش خواتین گروپ کا انکشاف ہوا تو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں کہ داعش کی سر پرستی کرنے والے وہی ہیں جو کبھی مغرب کو سر پر بیٹھاتے ہیں تو کبھی ان کے پرچموں کو نذرآتش کرتے ہیں ۔

کبھی سپاہ بناتے ہیں تو اسلام کے نام پر کبھی سیاسی جماعت بن جاتے ہیں، چہروں پر نقاب بدل بدل کر آنے والے ہی دراصل داعش ہیں، جو اپنے مختلف روپ دھار کر مسلمانوں کی برین واشنگ کرتے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کے لیے دعا گو ضرور ہیں لیکن آپریشن راہ راست و راہ نجات کے بعد خبیر ون اور ٹو کی ضرورت پیش آنے کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے موجود ہیں اور ان کے سر پرست ابھی مکمل گرفت میں نہیں آئے۔

طالبان، داعش وغیرہ کے ناموں کے چکر میں پڑنے کے بجائے دراصل ہمیں ان کے خلاف پورے پاکستان میں آپریشن کلین اپ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔