ہومیو پیتھی …نئی طبی بحث

شیخ جابر  جمعـء 15 جنوری 2016
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

برطانیہ میں ہومیو پیتھی پر پابندی عائد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔گزشتہ برس13 نومبرکو بی بی سی اور دیگر برطانوی خبر رساں ادارے رپورٹ کرتے ہیں کہ برطانوی وزراء ڈاکٹروں پر ہومیو پیتھک ادویات کی تجویزپر پابندی کے بارے میں غورکررہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ 2016میں برطانیہ میں ہومیو پیتھی پر پابندی عائد ہو سکتی ہے۔گارجئین صرف اطلاع دینے تک ہی محدود نہ رہا ،اُس نے ایک بھرپور اداریہ بھی تحریرکیا۔ عنوان تھا ’’این ایچ ایس کو ادائیگی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ نیشنل ہیلتھ سروس یا این ایچ ایس برطانیہ میں صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے والادنیا کا قدیم ترین ادارہ ہے۔محکمہِ صحت کا بجٹ110بلین پاؤنڈ تھا،2013-4 میں اِس کا بیش تر این ایچ ایس پر صرف ہوا۔

اداریہ نویس لکھتے ہیں کہ ہومیو پیتھی ایک ’’پلیسی بو‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ آپ کا کہنا ہے کہ ہومیو ادویات کی اثر پزیری کے کوئی معقول اور سائنسی شواہد موجود نہیں۔ ہومیو ادویات جس اصول کے تحت تیارکی جاتی ہیں،اُس طریقے پر اُن ادویات میں اصل دوا کا ایک مالیکیول بھی نہیں بچتا۔ گارجئین کے مطابق یہ تمام تر غیر سائنسی اور غیر عقلی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اِس اصول کے تحت ادویات کی تیاری سائنس توکیا عام فرد کی عقل کے بھی منافی ہے۔جدید طب کی دنیا میں یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ شکرکی ایک گولی جو مریض کو بہ طور دوا دے دی جائے،بسا اوقات بڑی دواؤں سے زیادہ اثرکرتی ہے۔ ڈاکٹر اِسے ’’پلیسی بو ایفیکٹ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔کچھ اِسے انسانی ذہن کی یقین کی طاقت بتاتے ہیں۔

جدید طب کا کہنا ہے کہ اگر مریض کو بتا بھی دیا جائے کہ یہ دوا نہیں صرف میٹھی گولی ہے لیکن یہ ہی تمھارا علاج ہے تو اِس کے بھی اثرات حیرت انگیز نوٹ کیے گئے ہیں۔ اگر میٹھی گولیاں ایک خاص ترتیب کے ساتھ ایک خاص فضا بنا کر بہ طور تیر بہ ہدف نسخہ دی جائیں تو طبی ماہرین کے نزدیک اثر پزیری دُگنی ہو جاتی ہے۔اِن تمام تر فوائد کے باوجود وہ میٹھی گولیوں کا علاج ہی کہلائے گا۔ وہ سائنس یا جدید طب نہیں بن جائے گی۔برطانوی وزرا بجا طور پر ہومیو پیتھی کو سرکار انگلشیہ کی طبی سہولیات سے ’’بلیک لسٹ‘‘ کرنے پر غورکررہے ہیں۔ ایسا کیا ہی جانا چاہیے۔ اداریہ نویس مزید لکھتے ہیں کہ این ایچ ایس پر ایک فریضہ یہ بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ عوامی صحت کے فروغ کی کوششیں کرے۔یعنی لوگوں کی سوچ کو سائنسی بنایا جائے اور یہ اِس طور پر نہیں ہو سکتا کہ اگر آپ اپنی ’’چیک بُک‘‘ اور اپنا اعتماد ہومیو پیتھی کو دے دیں ، اگر طب میں جادوئی سوچ کو گنجائش دی جانے لگی تو ڈاکٹر دیگرکی نفی کِس طرح کرسکیں گے۔

جب مثال کے طور پر ایک تمبا کو نوش آپ کے سامنے آئے اور کہے کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے مفید ہے اور یہ کہ فلاں فلاں تمباکونوش 99 برس کی عمر کو پہنچ گئی ہے اور روزانہ 30سگریٹیں ایک عرصے سے پھونک رہی ہیں انھیں تو کچھ نہیں ہوا۔یا اگر مریض ضد حیوی(اینٹی بائیو ٹکس) کا مطالبہ کرے جو وائرل انفیکشن میں اثر نہیں رکھتے تو آپ انھیں کیا کہیں گے؟ڈاکٹروں کو ایسی بہت سی غیرسائنسی اور غیر عقلی سوچ سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔اِس کا بہترین راستہ یہ ہی ہے کہ وہ ثابت شدہ تک خود کو محدود رکھیں۔اِس کا مطلب ہے ہومیو پیتھی کی کوئی گنجائش نہیں۔

محمکہ صحت نے ’’جارج فری مین‘‘ سے رابطہ کیا ،آپ ’’لائف سائنسز‘‘ کے وزیر ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ بڑ ھتی ہوئی طبی ضروریات کے اِس دور میں این ایچ ایس کی ذمے داری ہے کہ وہ اِس امرکو یقینی بنائے کہ اُس کے فنڈز علاج معالجے کے بہترین طریق پر صرف ہورہے ہیں۔

اور ظاہر ہے آج بہترین وہی ہے جو سائنسی طور پرثابت شدہ ہے۔اور ہومیو پیتھی ایسے سائنسی شواہد پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام نظر آئی ہے۔گارجیئن یہیں تک محدود نہیں رہا ،اُس نے جمعرات 12مارچ 2015 کو ’’ایڈزار ارنیسٹ‘‘ کا مضمون شایع کیا عنوان ہے۔ ’’دئیر از نو سائنٹیفک کیس فار ہومیوپیتھی، ڈبیٹ از اوور‘‘۔ آپ کا کہنا ہے کہ جب 1993 میں’’ایکسٹر‘‘ میں بہ طور پروفیسر اوف کمپلی مینٹری میڈیسن میں نے کام کا آغاز کیا تو مجھے خوشی تھی کی اب میں ہومیو پیتھی کو ’’شک کا فائدہ‘‘ دے سکوں گا اور یہ ثابت کیا جا سکے گا کہ ہومیو پیتھی میٹھی گولیوں سے کچھ زیادہ اثر رکھتی ہے۔ ہومیو پیتھی کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ ’’لائیک کیورس لائیک‘‘۔(یعنی علاج بالمثل)نیز دوا کم سے کم۔ دوا ک کم کرنے کے عمل کو ’’پوٹینٹائزیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔

ہومیو پیتھ یقین رکھتے ہیں کہ جتنی دوا کم ہو گی یعنی پوٹینسی زیادہ ہوگی، اُتنا ہی دوا کی طاقت بڑھ جائے گی۔پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ دونوں یقین سائنسی بنیادوں سے عاری ہیں۔ سائنس کے پاس کوئی دلیل نہیں کہ وہ ان نظریات کو قبول کرے۔اِس کے بعد آپ حکومتِ آسٹریلیا کی مشہور تحقیق کا ذکرکرتے ہیں۔ عالمی سطح پر وقعت کی نگاہ سے دیکھی جانے والی’’آسٹریلین نیشنل ہیلتھ اینڈ میڈیکل ریسرچ کونسل‘‘ نے آزادانہ اور منصفانہ طور پر ہومیو پیتھی کی آزمائش کی ۔ ا یسی کڑی جانچ ہومیو پیتھی کی200سالہ تاریخ میں شاید ہی کبھی ہوئی ہو۔ ابتدائی رپورٹ سامنے آئی کہ ہومیو پیتھی میٹھی گولیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ اِس رپورٹ کی اشاعت کے فوراً بعد ایک طوفان اُٹھ کھڑا،اِس کا اندازہ بھی تھا۔

لہٰذا ہومیو پیتھس کو دوبارہ موقع دیا گیا۔ پھر شواہد جمع ہوئے۔ ماہرین نے اُن کا دقتِ نظر سے جائزہ لیااور اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔حتمی رپورٹ سرِمُو مختلف نہ تھی۔اِلّا یہ کہ اُس میں یہ اضافہ کر دیا گیا کہ’’افراد جواپنے لیے ہومیو پیتھی کا انتخاب کرتے ہیں اپنی صحت کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘‘گارجئین کے مضمون نگار کہتے ہیں کہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر فارمیسی کے افراد کو کہوں گا کہ اگر و ہ مریضوں کو ہومیو پیتھی ادویات ’’پلیسی بو‘‘ کہے بغیر فروخت کریں گے تو اخلاقی جرم کے مرتکب ہوں گے۔

20-21اپریل2015کو ایف ڈی اے میں ایک پیشی ہوتی ہے۔ ایف ڈی اے امریکا کا ادارہ ہے اور فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کہلاتا ہے۔ مائیکل ڈی ڈورا، سینٹر فارانکوئری(سی ایف آئی) کی نمایندہ اور دیگر کئی ڈاکٹرز کی موجودی میں یہاں بھی ہومیوپیتھی کا کیس پیش ہوا۔سی ایف آئی اپنے شہادت نامے میں کہتا ہے کہ ہومیو پیتھی ادویات کا یا توکوئی اثر ہی نہیں ہے یا زیادہ سے زیادہ آپ اسے پلیسی بوایفیکٹ کہہ لیں۔

اواخر 2015سے اب تک راقم نے سینئیر ہومیو پیتھس سے ہومیو پیتھک کی سائنسی اساسات جاننے کی سعی کی ۔ واقعہ یہ ہے کہ میں اب تک اِس حوالے سے کچھ بھی نہ جان سکا۔بعض نے تو برملا اِس کا اعتراف کیاکہ وہ نہ تو سائنس کے طالب علم ہیں نہ ہی ہومیو پیتھی کی سائنسی اساسات اُن کا کبھی موضوع رہیں۔اُن کے نزدیک وہ ہومیو پیتھی کے طالب علم ہیں اور بس۔ اِن میں سے یقیناً کئی ایک بڑے پائے کے ہومیو پیتھ ہیں کہ جن سے ایک دو نہیں سیکڑوں ہزاروں مریض شفایاب ہوئے ، لیکن سائنسی شواہد کی جمع اور ترتیب سے انھیں بھی کوئی شغف نہیں۔ یوں بھی ہمارے ہاں ہومیوپیتھ حکیموں کے طرزِ عمل کے عین مطابق اپنا علم تو دورکی بات ہے۔

اپنا نسخہ بھی کسی کے علم میں لانا گناہ خیال کرتے ہیں۔اگر اُن سے اُن کے نسخے پر ، بیماری پر یا ہومیو پیتھی پر ذرا بات کر لی جائے تو بھڑک اُٹھتے ہیں۔ ساری خوش اخلاقی منٹوں میں ہوا ہو جاتی ہے۔یہ میں عطائی معالجین کا ذکر نہیں کر رہا، یہ بات ہے مستند ہومیو معالجین کی۔وگرنہ تو یہاں ایسے ہومیو ڈاکٹروں کی بھی کمی نہیں جو میٹرک پاس ہیں اور اردو کی چند کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر بن بیٹھے ہیں۔ وہ طب پر ایسے استناد سے گفتگو فرماتے نظر آئیں گے کہ اچھے اچھے اُنھیں اپنا طبیب حاذق مان لیں۔ایک اندازے کیمطابق آج پاکستان میں 13000کے قریب رجسٹرڈ ہومیو پیتھ ہیں۔ نہ صرف اِس تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ عام افراد بھی تیزی سے ہومیو علاج اور فطری طُریقِ علاج کی جانب آرہے ہیں۔

ہومیو پیتھی کی سائنسی اساسات کیا ہیں ؟کیایہ سائنسی طریقہِ علاج ہے؟اِس حوالے سے برطانوی وزراء سے لے کر آسٹریلوی محکمہِ صحت بھی ثبوت کی تلاش میں ہے۔ ہومیوپیتھ کیوں کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے؟ وہ بھی اپنا علمی و طبی تھیسس پیش کریں ۔احقر اِس حوالے سے ایک رائے رکھتا ہے جو انشاء اللہ جلد پیش کردی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔