کرمنل پراسیکیوشن بل کسی کو فائدہ پہنچانے یا اہم مقدمہ واپس لینے کیلیے نہیں لائے قائم علی شاہ
عدالتیں با اختیار ہیں اور كوئی بھی مقدمہ ان کی منظوری يا اجازت كے بغير واپس نہيں ليا جاسكے گا، وزیراعلیٰ سندھ
عدالتیں با اختیار ہیں اور كوئی بھی مقدمہ ان کی منظوری يا اجازت كے بغير واپس نہيں ليا جاسكے گا، وزیراعلیٰ سندھ، فوٹو؛ فائل
وزيراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ كرمنل پراسيكيوشن ترميمی بل کوئی منی این آر او نہیں جب کہ یہ بل کسی کو فائدہ پہنچانے یا اہم مقدمہ واپس لینے کے لیے بھی نہیں لایا گیا۔
وزيراعلیٰ ہاؤس میں ميڈيا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نےکہا کہ سندھ كرمنل پراسيكيوشن ترميمی بل 2015 نہ تو ايم كيو ايم سے مک مكا كركے اور نہ ہی اپنے آپ كو فائدہ پہنچانے كے ليے لايا گيا، اس بل کی منظوری سے كسی كو فائدہ پہنچانے يا كوئی اہم مقدمہ واپس لينے سے متعلق كوئی منصوبہ بندی نہيں کی گئی تاہم اس حوالے سے تمام خبريں افواہيں اور قياس آرائياں ہيں۔
قائم علی شاہ نے كہا كہ یہ بل کوئی منی اين آر او نہيں لہٰذا اس بل كو كالا قانون كہنا غلط ہے، اس قانون سازی كے ذريعے پراسيكيوٹرز كو بااختيار بنايا گيا ہے کیونکہ سندھ میں پراسيكيوشن نظام ميں كئی خامياں تھيں جس کی وجہ سے ملزمان كو فائدہ پہنچتا تھا اور اپيكس كميٹی نے بھی پراسيكيوشن کے نظام ميں اصلاحات كے ليے قانون سازی كی سفارش كی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اپيكس كميٹی کی سفارشات پرپراسيكيوشن كے نظام ميں اصلاحات كے ليے اس بل کو سندھ اسمبلی سے منظور كرايا گیا ہے تاہم اس سے نہ عدالتوں كے اختيارات سلب ہوں اور نہ ہی حکومت عدالتی معاملات پر اثرانداز ہوگی بلکہ اب ملزمان كے خلاف گھيرا بھی تنگ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں با اختیار ہیں لہٰذا كوئی بھی مقدمہ عدالت کی منظوری يا اجازت كے بغير واپس نہيں ليا جاسكے گا۔
رينجرز اختيارات كے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ رينجرز كے اختيارات كے معاملے پر كوئی تنازعہ نہيں جب 5 فروری آئے گی تو پھر ديكھا جائے گا اور اس معاملے پر كوئی مسئلہ درپيش نہيں آئے گا۔
وزيراعلیٰ ہاؤس میں ميڈيا سے بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نےکہا کہ سندھ كرمنل پراسيكيوشن ترميمی بل 2015 نہ تو ايم كيو ايم سے مک مكا كركے اور نہ ہی اپنے آپ كو فائدہ پہنچانے كے ليے لايا گيا، اس بل کی منظوری سے كسی كو فائدہ پہنچانے يا كوئی اہم مقدمہ واپس لينے سے متعلق كوئی منصوبہ بندی نہيں کی گئی تاہم اس حوالے سے تمام خبريں افواہيں اور قياس آرائياں ہيں۔
قائم علی شاہ نے كہا كہ یہ بل کوئی منی اين آر او نہيں لہٰذا اس بل كو كالا قانون كہنا غلط ہے، اس قانون سازی كے ذريعے پراسيكيوٹرز كو بااختيار بنايا گيا ہے کیونکہ سندھ میں پراسيكيوشن نظام ميں كئی خامياں تھيں جس کی وجہ سے ملزمان كو فائدہ پہنچتا تھا اور اپيكس كميٹی نے بھی پراسيكيوشن کے نظام ميں اصلاحات كے ليے قانون سازی كی سفارش كی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اپيكس كميٹی کی سفارشات پرپراسيكيوشن كے نظام ميں اصلاحات كے ليے اس بل کو سندھ اسمبلی سے منظور كرايا گیا ہے تاہم اس سے نہ عدالتوں كے اختيارات سلب ہوں اور نہ ہی حکومت عدالتی معاملات پر اثرانداز ہوگی بلکہ اب ملزمان كے خلاف گھيرا بھی تنگ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالتیں با اختیار ہیں لہٰذا كوئی بھی مقدمہ عدالت کی منظوری يا اجازت كے بغير واپس نہيں ليا جاسكے گا۔
رينجرز اختيارات كے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ رينجرز كے اختيارات كے معاملے پر كوئی تنازعہ نہيں جب 5 فروری آئے گی تو پھر ديكھا جائے گا اور اس معاملے پر كوئی مسئلہ درپيش نہيں آئے گا۔