نقش بر آب

شیخ جابر  جمعرات 21 جنوری 2016
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

بہت وقت بِیتا، ایک بزرگ کی خدمت میں سوداگر کا مسئلہ بیان کیا گیا۔ جب وہ سامانِ تجارت لے کر قافلے کے ساتھ سفر پر روانہ ہوتا تھا، تو جوں جوں منزلیں طے ہوتی جاتیں اُس کا معدہ خراب ہوتا جاتا۔ تمام تر سفر وہ شدید بے آرامی اور بے قراری میں کیا کرتا تھا۔ پھر جوں جوں اپنے مستقر سے قریب ہوتا امعائے معدہ کو قرار آتا۔ بہت حاذق طبیبوں سے علاج کروایا کوئی افاقہ نہ ہوا۔ اکثر  نے اِسے گھر سے دوری کے اثرات پر منتج کیا۔ بزرگ نے مسئلہ سُن کر تبسم فرمایا۔ ہدایت کی کہ پانی صرف اپنے مشکیزے سے پینا اور مشکیزہ خالی نہ ہونے دینا۔ اِس مرتبہ سوداگر نے ایسا ہی کیا۔ تجارتی سفر پر روانہ ہوا توجہاں اُس کے مشکیزے میں پانی کم ہوتا وہ اور شامل کر لیتا۔ حیرت انگیز طور پر اُس کا سفر خیریت سے گزرا ذرا پریشانی نہ ہوئی۔

1956 جنوب مشرقی ایشیاکی ایک خفیہ عسکری تجربہ گاہ۔ یہ تجربہ گاہ مخصوص تھی تباہ کُن ہتھیار سازی کے لیے۔ یہاں کئی سال سے کام جاری تھا اور تیزی سے جراثیمی ہتھیاروں کی تیاری پر کام کیا جا رہا تھا۔ سائنس دان دن رات اِس بحث میں مصروف تھے کہ اِن ہتھیاروںکی خصوصیات کیا ہونی چاہیے ہیں۔ خفیہ مقام پر خفیہ ترین اجلاس جاری تھا کہ اچانک کارروائی روک دینا پڑی۔ تمام شرکا کو فوری طور پر اسپتال لے جانا پڑا۔ سب ہی کی حالت زہر خورانی کے باعث تشویش ناک ہو چلی تھی۔

فوری طور پر تحقیق شروع کی گئی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی کڑی تحقیق و تفتیش ہو گی، لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچا جا سکا۔ ہر تحقیق بند گلی پر ختم ہوئی۔ آج تک یہ سمجھا نہ جا سکا کہ شرکا زہر خورانی کا شکار کیوں ہوئے؟ انھوں نے سادہ پانی کے علاوہ کچھ کھایا پیا نہ تھا اور پانی اپنے ہر ہر تجزیے میں ایچ ٹو او کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زہر خورانی کا باعث سادہ پانی ہے۔1881ء کا موسمِ سرما، بحرِ اوقیانوس۔ بحری جہاز ’’لارا‘‘ لیور پول سے سان فرانسسکو جانے کے لیے سفر شروع کرتا ہے۔ سفر کے تیسرے دِن بدقسمتی سے جہازپر آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ بحری جہازکی آگ خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

یہاں تک کہ جہاز خالی کرنا پڑتا ہے۔ بحری جہاز کا کپتان نیل کیری بھی اپنے عملے کے ساتھ جان بچانے کے لیے کشتی میں اُتر آتے ہیں۔ مزید بدقسمتی سے جلد ہی اُن کا آبی ذخیرہ ختم ہو جاتا ہے۔ وہ سب بیچ سمندر میں ہیں، چھوٹی سی کشتی ہے اور پانی نہیں ہے۔ اخبار دی نیو یارک ٹائمز رپورٹ کرتا ہے کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ عملے کی حالت خراب سے خراب ہوتی جا رہی تھی۔3 ہفتے تک وہ ساحل نہ دیکھ سکے۔ یہ دن کیسے گزرے، اُن کی جان کیسے بچی؟ کپتان کیری نے اخبار کو بتایا کہ ہم سب پانی کی عدم موجودگی میں پانی کے خواب دیکھنے لگے۔

سب نے یہ سوچ لیا کہ پانی جو اُن کے چاروں طرف پھیلا ہے سمندر کا کھاری پانی نہیں، بلکہ یہ قدرت کی جانب سے صاف شفاف میٹھے پانی کے چشمے کا تازہ پانی ہے۔کپتان کہتا ہے کہ تصور کی شدت میں جب ہم نے سمندر کے پانی کا چلو بھر کر پیا تو وہ میٹھا تھا۔ ہم 3 ہفتوں تک وہ میٹھا پانی استعمال کرتے رہے اور بہ خیر و عافیت ساحل تک آن لگے۔آبِ مقدس کا تصور قریباً ہر تہذیب و خطے میں نظر آتا ہے۔ آج بھی لوگ  برکت اور صحت کے لیے مذہبی افراد سے پانی دَم کرواتے ہیں۔

بچوں کو اور بیماروں کو دَم کیا ہوا پانی پلایا جاتا ہے۔ صدیوں سے دنیا کے ہر خطے میں تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ یہ نظر آتا ہے۔ آخرایسا کیوں ہے؟ کیا ساری دنیا کے تمام قدیم حکماء غلط ہوسکتے ہیں؟ یا واقعی پانی، کیمیائی طور پر تو سادہ پانی ہی رہتا ہے لیکن اُس کے خواص بدل جاتے ہیں؟ کیا پانی دَم کیے جانے کے یا آس پاس کے اثرات قبول کر کے آگے منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا پانی کی یا دداشت ہوتی ہے؟ کیا نقش برآب حقیقت ہے؟

11 مئی2015ء پیر۔ مشہور اخبار دی گارجئین سائنس کے صفحات پر لکھتا ہے،عنوان ہے، ’’پانی:کرہئِ ارض کا جادوئی مائع۔ الوک جا لکھتے ہیں کہ پانی کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ ایچ ٹو او ہے لیکن کیا یہ اتنی سادہ بات ہے؟ یقیناًنہیں۔ پانی دنیا کی حیرت انگیز ترین چیز ہے۔ سائنس دانوں نے آج تک جو کچھ سیکھا ہے جتنے بھی قوانین بنائے ہیں پانی اُن سب کی نفی کرتا نظر آتا ہے۔ سادہ سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے ہم سب نے نے ٹھنڈا پانی پینے کے لیے سادہ پانی میں برف کی ڈلیاں ڈالی ہوں گی۔

کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ یہ سادہ سی بات نہیں فطرت کا حیرت انگیز ترین مظہر ہے۔ جی ہاں حیرت انگیز ترین مظہر۔ غور کیجیے عام زندگی میں بھی اور دنیا میں کبھی بھی کہیں بھی کیا یہ ممکن ہے کہ ’’ایک ٹھوس اپنے ہی مائع میں تیرنے لگے‘‘۔ ذرا سوچیں غور کریں؟ کیا ٹھوس موم مائع موم میں تیرتا ہے؟ سائنس دانوں سے دریافت کریں، کیا آتش فشاں پھٹنے پر چٹانیں لاوے پر تیرتی ہیں؟ ہم سب ہی کا تجربہ ہے،  فرج یا ڈیپ فریزر میں برف کِس نے نہ جمائی ہو گی۔ سوچیں کیا ہوتا ہے؟ طبیعات و کیمیا و سائنس کے تما م اصول دھرے رہ جاتے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ چیزیں گرم ہونے پر پھیلتی ہیں اور ٹھنڈا ہونے پر سُکڑتی ہیں، لیکن پانی برف بننے پر پھیلتا ہے۔ پانی کا سطحی تناؤ حیرت انگیز ہے۔

یہ دنیا کا آسان ترین منحل ہے۔ یہ واحد مائع ہے جو کششِ ثقل کے تمام قوانین کو توڑتے ہوئے ایک ایک میل اونچے درختوں کی چوٹیوں تک بغیر کسِی موٹر کے پہنچتا ہے۔ غرض جتنا آپ غورکریں گے آپ کے سامنے ایک جہانِ حیرت کُھلتا چلا جائے گا۔ تفصیل اِس اجمال کی بہت ہے۔ ’’ولادیمیر ویکوف‘‘ روسی سائنس دان ہیں آپ ماسکو یونی ورسٹی کے کلیہ نباتات کے پروفیسر رہے۔ آپ نے برملا اعترف کیا کہ’’ ہم پانی کے بارے میںکچھ بھی نہیں جانتے‘‘۔اب سے چند دہائی قبل پانی کے عجیب و غریب خواص کی وضاحت کے لیے ایک مفروضہ پیش کیا گیا۔ پانی یادداشت رکھتا ہے، وہ چیزوں کو محفوظ رکھ کر آگے بھی بڑھاتا ہے۔

پانی اپنے آس پاس کے ماحول سے اثر لیتا ہے۔ دور و نزدیک کی باتوں کو وہ جذب کر لیتا ہے۔ پانی سے مَس ہونے والی کوئی بھی چیز اپنے اثرات پانی میں چھوڑ جاتی ہے۔یہ نقوشِ آب کیمیائی تجزیے میں نظر نہیں آتے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ پانی کے مالیکیولز کے ترتیبی ڈھانچے میں تبدیلی لاتے ہیں۔ پانی کے مالیکیولز جِس ڈھنگ سے جُڑے ہوتے ہیں وہ ’’کلسٹر‘‘ کہلاتے ہیں۔  یہ’’کلسٹر‘‘ یادداشتی خلیوں کے طور پرکام کرتے ہوئے خود سے خارجی دنیا کی یادداشتیں یہیں محفوظ کرتے ہیں، جیسے میگنیٹک ٹیپ پر چیزیں محفوظ ہو جاتی ہیں۔

پانی پر انسانی احساسات اور جذبات کے اثرات جاننے کے لیے کسی تجربہ گاہ کی نہیں صرف ارادے کی ضرورت ہے۔ ساحل پر کھڑے ہو جائیں کچھ ہی دیر میں آپ خود کو ہلکا محسوس کریں گے۔ ساحل دور ہے ابھی اِسی وقت آپ جہاں کہیں بھی ہیں30 سیکنڈ کے لیے آنکھیں بند کر کے ساحل پر پہنچ جائیں، لہروں کا شور، لہروں کی پھوار محسوس کریں اور فرق دیکھیں اِسے مشق بنا لیں۔ابھی پانی کا گلاس تھامیں، تصور کریں کہ یہ انسانوں کے لیے قدرت کا عظیم ترین تحفہ ہے، اب پی لیں کیسا محسوس ہوتا ہے؟

پانی معلوم سائنسی قواعد کے خلاف کام کرتا نظر آتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا بعینہ پانی خارجی اثرات قبول نہیں کر سکتا؟ کیا پانی دُعا کے اثر سے دوا نہیں بن سکتا؟ دوا سے لادوا کا سفر اور پھر دوا، پانی کے لیے کون سا امر مانع ہو سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ ہومیوپیتھی کی بحث کے دوران اِس نکتے کو ملحوظ کیوں نہیں رکھا جاتا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔