ڈیرہ بگٹی میں دھماکا
ملک میں امن و امان کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی خاطر دہشتگرد ہمہ جہت حملے کرنے میں مصروف ہیں
دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پہلو کمزور چھوڑ دینا باعث نقصان ہو سکتا ہے، اس لیے درست اسٹرٹیجی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔ فوٹو: فائل
ملک میں امن و امان کی فضا کو سبوتاژ کرنے کی خاطر دہشتگرد ہمہ جہت حملے کرنے میں مصروف ہیں، گزشتہ روز بلوچستان کے وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے قافلے کو ڈیرہ بگٹی میں بارودی سرنگ دھماکے سے نشانہ بنایا گیا جس میں وزیر داخلہ بال بال بچ گئے۔ پولیس ذرائع کے مطابق میر سرفراز بگٹی جمعہ کو 8 گاڑیوں کے قافلے میں ڈیرہ بگٹی سے بیکڑ جا رہے تھے کہ کچے میں دہشتگردوں نے نصب بارودی سرنگ دھماکے سے اڑا دی، دو گاڑیاں زد میں آ کر تباہ ہو گئیں تاہم وزیر داخلہ اور تمام سیکیورٹی اہلکار محفوظ رہے۔
بی بی سی کے مطابق وزیر داخلہ کی گاڑی کو بم حملے کا نشانہ بنانے کی ذمے داری کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی نے قبول کر لی ہے۔ بلوچستان کی فضا ایک عرصے سے انارکی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، ریاست مخالف عناصر امن و امان کی خراب صورتحال اور علاقے میں عوامی سہولتوں کے فقدان کے باعث عوام میں منفی ذہن سازی کر کے اپنے ریاست مخالف مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک شورش زدہ فضا ہے۔ بلاشبہ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے ان عناصر کی بیخ کنی کے لیے کارروائی روبہ عمل لائی گئی لیکن ہر کچھ عرصے بعد حالات پھر خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے دھماکے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حملے ہمیں مرعوب نہیں کر سکتے، پیچھے سے وار کرنا بلوچ روایات کے منافی ہے۔ ایسے وقت پختہ عزم کی ضرورت ہے تا کہ شرپسند عناصر انارکی پھیلانے کے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
صوبہ میں دہشتگرد عناصر کی بیخ کنی کے لیے مسلح کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ گزشتہ روز ضلع آواران کے علاقے مشکے میں ایف سی کے ساتھ فائرنگ تبادلے میں 6 دہشتگرد ہلاک ہو گئے جب کہ ایک ایف سی اہلکار شہید اور 2 زخمی ہو گئے، آواران میں ہی حساس ادارے اور ایف سی کے سرچ آپریشن اور فائرنگ تبادلے میں 2 شرپسند مارے گئے جب کہ ضلع لسبیلہ میں فائرنگ تبادلے کے بعد 8 شرپسندوں کو گرفتار کر کے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود قبضے میں لے لیا۔ بلاشبہ یہ کارروائیاں قابل تحسین ہیں لیکن دہشتگرد عناصر کے خلاف مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے۔
اداروں کے مابین انٹیلی جنس رپورٹ کی شیئرنگ اور سیکیورٹی لیپس کو دور کرنا از حد ضروری ہے۔ ملک مزید انارکی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شرپسندوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ عوامی سطح پر عدم تحفظ کا احساس دور کرنے اور عوامی ذہن سازی کی ضرورت ہے تا کہ شرپسندوں کی منفی تبلیغ کے باعث عوام میں پنپتے ریاست مخالف جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پہلو کمزور چھوڑ دینا باعث نقصان ہو سکتا ہے، اس لیے درست اسٹرٹیجی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔
بی بی سی کے مطابق وزیر داخلہ کی گاڑی کو بم حملے کا نشانہ بنانے کی ذمے داری کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی نے قبول کر لی ہے۔ بلوچستان کی فضا ایک عرصے سے انارکی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، ریاست مخالف عناصر امن و امان کی خراب صورتحال اور علاقے میں عوامی سہولتوں کے فقدان کے باعث عوام میں منفی ذہن سازی کر کے اپنے ریاست مخالف مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرم ہیں۔ ایک شورش زدہ فضا ہے۔ بلاشبہ حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے ان عناصر کی بیخ کنی کے لیے کارروائی روبہ عمل لائی گئی لیکن ہر کچھ عرصے بعد حالات پھر خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے دھماکے کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ایسے حملے ہمیں مرعوب نہیں کر سکتے، پیچھے سے وار کرنا بلوچ روایات کے منافی ہے۔ ایسے وقت پختہ عزم کی ضرورت ہے تا کہ شرپسند عناصر انارکی پھیلانے کے اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
صوبہ میں دہشتگرد عناصر کی بیخ کنی کے لیے مسلح کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ گزشتہ روز ضلع آواران کے علاقے مشکے میں ایف سی کے ساتھ فائرنگ تبادلے میں 6 دہشتگرد ہلاک ہو گئے جب کہ ایک ایف سی اہلکار شہید اور 2 زخمی ہو گئے، آواران میں ہی حساس ادارے اور ایف سی کے سرچ آپریشن اور فائرنگ تبادلے میں 2 شرپسند مارے گئے جب کہ ضلع لسبیلہ میں فائرنگ تبادلے کے بعد 8 شرپسندوں کو گرفتار کر کے بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود قبضے میں لے لیا۔ بلاشبہ یہ کارروائیاں قابل تحسین ہیں لیکن دہشتگرد عناصر کے خلاف مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے۔
اداروں کے مابین انٹیلی جنس رپورٹ کی شیئرنگ اور سیکیورٹی لیپس کو دور کرنا از حد ضروری ہے۔ ملک مزید انارکی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ شرپسندوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ عوامی سطح پر عدم تحفظ کا احساس دور کرنے اور عوامی ذہن سازی کی ضرورت ہے تا کہ شرپسندوں کی منفی تبلیغ کے باعث عوام میں پنپتے ریاست مخالف جذبات کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ دہشتگردوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پہلو کمزور چھوڑ دینا باعث نقصان ہو سکتا ہے، اس لیے درست اسٹرٹیجی کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔