اخلاقی جرائم اور سائبر کرائم!

رئیس فاطمہ  جمعرات 19 جولائی 2012
رئیس فاطمہ

رئیس فاطمہ

دونوں لڑکیاں انتہائی پریشانی اور تشویش سے بھرے لہجے میں خود پر گزری واردات سنا رہی تھیں۔ بڑی بہن تفصیل سے ہر بات بتا رہی تھی جب کہ متاثرہ لڑکی صرف روئے چلی جا رہی تھی۔ ہم دونوں میاں بیوی پورے انہماک اور توجہ سے ان کی بات سن رہے تھے۔ معاملہ بہت گمبھیر تھا لیکن نیا نہیں تھا۔

پہلے بدقماش لوگ راہ چلتی لڑکیوں پر آوازے کستے تھے، انھیں طرح طرح سے پریشان کرتے تھے، ٹیلی فون پر بیہودہ اور غیرشائستہ گفتگو کرتے تھے، پھر موبائل آ گیا اور SMS کے ذریعے مزید دروازے کھل گئے۔ لینڈ لائن پر CLI کے ذریعے کال کرنے والے کو پکڑنا آسان تھا لیکن موبائل کا نمبر ٹریس کرنا اور مجرموں تک پہنچنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں کہ لوگ نئے نئے پیکیج لے کر مختلف سِمیں اپنے پاس رکھتے ہیں۔

ہر بار ایک نئی سم لگا کر لڑکیوں کو فون کرنا، ان سے فحش باتیں کرنا اور MSG بھیجنا اب بہت آسان ہے بلاشبہ ایک مثبت ایجاد کا انتہائی منفی استعمال کرنے والے افراد قابل مذمت ہے۔ اﷲ بھلا کرے فیس بک کا کہ جس کی جی چاہو تصویر لگا دو اور جس کے متعلق جو چاہو عبارت لکھ دو‘ بھلا کون پوچھنے والا ہے۔ بے قصور لڑکیوں کے متعلق فحش مواد لکھو، انھیں بدنام کرو اور دوستوں سے خوش ہو ہو کر تذکرہ کرو۔

یہ دونوں لڑکیاں بھی ایسی ہی صورت حال کا شکار ہوئی ہیں۔ شروع میں انھوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور اب وہ بہت تکلیف دہ صورت حال سے گزر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی لائبریری سائنس کی لیکچرر ہے۔ دورانِ تعلیم اس کا ایک ہم جماعت اکثر لڑکیوں کو تنگ کیا کرتا تھا، بعض کو اس نے شادی کا جھانسہ بھی دیا۔ اس کے اسی قسم کے مشاغل تھے۔ شکایت تو اس کے رویوں کی اکثر لڑکیاں کرتی تھیں لیکن کبھی کسی لڑکی نے اس کی حرکتوں کی شکایت کسی ذمے دار شخص سے نہ کی، جس سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی اور وہ کھل کھیلتا رہا۔

پھر اس نے ایک سیاسی جماعت جوائن کر لی جس سے لوگ مزید خوف زدہ ہو گئے۔ متذکرہ لڑکی سے بھی وہ برابر چھیڑ چھاڑ کرتا رہا جس پر اس لڑکی نے اور اس کی بہن نے اسے ایک ایک تھپڑ مارا۔ اسی دوران اس لڑکے نے اپنے موبائل سے اس لڑکی کی تصویر بنا لی جس کا کسی کو بھی پتا نہ چل سکا۔ وہ لڑکی فرض کر لیجیے اس کا نام نائلہ اور لڑکے کا نام جعفر ہے۔ جعفر کی سرشت میں لڑکیوں کو تنگ کرنا شامل ہے۔ وہ نائلہ کا تھپڑ شاید نہیں بھولا تھا۔ اس دوران نائلہ کا اپائنٹمنٹ ایک کالج میں ہو گیا، دوسری طرف جعفر کو بھی سرکاری نوکری مل گئی۔ لگتا تھا سب ٹھیک ہو گیا لیکن نہیں، جعفر شاید مسلسل اپنے رخسار پر تھپڑ کی جلن محسوس کر رہا تھا۔

سو اس نے فیس بک پہ نائلہ کے نام سے انتہائی بے ہودہ تصاویر اور عبارت لکھ دی۔ نائلہ اور اس کی بہن نے اپنے تمام جاننے والوں سے اس بات کا ذکر کیا۔ نائلہ نے اپنی پرنسپل کو بھی تمام حالات سے آگاہ کیا۔ انھوں نے اسے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس کے علاوہ اس نے سائبر کرائم کے حوالے سے بھی متعلقہ شعبے کو درخواست دی لیکن ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب میں نے انھیں جعفر کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی صلاح دی ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈائریکٹر آف کالجز کو بھی درخواست دینے کا مشورہ دیا ہے۔

نائلہ نے براہِ راست جعفر سے بھی بات کی کہ وہ اس کی تصویر واپس کر دے اور فیس بک پر سے تمام مواد ہٹا لے لیکن اس کے بجائے جعفر کی رشتے دار خواتین نائلہ سے لڑنے جھگڑنے آ گئیں۔ وہ کسی صورت فیس بک سے معیوب عبارت ہٹانے کو تیار نہیں بلکہ وہ الٹا اپنی سیاسی جماعت کا نام لے کر انھیں دھمکاتا ہے۔ کون ہے جو ان لڑکیوں کی مدد کرے؟ ہے کوئی سیاسی جماعت جو نائلہ کی مشکل کو حل کر سکے؟ ہے کوئی خاتون ایم پی اے جو آئینے میں شکل دیکھتے رہنے کے بجائے اس بچّی کو اس عذاب سے نکالنے میں مدد دے؟

نائلہ کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ نہ جانے کتنی اور لڑکیوں کے ساتھ ہوا ہو گا اور ہو رہا ہو گا لیکن وہ سب چپ رہیں کہ عورت کا مقدر یہی ہے۔ لیکن آفرین ہے نائلہ کی ہمت پر کہ اس نے جعفر جیسے بلیک میلروں کو بے نقاب کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، وہ ہمت نہیں ہارے گی اور حالات کا مقابلہ کر کے سچ سامنے لائے گی تاکہ جعفر جیسے بدقماشوں کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے آ سکے۔

آج ایک اور اہم مسئلے پر بھی توجہ دلانا چاہتی ہوں جو پولیس والوں کی مدد اور ملی بھگت سے خوب پھل پھول رہا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ شہر کے چوراہوں پر عموماً نوجوان بھکارنیں بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ ان کی نگاہوں کا مرکز عموماً نوجوان لڑکے اور مرد حضرات ہوتے ہیں۔ یہ بھکارنیں گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے مردوں کو اشارہ کرتی ہیں اور وہ انھیں تیزی سے دروازہ کھول کر بٹھا لیتے ہیں۔ پہلے یہ کاروبار پلوں کے نیچے ہوتا تھا، گلی کوچوں اور تاریک محلوں میں ہوتا تھا‘ چوری چھپے ویرانوں میں ہوتا تھا لیکن ان خانہ بدوش اور دیگر بھکارنوں کی وجہ سے اب سگنل اور چوراہوں پر بہت کچھ کھلے عام ہونے لگا ہے کیونکہ یہاں انھیں پہچاننے والا کوئی نہیں۔

یہ اپنے کنبوں کو گائوں گوٹھوں میں چھوڑ کر بڑے شہروں میں ’’کمائی‘‘ کرنے آتی ہیں اور روزانہ جھولیاں بھر بھر کر راتوں کو گھروں میں لوٹتی ہیں اور جب اپنے گھروں کو ہر ماہ تگڑی رقم بھیجتی ہیں تو ان کے گھر والے بھی اسی طرح خوش ہوتے ہیں جیسے امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم رشتے داروں کے ڈالرز اور پائونڈز آنے پر ان کے گھرانے خوش ہوتے ہیں۔

یہ بھکاری عورتیں اپنے باقاعدہ دلال بھی رکھتی ہیں جو انھیں مطلوبہ جگہ پہنچا کر اپنا کمیشن وصول کرتے ہیں، پولیس کی سرپرستی میں دن دہاڑے یہ کام بڑی ڈھٹائی سے ہو رہا ہے۔ یہ بھکاری عورتیں زیادہ تر کار والوں کی منظور نظر ہوتی ہیں۔ دس فیصد موٹر سائیکل والے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کا باوردی اہلکار مخصوص مسکراہٹ سے OK کا اشارہ کر دیتا ہے۔

ان بھکاری عورتوں کے علاوہ چوراہوں اور ٹریفک سگنلز کے آس پاس ایک اور مخلوق بھی زرق برق لباس پہنے اور منہ پہ سرخی پائوڈر تھوپے بھیک مانگتی نظر آتی ہے، جنھیں عام طور پر لوگ ہیجڑے سمجھتے ہیں لیکن ان میں سے90 فیصد وہ بہروپیے ہیں جو شہر کے باہر سے آئے ہیں اور ایک طریقے سے انھوں نے شب خون مار کر اصل اور قابل رحم ہیجڑوں کی روزی ماری ہے۔ ورنہ جو اصل میں قدرت کی ستم ظریفی کا شکار ہیں وہ خاموشی سے گھروں سے نکلتے تھے اور جس نے جو دے دیا وہ لے کر دعائیں دیتے چلے جاتے تھے لیکن اب معاملہ بہت تشویشناک ہے۔ ان بہروپیوں نے اس قابل رحم مخلوق کو اخلاقی اور جسمانی بے راہ روی پر لگا دیا ہے کہ اس کام میں پیسہ بہت ہے۔

لوگ انھیں ملامت کرتے ہیں لیکن ان کار والوں، سرمایہ داروں، فیشن ڈیزائنروں، سیاست دانوں اور دیگر حضرات کو کچھ نہیں کہتے جو ان کی خدمات کا بھرپور معاوضہ دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں جس طرح بے راہ روی پھیل رہی ہے وہ بڑی تشویشناک ہے۔ پولیس سے توقع رکھنا فضول ہے کہ زیادہ تر جرائم کی سرپرستی خود پولیس کرتی ہے۔ یہ ذمے داری ہے گھر والوں کی، ماں باپ کی، بیوی کی، بھائی کی کہ وہ ذمے داری نبھائیں اور ان شرمناک تعلقات کی سنگینی کا احساس دلائیں۔ میڈیا اور ڈاکٹرز کے ذریعے بھی بیشتر جنسی امراض خصوصاً ایڈز کے متعلق معلومات دی جا سکتی ہیں کیونکہ خود بخود بھکاری عورتیں اپنا دھندا چھوڑیں گی، نہ ہی بناوٹی ہیجڑے باز آئیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔