شامی عوام راندۂ درگاہ ہیں

عینی نیازی  پير 29 فروری 2016

زمانہ جاہلیت کے وحشیانہ واقعات تو محض کتابوں اور داستانوں تک محدود تھے لیکن ابھی حال ہی میں شام سے ایک ویڈیو نے اس دور کی یاد پھر تازہ کردی جس میں ایک شامی باغی کو سرکاری فوج کے اہلکار کا دل چاک کرکے کھاتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس ہیبت ناک منظر کو دیکھنے کے بعد شام کی صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح شام بربادی و تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ داستان خونچکاں نے شامی شہریوں کو راندۂ درگاہ کردیا ہے۔ پناہ کی تلاش میں در در، ملکوں ملکوں بھٹک رہے ہیں۔ چند سال قبل ان دو کروڑ شامیوں نے کب یہ سوچا ہوگا کہ ان کی خواتین، بچے اور بوڑھے یوں پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے پھریں گے۔

لاکھوں افراد جان بچانے کے لیے قریبی ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں، بہت سے مغربی ممالک اپنی سرحدوں کو خاردار تار لگا کر بند کررہے ہیں، انھیں ڈر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں آنے والے پناہ گزین ان کی برسوں کی بنائی ہوئی ترقی و خوشحالی میں حصے دار بن جائیں گے، رہائش، روزگار، اسپتال اور اسکولوں میں ان کی آمد سے ان کے معیار زندگی میں یقینی تبدیلی آئے گی، جو زندگی کو بری طرح متاثر کرے گا۔ اس معاملے میں ہنگری اور جرمنی قابل ستائش ہیں جنھوں نے پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد کو کھول دیا ہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح جرمن شہریوں نے تالیاں بجا کر خیر مقدمی گیت کے ساتھ انھیں ویلکم کیا تھا۔

ملک شام ایک قدیم تہذیبی و ثقافتی مرکز ہے، جس کا موجودہ نام عوامی جمہوریہ السوریہ ہے، اس کی نوے فیصد آبادی مسلمان اور باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی زرخیزی کے باعث یہاں زرعی پیداوار بھی خوب ہوتی ہے، زیتون، تمباکو، جو، دالیں اور گندم میں خود کفیل ہے۔ 636ء میں مسلمان یہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ایک طویل عرصے تک اموی اور پھر عباسی حکمرانوں نے یہاں حکومت کی، انیسویں صدی میں یہ عثمانی سلطنت کے زیر نگوں رہا، لیکن 1918 میں فرانس اور برطانیہ کی مشترکہ حکومت نے قبضہ کرلیا، بعد میں فرانس نے پورے طور پر اس کا قبضہ سنبھال لیا، بس ایک نام نہاد کٹھ پتلی مقامی سربراہ برسر اقتدار تھا۔

شامی قوم اس غلامی سے بیزار تھے، اس دوران شام میں مزاحمتی کارروائیاں بھی ہوتی رہیں، ایک قابض اور محکوم ملک کے درمیان جو ناروا پالیساں اپنائی جاتی ہیں، شام بھی ان سب کا شکار رہا۔ اسی دوران جنگ عظیم شروع ہوئی، فرانس کی توجہ اس پر مبذول رہی، لیکن اس نے شام پر پابندیاں اور سختیاں بھی مزید تیز کردی تھیں، جس سے شامی باشندوں میں آزادی کی جدوجہد میں تیزی آئی۔ جنگ عظیم کے خاتمہ پر فرانس کی اقتصادی حالت سخت خراب تھی، اسے شام کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔

یوں شام کو 17 اپریل 1946 میں آزادی مل گئی، لیکن وہاں عرصہ تک فوجی حکومت اور بغاوتیں جاری رہیں۔ 23 فروی 1966 کو حافظ الاسد نے صدر امین حفیظ کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس سے قبل وہ تین سال تک وزیر دفاع رہے تھے۔ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد انھوں نے ریفرنڈم کے ذریعے عوامی رضامندی حاصل کی اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک کئی ریفرنڈم کروا کر ملک پر قابض رہے۔ مصر کے ساتھ مل کر اسرائیل کے خلاف جنگ کی، جس میں گولان کی پہاڑی کا کچھ حصہ آزاد کروایا۔

صدر حافظ ایک طویل عرصے تک بیمار رہنے کے بعد انتقال کرگئے اور اب ان کے بیٹے بشارالاسد اس وقت شام کے صدر ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ شام میں اس وقت موروثی حاکمیت قائم ہے۔ اسد حکومت کو اس وقت اپنے ملک میں خانہ جنگی اور مزاحمت کا سامنا ہے جس میں زیادہ تر ذمے دار اسد حکومت کی پالیسیاں ہیں، جس نے وہاں کے عوام کو ان سے متنفر کردیا، جس پر حکومت نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے فوج کے ساتھ مل کر مزید سختی سے کچلنے کی کوشش کی۔

2011 میں جب اسد حکومت کے خلاف شامی عوام نے علم بغاوت بلند کیا تھا تو تمام دنیا کے جمہوریت پسندوں نے اس کی حمایت کی۔ اس لیے کہ اسد حکومت کی مطلق العنانی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ فوج کے ہاتھوں عوام کو اذیتیں پہنچائی جارہی تھیں، جیلیں عوام سے بھرنے لگی تھیں، لیکن کچھ عرصے بعد اس لڑائی میں انتہاپسند گروہ نظر آنے لگے، جو اسد حکومت کے خاتمے اور اپنی حاکمیت کے خواب دیکھ رہے تھے۔

یہ انتہاپسند جماعتیں اپنی نظریے اور سلوک سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی صف میں شامل ہیں، ان میں داعش کے نام سے کون واقف نہیں، جس کے رہنما ابوبکر بغدادی نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے کر سب سے بیعت کا حکم دیا۔ حزب اللہ کی امن ملیشیا بھی اس جنگ میں پیش پیش ہے۔ اس وقت شام کی سرزمین بمباری و تباہی کا منظر پیش کررہی ہے۔ عالم اسلام میں اس پر اتنی تشویش دکھائی نہیں دیتی جتنی دکھائی دی جانی چاہیے۔ عرب ممالک پرامن تصفیہ کروانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی اسد حکومت کو قبول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایسی کوئی تجویز نہیں جس سے ریاست کو متحد کیا جاسکے۔ ترکی اپنی سرحد کے قریب اسد حکومت کو برداشت نہیں کرنا چاہتا، تو سعودی عرب بھی ترکی کا حامی ہے۔ سعودی اور ترک، اسد حکومت کو مٹانے پر سارا زور لگا رہے ہیں، تو روس اور ایران اسد کا ساتھ دے رہے ہیں، ان عرب ممالک کا ساتھ دینے کو برطانیہ، امریکا اور روس بھی پیش پیش ہے، شام پر اپنے مفادات کے لیے فضائی بمباری بھی جاری ہے۔ یہ ممالک اپنے حملے کے الگ الگ جواز پیش کررہے ہیں۔

چند دہائی قبل کی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں مسلم ممالک میں خانہ جنگی شروع ہوئی، وہاں اب تک پھر کبھی امن وامان نہ ہوسکا، خواہ وہ عراق میں صدر صدام حسین کی حکومت ہو، مصر کے حسنی مبارک یا پھر لیبیا کے معمر قذافی ہوں، ملک اجڑنے کے بعد ایک مستحکم حکومت قائم نہیں ہوسکی ہے۔ اس تمام جنگ میں داعش کی سفاکانہ کارروائیاں اور انٹرنیٹ پر دیکھی دل دہلانے والی ویڈیوز، جن میں وہ پکڑے جانے والے قیدیوں کے سر قلم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

لگتا ہے کہ آیندہ کئی برسوں تک شام کی سرزمین اسی طرح خون سے سرخ رہے گی، حریف و حلیف ممالک دور سے اس بازی کو جیتنے کی کوشش کرتے رہیں گے، سود و زیاں کے اس کھیل میں سب سے زیادہ گھاٹا ان بے بس و بے گناہ شامی عوام کا ہے جو نہ اپنے وطن میں رہ سکتے ہیں نہ انھیں کہیں اور جائے پناہ نصیب ہے۔ ایک جانب خاردار کانٹوں کے بارڈر ہیں، تو دوسری طرف اسد فوج اور داعش جیسی دہشت گرد اور شدت پسند جماعت کی خوفناک طرز حکمرانی کا خطرہ ہے۔ جو ابھی محض مسند خلافت کی آرزو کے بزور اپنی ویڈیوز سے دنیا کو دہلائے دے رہا ہے۔ کیا طاقت و مفادات کے اس کھیل میں دنیا کو پھر زمانہ جاہلیت میں پہنچا دیا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔