ورلڈ کپ میں کیا ہوگا کالیا؟

فرید رزاقی  جمعرات 3 مارچ 2016
دنیا کی کوئی ایک ٹیم کی مثال لے آئیں جو پرفارمنس کے بغیر بھی اپنا کپتان برقرار رکھے، یہ اعزاز صرف ہمیں حاصل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

دنیا کی کوئی ایک ٹیم کی مثال لے آئیں جو پرفارمنس کے بغیر بھی اپنا کپتان برقرار رکھے، یہ اعزاز صرف ہمیں حاصل ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی ٹیم کا کسی بڑے ٹورنامنٹ میں میچ ہو تو پھر کھیل صرف میدان میں نہیں کھیلا جاتا بلکہ ہر گلی، ہر گھر میں اِس اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کے گھر گھر میں محافل سجائی جاتی ہیں، دوستوں، رشتہ داروں کو دعوتیں دی جاتی ہیں، مارکیٹوں کو جلد تالے لگا دئیے جاتے ہیں، سڑکیں ویران ہوجاتی ہیں، بڑی بڑی اسکرینیں نصب کی جاتی ہیں، طرح طرح کے پکوان پکتے ہیں، میدان سے زیادہ جذبہ میدان سے باہر دکھائی دیتا ہے لیکن ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب قوم کو اپنی ٹیم سے بہت زیادہ اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں اُس وقت اُن کو ہمیشہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کا میرے سوال کا کیا جواب ہے لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ بار بار مسلسل ہزیمت کی وجہ غیر معیاری کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کا انتخاب ہے۔ یہ غلطی کوئی نئی نہیں، بلکہ غلطیوں پرغلطیاں کی گئیں لیکن مجال ہے کہ کبھی اُن غلطیوں سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی گئی ہو۔ ماضی کو کوسنے کے بجائے موجودہ ایشیا$ کپ میں پاکستان کے شاہینوں کی کارکردگی پر ہی ماتم کرلیا جائے تو بہت ہوگا، لیکن ہمیں قوی یقین ہے کہ نہ تو سلیکشن کمیٹی اس ہار سے کچھ سیکھے گی، نہ بورڈ کو کوئی فکر اور نہ ہی کوچ کو اپنی نوکری کی کچھ پرواہ ہے۔ ٹیم تو ویسے بھی احساس ذمہ داری سے عاری معلوم ہوتی ہے، بس فقط سیکھنا ہے تو مجھے اور آپ کو ہے جو اتنی امیدیں وابستہ کرکے ہر بار اس چلے ہوئے کارتوس پر بھروسہ کرکے جنگ جیتنے کی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔

ایشیاء کپ کا آغاز ہوا تو پاکستان کا سامنا روایتی حریف بھارت سے ہوا، قوم ایک طویل عرصے کے بعد بھارت سے پنجہ آزمائی کیلئے پُرجوش دکھائی دی، لیکن شاہینوں کے اُڑان بھرنے سے قبل ہی پر کاٹ دیئے گئے۔ ایسی شرمناک شکست کہ جس نے ہماری کرکٹ کی چولیں ہلا دیں لیکن کپتان کو کوئی شرمندگی نہیں اور نہ ہی ٹیم کو شرمندگی کا کوئی احساس ہوا۔ بس شرم سے پانی پانی ہونا تو قوم کے نصیب میں ٹھہرا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ چونکہ اس ٹورنامنٹ میں پہلا میچ تھا اس لیے پچ کو سمجھ نہیں پائے۔ ہمارے کھلاڑی کس قدر معصوم اور بھولے بچیں ہیں اور ظلم تو یہ کہ انہیں بِنا کسی ٹریننگ اور پریکٹس کے میدان میں لا کھڑا کیا گیا۔

بھارت کے ہاتھوں تذلیل کا غم لئے متحدہ عرب امارات کی ٹیم کے سامنے گرتے گرتے سنبھلی تو قوم کو لگا کہ ٹیم کم بیک کرچکی ہے۔ اب اگلا ہی مقابلے میں بنگلہ دیش سامنے تھے۔ شائقین کرکٹ کے نزدیک تو پاکستان یہ میچ باآسانی جیت ہی جائے گا، لیکن جو نتیجہ آیا وہ حیران کن تھا۔ یاد رہے کہ صرف دو سال پہلے تک بنگلہ دیش اور پاکستانی ٹیم کا کوئی مقابلہ نہیں تھا، لیکن گزشتہ برس پہلے ہم ایک روزہ کرکٹ میں ہمیں تین صفر سے کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا اور پھر کل اہم ترین مقابلے میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یعنی اِن دو سال میں بنگلہ دیش جتنی تیزی سے اوپر گئی، ہم اتنی ہی تیزی سے تنزلی کا شکار ہوئے، پھر المیہ یہ کہ جب شاہد آفریدی سے کارکردگی سے متعلق کچھ پوچھا جائے تو وہ سوال کو ’گھٹیا سوال‘ قرار دے دیتے ہیں۔

آئی سی سی کی رینکنگ میں بدستور ہماری تنزلی نے بھی مینجمنٹ کی آنکھیں نہیں کھولیں بلکہ کسی معجزے کے منتظر رہے۔ احمقوں کی دنیا میں بسنے والے حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ مسلسل شکست کے باوجود سلیکشن کو سفارش اور پرچی کی نظر کیا جاتا رہا۔ خرم منظور کی منظوری دینے والا کون تھا؟ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ایسے مایہ ناز کھلاڑی کو جوہر دکھانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ بیک اپ میں وہ کھلاڑی کیوں ساتھ لے کر جائے گئے جن کی پرفارمنس اور فٹنس اک بہت بڑا سوال ہے؟ بھارت سے شکست کی بنیادی وجہ زیادہ ’’ڈاٹ‘‘ بالز کھیلنا تھا جس کو ڈھٹائی کے ساتھ دہرایا گیا۔

بنگلہ دیش کے خلاف 120 بالز کے میچ میں جو ٹیم 60 بالز بغیر کسی رنز کے کھیلے گئے، اب ایسی صورت میں کسی ٹیم کی جیت کی اُمید رکھنا احمقوں کی سوچ ہی ہوسکتی ہے۔ سابق کپتان مصباح الحق کو ٹُک ٹُک کا طعنہ دینے والوں کو چپ کیوں لگ گئی؟ پاکستانی ٹاپ آرڈر میں کوئی بھی ایسا کھلاڑی نہیں جسے کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کا حصہ بنانے پر کوئی بھی ملک رضامند ہوگا، لیکن سفید ہاتھی پالنے کا یہ اعزاز پاکستان کو ہی حاصل ہے۔ قوم کا پیسہ ان پر پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، مہنگی مراعات، کوچنگ اسٹاف، پیسے کی ریل پیل کیا اس لئے ہے کہ پے در پے ناکامیوں کا تحفہ دیا جائے؟ ہمیں ہارنے سے اب عشق ہوچکا ہے۔ مجموعی طور پر کرپشن پوری قوم میں اتنی سرایت کرچکی ہے کہ کوئی ادارہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔

رشوت اور کمیشن مافیا نے کرکٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، لیکن ہم کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ ہر ٹیم کا سپہ سالار مثالی ہوتا ہے لیکن ہمارے شہرہِ آفاق کپتان شاہد خان آفریدی کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے۔ ہماری قوم میں شخصیت پرستی کا یہ عالم ہے کہ وہ سیاست دان ہوں یا کھلاڑی انہیں رول ماڈل بنا کر رکھتے ہیں۔ دنیا کی کوئی ایک ٹیم کی مثال لے آئیں جو پرفارمنس کے بغیر بھی اپنا کپتان برقرار رکھے، یہ اعزاز صرف ہمیں حاصل ہے کیونکہ بڑے نام ہمیں مرعوب رکھتے ہیں اور ہم پر حکومت کرتے ہیں، جبکہ دنیا بڑے ناموں سے بڑی پرفارمنس کی ڈیمانڈ کرتی ہے کیونکہ انہیں رول ماڈل بننا ہوتا ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں پرفارمنس ان کے بس کی بات نہیں رہی تو عزت کی راہ اپناتے ہوئے نوجوانوں کو موقع دیتے ہیں۔

جب کارکردگی پر سوال کیا جاتا ہے تو بدتمیزی اور گھٹیا پن کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ بورڈ ان بڑے ناموں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور ان کی روزی روٹی ان بڑے ناموں سے وابستہ ہے۔ اس میں سب اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور کھیل کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ اس کا ذمہ دار میں پاکستان کی قوم کو سمجھتا ہوں کیونکہ عوامی دباؤ بنیادی کردار ادا کرتا ہے جو کارکردگی پر مجبور کرتا ہے، لیکن قوم نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ میں اشتعال انگیزی کی حمایت نہیں کرتا لیکن بھارت کی ٹیم بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان سے ہار کی صورت میں انہیں بھرپور عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا، اسی لئے وہ سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے کاغذی شیر چونکہ جانتے ہیں کہ ’’تم جیتو یا ہارو سنو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘ کی صدا گونجے گی اس لئے ڈھٹائی کے ساتھ ہارجاتے ہیں۔

ہمیں اب اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا، مداح ضرور بنیں مگر پہلے پاکستانی بننا ہوگا۔ پی ایس ایل کے نام سے اتنا بڑا ٹیلنٹ ہنٹ ٹورنامنٹ کرنے کے باوجود ان چلے ہوئے کارتوسوں کو کرکٹ کے محاذ پر بھیجنا خود کشی کے مترادف ہے۔

آخر میں ایک اور بات کرنے دیجیے، کہ ایشیاء کپ میں جو ذلت ہونی تھی ہوگئی، لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کیا ہوگا، جہاں راونڈ میچوں میں ہی قومی ٹیم کا مقابلہ روائتی حریف بھارت کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لیںڈ جیسی خطرناک ٹیموں سے ہوگا۔ یہاں ہم بنگلہ دیش کو قابو نہیں کرسکے، وہاں نجانے کیا ہوگا۔ زیادہ تکلیف سے بچنے کے لیے مشورہ تو یہی ہے کہ ہر میچ میں شکست کو یقینی سمجھ لیں، پھر ایسے ماحول میں فتح بھی آپ کے چہروں پر خوشی لے آئے گی۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پے درپے پے شکستوں کے بعد ٹیم میں تبدیلیاں ہونی چاہیے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
فرید رزاق

فرید رزاقی

ایم ایس سی جامعہ پنجاب سے کر چکے ہیں۔ ماہنامہ پیغام ڈائجسٹ لاہور کے چیف ایڈیٹر اورآفاق انسائیکلو پیڈیاکی مجلس ادارت سے بھی منسلک ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کے ممبرشپ کوآرڈینیٹر۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @FaridRazaqi پر رابطہ کرسکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔