صوبائی حکومتوں پر ٹیکس اہم عدالتی فیصلہ
عدلیہ کی اس تصریح و تشریح سے ماہرین قانون کو گنجینہ معنی کا ایک جہاں مل گیا ہے
صوبائی حکومتوں کی داخلی اہمیت و خود اختیاری تو عدالت کا یہ قرار دینا کافی ہے فوٹو: فائل
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلہ سنایا کہ پارلیمنٹ صوبائی حکومتوں کی پراپرٹی اور آمدنی پر ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ جمعے کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے محکمہ زراعت پنجاب کی پیچنگ پتھروں کی فروخت پر وفاقی محکمہ ایکسائز و سیلز ٹیکس کی جانب سے سیلز ٹیکس کے خلاف 10 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد بلاشبہ آئینی و قانونی امور کے تناظر میں وفاق و صوبوں کے مابین محصولات یا دیگر مالیاتی معاملات کے حوالہ سے تعلقات کار اور فکری ہم آہنگی و یکجہتی کا افق قدرے نئے کینوس کے ساتھ نظر آ رہا ہے، اس ضمن میں امید کی جا سکتی ہے کہ وفاق کا صوبوں کو ہر ممکن مالی مدد دینے سے لے کر ان کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور صحت وغیرہ کے شعبوں میں رہنمائی و مالی معاونت کے مزید امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
اس حوالہ سے عدالت عظمیٰ کا مذکورہ فیصلہ ایک سنگ میل نوعیت کا ہے، قبل ازیں 2008ء میں لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کی ٹیکس کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جہاں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خالد عباسی نے پنجاب حکومت کی طرف سے دلائل دیے۔ اگر کیس کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ صائب ہونے کے ساتھ حکومت پنجاب کے قانونی موقف کی ہمہ گیریت کو بھی ظاہر کرتا ہے یعنی دیگر صوبوں کے استحقاق کی جھلک بھی اس سے منعکس ہوتی ہے۔
فاضل عدالت کے فیصلے کے مطابق آئین کا آرٹیکل 165(1) واضح کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسا کوئی اختیار نہیں، صوبائی حکومتیں اپنی آمدنی اور اثاثوں کے حوالے سے وفاق کو ٹیکس دینے کی پابند نہیں، جیسا کہ موجودہ کیس میں سیلز ٹیکس ایکٹ پیش نظر تھا۔ عدلیہ کی اس تصریح و تشریح سے ماہرین قانون کو گنجینہ معنی کا ایک جہاں مل گیا ہے۔
جس میں وفاق کی اکائی ہوتے ہوئے صوبوں کو اپنے وسائل و اثاثوں میں ترقی اور خود مختاری کا احساس ملے گا، خدا کرے اس فیصلہ سے وفاقیت کے منظر نامہ کو نئی تقویت ملے جب کہ ملکی استحکام و یکجہتی کو یقینی بنانے اور وفاق و صوبائی اکائیوں میں اشتراک عمل، مالی امور میں شفافیت، ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات میں توازن اور کفایت شعاری اور دیگر تصرفات کے علاوہ قانون سازی کے لیے صوبائی حکومتوں کو سپیس مل جائے تا کہ ہر صوبہ اپنے نئے وسائل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق سے جڑے ہوئے رشتہ کے استحکام اور ملکی ترقی و خوشحالی کے سفر میں ہم دوش و ہمرکاب ہوں۔
باقی رہی صوبائی حکومتوں کی داخلی اہمیت و خود اختیاری تو عدالت کا یہ قرار دینا کافی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت صوبوں کو اپنے معاملات کے لیے قانون سازی کا اختیار ہے۔
اٹھارویں ترمیم کے بعد بلاشبہ آئینی و قانونی امور کے تناظر میں وفاق و صوبوں کے مابین محصولات یا دیگر مالیاتی معاملات کے حوالہ سے تعلقات کار اور فکری ہم آہنگی و یکجہتی کا افق قدرے نئے کینوس کے ساتھ نظر آ رہا ہے، اس ضمن میں امید کی جا سکتی ہے کہ وفاق کا صوبوں کو ہر ممکن مالی مدد دینے سے لے کر ان کی سیاسی، سماجی، تعلیمی اور صحت وغیرہ کے شعبوں میں رہنمائی و مالی معاونت کے مزید امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔
اس حوالہ سے عدالت عظمیٰ کا مذکورہ فیصلہ ایک سنگ میل نوعیت کا ہے، قبل ازیں 2008ء میں لاہور ہائی کورٹ نے حکومت پنجاب کی ٹیکس کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جہاں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خالد عباسی نے پنجاب حکومت کی طرف سے دلائل دیے۔ اگر کیس کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ صائب ہونے کے ساتھ حکومت پنجاب کے قانونی موقف کی ہمہ گیریت کو بھی ظاہر کرتا ہے یعنی دیگر صوبوں کے استحقاق کی جھلک بھی اس سے منعکس ہوتی ہے۔
فاضل عدالت کے فیصلے کے مطابق آئین کا آرٹیکل 165(1) واضح کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسا کوئی اختیار نہیں، صوبائی حکومتیں اپنی آمدنی اور اثاثوں کے حوالے سے وفاق کو ٹیکس دینے کی پابند نہیں، جیسا کہ موجودہ کیس میں سیلز ٹیکس ایکٹ پیش نظر تھا۔ عدلیہ کی اس تصریح و تشریح سے ماہرین قانون کو گنجینہ معنی کا ایک جہاں مل گیا ہے۔
جس میں وفاق کی اکائی ہوتے ہوئے صوبوں کو اپنے وسائل و اثاثوں میں ترقی اور خود مختاری کا احساس ملے گا، خدا کرے اس فیصلہ سے وفاقیت کے منظر نامہ کو نئی تقویت ملے جب کہ ملکی استحکام و یکجہتی کو یقینی بنانے اور وفاق و صوبائی اکائیوں میں اشتراک عمل، مالی امور میں شفافیت، ترقیاتی و غیر ترقیاتی اخراجات میں توازن اور کفایت شعاری اور دیگر تصرفات کے علاوہ قانون سازی کے لیے صوبائی حکومتوں کو سپیس مل جائے تا کہ ہر صوبہ اپنے نئے وسائل تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق سے جڑے ہوئے رشتہ کے استحکام اور ملکی ترقی و خوشحالی کے سفر میں ہم دوش و ہمرکاب ہوں۔
باقی رہی صوبائی حکومتوں کی داخلی اہمیت و خود اختیاری تو عدالت کا یہ قرار دینا کافی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت صوبوں کو اپنے معاملات کے لیے قانون سازی کا اختیار ہے۔