- اوآئی سی ممالک غزہ میں جنگ بندی کیلئے مل کرکام کریں، وزیرخارجہ
- اوور بلنگ پر بجلی کمپنیوں کے افسران کو 3 سال کی سزا کا بل منظور
- نابالغ لڑکی سے جنسی زیادتی کی کوشش؛ 2 نوجوان مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل
- ٹی20 ورلڈکپ جیتنے پر ہر کھلاڑی کو کتنا انعام ملے گا؟ محسن نقوی نے اعلان کردیا
- مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی گاڑی کھائی میں گرگئی؛ ہلاکتیں
- ویمنز ٹی20 ورلڈکپ؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- ایمل ولی خان اے این پی کے مرکزی صدر منتخب
- جس وزیراعلی کو اسلام آباد چڑھائی کا شوق ہے، اپنے لیڈر کا حشر دیکھے، شرجیل میمن
- پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے چیف ٹیکنیکل آفیسر عالمی اعزاز کیلئے منتخب
- گورنر پنجاب کی تقریب حلف برداری ملتوی
- نائلہ کیانی نے ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- اسپتال کے واش روم میں کیمرہ نصب کرنے والا ملزم گرفتار
- خود کش بمبار کو نشے کے انجکشن لگائے گئے، اہل خانہ
- بڑے کھلاڑیوں کو کیسے پی ایس ایل کھلایا جائے! پی سی بی نے منصوبہ بنالیا
- جنگ بندی معاہدہ؛ امریکا رفح پر اسرائیلی حملہ نہ ہونے کی ضمانت دے، حماس
- کینیڈا میں قانون کی بالادستی ہے، ٹروڈو کا بھارتیوں کی گرفتاری پر ردعمل
- ہولڈنگ کمپنی کیلیے پی آئی اے کے 100 فیصد شیئر ہولڈنگ اسکیم کی منظوری
- چند دنوں میں پاک چین اعلیٰ سطح کے رابطے متوقع
- گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقات، سابق نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر طلب
- احمد شہزاد کا پلیئرز پر سلیکشن کیلئے سوشل میڈیا مہم چلانے کا الزام
انسانوں اور مچھلیوں کا تعلق
ہمارے معاشرے میں مچھلی مارکیٹ اپنے شور و غل اور بدبو کی وجہ سے ہمیشہ سے مشہور رہی ہے۔ جب بھی کلاس میں شور زیادہ ہوتا تو استاد یہی کہتے تھے کہ یہ کیا مچھلی مارکیٹ لگائی ہوئی ہے۔ مچھلی مارکیٹ کی اس تکرار اور استعارے نے عبداللہ کو مجبور کردیا کہ وہ جا کر دیکھ کر آئے کہ مچھلی منڈی ہوتی کیسی ہے؟ وہ اگلے ہی روز صبح صبح شہر کی سب سے بڑی ’مچھلی مارکیٹ‘ کے بیچ و بیچ کھڑا تھا۔ انواع و اقسام کی مچھلیاں، برف کی سلوں کے بیچ، بڑے اچھے طریقے سے سجائی گئی تھیں۔ زیادہ تر مردہ تھیں تو معدودے چند پھڑک پھڑک کر اپنی جان ہار رہی تھیں اور اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے گاہکوں کی توجہ کا باعث بنی ہوئی تھیں۔
عبداللہ سوچنے لگا کہ کیا عجیب بات ہے، یہی مچھلیاں جب زندہ ہوتی ہیں تو ایک دوسرے کو کھا جاتی ہیں۔ اب مردہ ہیں تو سارے غم و شکوے بھلا کر کھلی آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ پڑی ہیں۔ جب زندہ ہوتی ہیں تو دریا و سمندر کے پانی کو اپنا اصل گھر سمجھتی ہیں، پودوں اور زیرِآب غاروں اور پتھروں کو اپنی دنیا، مگر انہیں اِن کی معلوم دنیا سے باہر نکال کر بنا سنوار کر کسی اور دنیا میں بیچا جا رہا ہے۔
انسان اور مچھلیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ یہ بھی زندہ ہوں تو دوسروں کو مارنے پر تلے رہتے ہیں اور مرجائیں تو سارے گورے، کالے، لمبے، چھوٹے، دبلے، موٹے، شیخ و سید، آرائیں و پٹھان، سندھی و مہاجر، پشتون و سرائیکی ایک دوسرے کے برابر قبر میں لیٹے ہوتے ہیں۔ پھر مارکیٹ سجے گی، پھر بولی لگے گی، کچھ کو جنت کے فرشتے لے جائیں گے تو کچھ کو جہنم کے، اور کبھی کبھار تو یہ انسان جیتے جی مرجاتے ہیں۔ اپنے سینوں پر ڈگریوں اور تعلیم کے میڈلز سجائے بازار میں بکنے آجاتے ہیں اور جو زیادہ بولی دے اس کے ہوجاتے ہیں۔ یہ سوچے بنا کہ اصل مارکیٹ تو کچھ اور ہے۔ عبداللہ کو اپنے من کا شور، مچھلی مارکیٹ سے زیادہ محسوس ہوا اور وہ خاموش مچھلی مارکیٹ سے اپنے کانوں میں انگلیاں دبائے بھاگتا ہوا گھر آگیا۔
آج بھی اُسے جب کوئی مچھلی مارکیٹ نظر آتی ہے ایک جھرجھری سی جسم میں سرایت کرجاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔