فتح ہو کامیابی یا پھر جیت، یہ سب انسانی سوچ کی محتاج ہیں!

ذیشان الحسن عثمانی  جمعرات 17 مارچ 2016
 آپ تھوڑے سے کامیاب ہو جائیں تو دشمن آپ کو خیرات میں خودبخود مل جاتے ہیں۔

آپ تھوڑے سے کامیاب ہو جائیں تو دشمن آپ کو خیرات میں خودبخود مل جاتے ہیں۔

منوچر جاویدی سےعبداللہ کی نئی نئی دوستی ہوئی تھی۔ عبداللہ کو اُس میں ہمیشہ ایک گھاگ بزنس مین نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ جس کاروبار میں ہاتھ ڈالتا ہے مٹی سونا بن جاتی ہے۔ عبداللہ حیران ہوتا کہ خدا کچھ لوگوں پر دنیا کس قدر کھول دیتا ہے۔ انہیں کوئی غم نہیں ہوتا، کامیابیاں ہر وقت قدم چومتی ہیں، جو چاہے کریں، جیسا چاہے کریں مگر شاید یہ ٹھیک نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ جس زندگی میں کوئی غم نہ ہو کیا وہ بھی کوئی زندگی ہے؟

یہ غم بندے کو اللہ سے ملا دیتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو بندہ سمجھتا ہے کہ اسے اللہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بےوقوف اور بدعقل ہی ایسا سوچ سکتا ہے، عقلمند آدمی کو تو اللہ کی ضرووت ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ پیدائش سے پہلے بھی، زندگی بھر اور مرنے کے بعد بھی۔ عبداللہ کو ہنستی مسکراتی ولولہ انگیز آنکھوں میں خدا کم کم ہی نظر آیا تھا۔ اُسے ہمیشہ سے روتی، آنسو بہاتی، سوال پوچھتی آنکھیں پسند تھیں۔ عبداللہ نے سوچا کوئی تو ایسا ہنر، ایسا ٹوٹکا ہوگا اِس شخص کے پاس کہ چلو دنیا ہی سہی، حاصل تو ہوئی۔

عبداللہ نے آج ملاقات پر پوچھ ہی لیا۔

منوچر، کاروبار کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

عبداللہ جب میں لڑکپن میں تھا تو میرے والد صاحب نے مجھے کاروبار کرنے کا کہا اور بتایا کہ 3 چیزوں کا خیال رکھو، کبھی ناکام نہیں ہوگے۔

  • ہمیشہ کمپنی میں ایک بہترین وکیل کی خدمات حاصل کرو۔
  • ایک بہترین اکاوئنٹگ فرم کی خدمات حاصل کرو۔

ان دو کاموں کو کرنے سے کسی بھی قسم کی مالی بےضابطگی کا خدشہ ختم ہوجاتا ہے، اور قانونی پیچیدگیوں سے بھی چھٹکارا مل جاتا ہے۔ مزید دنیا میں کام کرنے کے لئے دنیاوی اصول و ضوابط کا معلوم ہونا چاہیئے، اور تیسرا کام جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ،

  • ترقی کی اِنتہا آسمانوں کی بلندی ہے، جس کی کوئی حدود نہیں مگر اِن بلندیوں پر چڑھنے کا زینہ برداشت اور صبر ہے۔

یاد رکھنا! اگر یہ آخری مرحلہ چُھٹ جائے تو باقی دونوں بھی کام کے نہیں رہیں گے۔

عبداللہ نے دوسرا سوال پوچھا، اچھا یہ بتائیے آپ نے اس 60 سال کی عمر میں چوتھا کون سا اُصول سیکھا؟

منوچر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

گفتگو کرنا، بات چیت کرنے کا ہنر

محبت سے لے کر رشتوں تک، سواری سے لے کر گھر اور کاروبار سے لے کر مالی لین دین تک۔ آپ ایک بار گفتگو کرنا سیکھ جائیں۔ کیسے مدمقابل کو غصّہ دلانا ہے، کیسے اس پر حاوی ہوکر اپنی بات منوانی ہے، ڈنڈے اور گاجر کا کھیل کیسے کھیلنا ہے تو دنیا آپ کی ہوئی۔

اچھا، پھر تو آپ کے بہت سے دشمن بن گئے ہوں گے؟ عبداللہ نے پہلو بدلا۔

نہیں عبداللہ، دشمن بنانے کے لئے لڑنا ضروری تھوڑا ہی ہوتا ہے، بس آپ تھوڑے سے کامیاب ہوجائیں وہ آپ کو خیرات میں خودبخود مل جاتے ہیں۔

عبداللہ نے دل میں سوچا کہ اگر قدرت نے اچھا بولنے، لوگوں کے جذبات سے کھیلنے، ان پر حاوی ہونے کا منکہ دے ہی دیا ہے تو اِس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اپنی عقل کے بل بوتے پر سب سے فائدہ اٹھانا شروع کردیں۔ آدمی کو اپنی عقل، زبان، رتبہ اور تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو لاوارث نہیں سمجھنا چاہئیے۔ لاوارث تو وہ ہوتا ہے جس کا کوئی ربّ نہ ہو۔ بندہ اللہ سے بھاؤ تاؤ نہیں کرتا، یہ اِس نسبت کو زیب نہیں دیتا۔

نہیں منوچر، کوئی اور بات ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس سے آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ترقی و کامیابی نصیب ہوئی ہے مگر اصل بات کوئی اور ہے۔ ذہن پر زور دیں کوئی ایسا واقعہ جو آپ کے ذہن میں نقش رہ گیا ہو، کوئی ایسی بات جو بزنس ڈیل کرتے ہوئے آپ کو بار بار یاد آتی ہو؟

منوچر کی آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوب گئیں۔ ہاں عبداللہ، ایک واقعہ تو ہے۔

مجھے بچپن میں کراٹے سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ بلیک بیلٹ کے فائنل مقابلے کے لئے ساؤتھ کوریا گیا۔ فائٹنگ رنگ میں مدّ مقابل کو ناک آؤٹ کرنا جیت کا ضامن تھا۔ رنگ میں جانے سے پہلے میرے استاد نے کہا، آخری پنچ مار دینے والا فاتح کہلاتا ہے، مگر یہ جانتے ہوئے کہ یہ آخری مُکا حریف کو شکست کے پار چھوڑ دے گا۔ پھر بھی آدمی رک جائے اور واپس آجائے اِس یقین کے ساتھ کہ میں جب چاہوں جیت سکتا ہوں۔ یہ یقین، یہ اعتماد آدمی کو مقدر کا سکندر بنا دیتا ہے۔

کسی شے کے خاص ہونے کے لئے صرف اتنا ضروری ہے کہ اُسے خاص سمجھا جائے، پھر عبداللہ یہی ہوا کہ میں نے آخری مُکا نہیں مارا۔ جیت میری ہی ہوئی اور آج تک میں ہر ڈیل میں اِس یقین کے ساتھ جاتا ہوں کہ میں فاتح ہوں۔

کسی چیز سے رک جانے کی قوت، کسی چیز کو کر بیٹھنے کی قوت سے ہزار گنا زیادہ ہے۔ میں نے جیت کو اِس قوت کے ساتھ نتھی کردیا ہے۔ عبداللہ نے روتی آنکھوں کے ساتھ منوچر کا شکریہ ادا کیا۔ اُسے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا۔

رات جائے نماز پر وہ اپنے ربّ سے رُک جانے کی قوت مانگ رہا تھا۔

کامیابی کے حوالے سے بیان کیے گئے نکات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔