دہشتگردی کے خلاف جنگ مزید اقدامات کی ضرورت

ملک کی سیاسی وعسکری قیادت کادہشت گردی کوجڑسےاکھاڑ پھینکنےکاعزم ظاہرکرتا ہےکہ ملک کی سیاسی اورعسکری قیادت ایک پیج پر ہے

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ابھی تک دہشت گردوں کی سرگرمیاں موجود ہیں‘ پاک فوج وہاں کارروائیاں کر رہی ہے۔ فوٹو؛فائل

FAISALABAD:
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں گزشتہ روز اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا، اس اجلاس میں وزیراعظم کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی نے شرکت کی۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں ملک میں جاری عسکری آپریشن میں پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں سیاسی و عسکری قیادت نے ایک بار پھر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا اور کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی، ملک کو ہر حال میں امن کا گہوارہ بنائیں گے۔

وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں، آپریشن سے دہشت گردوں کا انفرااسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے جب کہ نیٹ ورک ٹوٹ چکے ہیں، ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو ختم کریں گے، دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر صورت منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ کراچی آپریشن سے عوام خوش ہیں اور خوف کی فضاء ختم ہو چکی ہے، کراچی کی روشنیاں بحال ہو رہی ہیں۔

بلاشبہ حالیہ دو برسوں میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کامیاب کارروائیاں ہوئی ہیں، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے نتیجے میں ملک بھر میں اطمینان محسوس کیا جا رہا ہے، کراچی میں بھی صورت حال خاصی بہتر ہے اور وہاں کاروباری سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے، اس تناظر میں ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کا دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کرتا ہے کہ ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے جو اچھی بات ہے ۔


جہاں تک دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، یہ حقیقت سب کے علم میں ہے کہ دہشت گرد اب بھی اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں، سانحہ اے پی ایس پشاور، سانحہ چار سدہ یونیورسٹی اور ابھی چند روز پہلے پشاور میں سرکاری ملازمین کی بس میں دھماکا اس امر کا ثبوت ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک ابھی تک کام کر رہا ہے اور ان کے معاونین بھی معاشرے اور سرکاری اداروں میں موجود ہیں۔

حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے چومکھی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ فوجی آپریشنز بھی جاری رکھے جائیں، پولیس بھی کارروائیاں کرے اور انٹیلی جنس ادارے بھی اپنا کام کرتے ر ہیں لیکن ان کا رخ سرکاری اداروں کی طرف بھی ہونا چاہیے۔ معاشرے کے تمام طبقات کی اسکریننگ اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب سرکاری عمال کے اپنے ذہن دہشت گردی کے حوالے سے واضح ہوں گے اور ان کی تربیت بہترین پیشہ ورانہ ہو گی، یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اب بھی بہت سے گروہ معاشرے میں نظریاتی کنفیوژن پھیلا رہے ہیں لیکن سرکاری مشینری ان پر گرفت کرنے کے قابل نہیں ہے۔

اس کا مطلب واضح ہے کہ پاکستان کی سرکاری مشینری میں کہیں نہ کہیں خرابی موجود ہے، اسی طرح ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی انتظامی معاملات میں تو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی بات کرتی ہے لیکن نظریاتی محاذ پر دہشت گردوں کو شکست دینے کے لیے کوئی انتظامات دیکھنے میں نہیں آ رہے، ملک کے تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام بد دلی سے کیا جا رہاہے۔

قوم اور قومیت کے نظریے کے حوالے سے ذہنی خلفشار موجود ہے، مسلم لیگ ن ہو، پیپلز پارٹی ہو یا تحریک انصاف یہ خود کو ماڈریت جماعتیں کہلاتی ہیں لیکن انتہا پسندی کے حوالے سے یہ جماعتیں اپنے کارکنوں کی تربیت نہیں کر رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں انتہا پسند گروہ ابھی طاقتور ہیں اور سرکاری مشینری ان پر گرفت نہیں کر رہی، دہشت گردی کے خلاف لڑائی کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ مائنڈ سیٹ گیم ہے، جب تک مائنڈ سیٹ میں تبدیلی نہیں آئے گی۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ بہر حال یہ امر اطمینان بخش ہے کہ جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے زیادہ سنجیدگی سے کوششیں کی گئی ہیں، کراچی میں امن کا قیام اس کا ثبوت ہے، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ابھی تک دہشت گردوں کی سرگرمیاں موجود ہیں، پاک فوج وہاں کارروائیاں کر رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ قبائلی علاقوں میں بندوبستی نظام قائم کیا جائے تا کہ وہاں پولیس کا نظام قائم ہو سکے، جب تک ایسا نہیں ہوتا، قبائلی علاقوں کو ترقی نہیں دی جا سکتی۔
Load Next Story