شامی مہاجرین پر یورپی یونین کا ترکی سے معاہدہ

خلیجی ممالک میں لاکھوں مربع میل کا صحرائی رقبہ بے آباد پڑا ہے جس کو پناہ گزین آباد کر کے گل و گلزار بنا سکتے ہیں


Editorial March 20, 2016
صدر اردوان کا کہنا تھا کہ یورپ ایسے گروہوں کی براہ راست یا بالواسطہ مدد کر کے جنھیں ترکی دہشتگرد سمجھتا ہے۔ فوٹو : فائل

شام کی پانچ سالہ خانہ جنگی کے نتیجے میں بے گھر ہو کر ملک بدر ہونے والے لاکھوں مہاجرین جو سمندر میں غرق ہونے یا سرحدی محافظوں کی فائرنگ سے بچ جاتے ہیں ترکی کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس سے یورپی ممالک میں بھی ایک بحران کی سی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ تازہ خبروں کے مطابق اس گمبھیر مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے یورپی یونین کے رہنما اور ترکی ایک معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔

برسلز میں ہونے والے اجلاس کے بعد یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے بتایا کہ ترکی اور 28 ممالک کے یورپی اتحاد کے درمیان معاہدہ اتفاق رائے سے طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ترکی ان تارکین وطن کو واپس اپنے ہاں بلا لے گا جو ترکی کے راستے یورپ میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اتوار اور پیر کی درمیانی رات کے بعد سے جو بھی تارکین وطن یونان پہنچیں گے ان کی یورپ میں پناہ کی درخواست کو انفرادی سطح پر دیکھا جائے گا اور جس پناہ گزین کی درخواست مسترد ہو گی، اسے ترکی واپس بھیج دیا جائے گا۔ نئے معاہدے کے بعد چار اپریل سے یونان سے تارکین وطن کی واپسی کا عمل شروع ہو جائے گا۔

اس سمجھوتے کی دستاویز میں یہ شق بھی شامل کی گئی ہے کہ یونان سے مہاجرین کی واپسی کے عمل میں اقوام متحدہ کا مہاجرین کا ادارہ بھی مدد کرے گا اور وہی ان تارکین وطن کی واپسی کی نگرانی بھی کرے گا البتہ اس پورے عمل پر اٹھنے والے تمام اخراجات یورپی یونین برداشت کریگی۔

یہ کس قدر دکھ بلکہ شرم کی بات ہے کہ شام کے باشندے انتہا درجہ کے ابتلا کے حالات سے گزر رہے ہیں لیکن انھیں مشرق وسطی کا کوئی بھی خلیجی ملک پناہ دینے پر تیار نہیں حالانکہ ان کا یہ رویہ نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے بلکہ انسانی اخلاقیات پر بھی پورا نہیں اترتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ خلیجی ممالک میں لاکھوں مربع میل کا صحرائی رقبہ بے آباد پڑا ہے جس کو پناہ گزین آباد کر کے گل و گلزار بنا سکتے ہیں۔

ترکی اور یورپی یونین میں معاہدہ ہونے سے قبل ترک صدر رجب طیب اردوان نے یورپی یونین پر تارکین وطن، انسانی حقوق اور دہشتگردی کے حوالے سے منافقت کا الزام لگایا تھا۔ یورپی یونین کی جانب سے اس مطالبے کے بعد کہ ترکی تارکین وطن کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے اپنے قوانین میں تبدیلی کرے، صدر اردوان کا کہنا تھا کہ یورپ ایسے گروہوں کی براہ راست یا بالواسطہ مدد کر کے جنھیں ترکی دہشتگرد سمجھتا ہے، دراصل خود ایک ایسے میدان میں رقص کر رہا ہے جو بارودی سرنگوں سے اٹا ہوا ہے۔

ترک صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''ایسی کوئی وجہ نہیں کہ جو بم انقرہ میں پھٹا وہ برسلز یا کسی دوسرے یورپی شہر میں نہیں پھٹ سکتا' لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپی ممالک غیر ذمے داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے میدان میں محو رقص ہیں جو بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے''۔ صدر اردوان نے مزید کہا ''وہ تمام (ممالک) جو بلاواسطہ یا بالواسطہ دہشتگرد تنظیموں سے گلے مل رہے ہیں اور ان کی مدد کر رہے ہیں، انھیں میں ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ لوگ ایک سانپ کے ساتھ سو رہے ہیں جو آپ کو بھی کاٹ سکتا ہے۔

مقبول خبریں