ایک کہانی عابدہ حسین کی زبانی (2)

زاہدہ حنا  اتوار 3 اپريل 2016
zahedahina@gmail.com

[email protected]

سیدہ عابدہ حسین کی خودنوشت سیاسی معاملات اور دلچسپ ذاتی واقعات کا مجموعہ ہے۔ اس خودنوشت کو شروع کریں تو اس کی ضخامت کے باوجود اسے ہاتھ سے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سوویت یونین کے سرکاری سفر کا احوال وہ ہمیں دلچسپ انداز میں سناتی ہیں۔

سوویت وزیراعظم الیکسی کوسیجن کی بیٹی گالینا کا کوئی ان سے تعارف نہیں کراتا اور وہ اسے سوویت سرکار سے فراہم کی جانے والی مترجم سمجھتی ہیں۔ لیکن جب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ ایک عام مترجم سمجھ رہی تھیں، وہ دراصل سوویت وزیراعظم کی بیٹی ہے۔ وہ اپنی شرمندگی کا اظہار کرتی ہیں جس پر گالینا انھیں ٹوک دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم جس قدر غیر رسمی انداز میں ملے وہ مجھے عرصہ دراز تک یاد رہے گا، میں برسوں سے اس قدر نہیں ہنسی تھی۔ پھر وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ جب پاکستانی وفد واپس آ رہا ہوتا ہے تو گالینا کی طرف سے انھیں ایک بہت بڑا اور حسین گلدستہ دیا جاتا ہے۔

پاکستان واپسی کے سفر کے دوران دو منجھے ہوئے سفارت کار رفیع رضا اور آغا شاہی انھیں بتاتے ہیں کہ وزیراعظم بھٹو ان سے ناراض ہیں۔ وہ حیرت سے اس ناراضگی کا سبب پوچھتی ہیں تو آغا شاہی کہتے ہیں ’میری پیاری بچی‘ کیا تم ابھی تک یہ نہیں سمجھیں کہ بھٹو خاندان کے افراد کے سوا اگر کسی اور کو خصوصی توجہ ملے تو وہ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ عابدہ حسین اس جملے کو سن کر افسردہ ہوتی ہیں اور اس کیفیت کو خودنوشت میں لکھ دیتی ہیں۔

وہ ہمیں یہ واقعہ بتاتی ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں جب میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو کوئٹہ میں ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں نواب اکبر بگٹی، نواب نصر اللہ اور کئی نامی گرامی شریک تھے۔ میٹنگ کے دوران انھوں نے سب سے معذرت کی کہ انھیں ایک بہت ضروری فون کرنا ہے، یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے۔ لوگ ان کا انتظار کرتے رہے، جب خاصی دیر ہو گئی تو بیگم عابدہ حسین کو ان کی تلاش میں بھیجا گیا۔ چندی بی بی نے جب انھیں ڈھونڈ لیا تو وہ کسی کو فون پر گانا سنا رہے تھے۔

اس سیاسی خودنوشت میں سیاست ہے اور اس کے ساتھ ہی سیاست دانوں سے متعلق اتنی دلچسپ باتیں ہیں کہ جنھیں پڑھتے ہوئے ہم بے اختیار ہنس دیتے ہیں اور کبھی رو پڑتے ہیں۔

وہ ذوالفقار علی بھٹو کو پسند کرتی تھیں لیکن جب انھوں نے 1973ء کا آئین بنانے والے خان عبدالولی خان، عطا اللہ خان مینگل، غوث بخش بزنجو کے خلاف غداری کا مقدمہ بنایا اور ان لوگوں پر آئین کی شق 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا تو وہ اس مقدمے کے بارے میں کھل کر اپنے تحفظات لکھتی ہیں۔ یہ وہی مقدمہ ہے جو ’حیدرآباد سازش کیس‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ انھوں نے امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کیسنجر کی پاکستان آمد اور بھٹو صاحب سے ان کی بحث کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہی وہ مرحلہ تھا جہاں سے بھٹو کے زوال کا آغاز ہوا۔

سردار اکبر بگٹی کا خونِ ناحق ایک ایسا سانحہ تھا جس کی بازگشت ہماری سیاسی فضا میں آج بھی موجود ہے۔ ان کی شہادت کی خبر ملتے ہی وہ کوئٹہ پہنچتی ہیں۔ زنان خانے میں بگٹی قبیلے کی عورتیں گریہ اور واویلا کر رہی ہیں جب کہ گھر کی خواتین خاموش بیٹھی ہیں اور اپنے پیارے کا سوگ ان کے چہروں پر تحریر ہے۔ ان میں سے ایک ایک عابدہ حسین کو گلے لگاتی ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کو پُرسہ دے رہی ہیں۔ اس موقع پر عابدہ لکھتی ہیں کہ ہمارے بخاری خاندان کی عورتیں بھی اپنے کسی بزرگ کا ماتم اسی طرح کرتی ہیں۔

انھوں نے زندگی کے کئی برس یورپ کی فضاؤں میں گزارے لیکن اپنے لوگوں سے اور اپنی مٹی سے جڑی ہوئی رہیں۔ وہ جس علاقے میں پیدا ہوئیں ، وہیں کے لوگوں کی انھوں نے سیاست میں نمایندگی کی۔ ان کا علاقہ جھنگ شیعہ اور سنی مسلک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کا مظہر رہا ہے۔ ان کے شہر میں جب سپاہ صحابہ کے رہنما مولانا حق نواز جھنگوی کا ان کے گھر کے دروازے پر قتل ہو جاتا ہے تو عابدہ حسین کو سنی شیعہ فسادات کا خوف ہے اور اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی کہ کہیں ایف آئی آر ان کے نام نہ کٹ جائے حالانکہ اس روز وہ جھنگ میں موجود نہیں تھیں۔ وہ مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور الٰہی بخش سومرو سے بات کرتی ہیں۔ مولانا سمیع الحق انھیں یقین دلاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔

ایسا نہیں ہوتا، لیکن جھنگ میں 80 بے گناہ قتل کر دیے جاتے ہیں، گھر لوٹ لیے جاتے ہیں، دکانیں جلا دی جاتی ہیں اور خاندانوں کی جھنگ سے نقل مکانی شروع ہو جاتی ہے۔ سنگین طور پر اس کشیدہ صورت حال میں ان کے ایک قریبی حامی اور ساتھی مرزا مختار انھیں فون پر مشورہ دیتے ہیں کہ بی بی آپ جھنگ جائیں، اپنے لوگوں کو اپنی موجودگی سے حوصلہ دیں اور مقامی انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ شہر اور نواحی علاقوں میں امن بحال کرنے کی کوشش کرے۔

عابدہ جب جھنگ کے لیے روانہ ہونے والی ہیں تو انھیں اطلاع ملتی ہے کہ مرزا مختار قتل کر دیے گئے۔ جھنگ پہنچنے کے بعد انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ صورت حال کس قدر خراب ہے۔ وہ مولانا جھنگوی کی بیوہ سے تعزیت کے لیے جانا چاہتی ہیں لیکن انھیں روک دیا جاتا ہے۔ وہ مولانا جھنگوی کے گھر فون کرتی ہیں اور جب ان کی بات بیوہ سے کرائی جاتی ہے تو وہ کہتی ہیں کہ میں آپ کے پاس پرسہ کرنے کے لیے آنا چاہتی ہوں، آپ کے بچے بہت چھوٹے ہیں اور اس عمر میں یتیمی سہنا بہت مشکل ہوتا ہے، اگر میں آپ کے لیے کچھ کر سکوں۔

دوسری طرف سے جواب ملتا ہے ’’مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، میرا بھائی اُسامہ بن لادن میری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ تم نے، اس کا نام تو ضرور سنا ہو گا۔ وہ بہت مشہور اور بہت امیر سعودی ہے۔‘‘

عابدہ حسین نے کبھی اُسامہ بن لادن کا نام نہیں سنا تھا۔ انھوں نے اس نام کے بارے میں تحقیقات کیں لیکن روئیداد خان، وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسران بھی اس نام سے آگاہ نہیں تھے۔ اس وقت عابدہ حسین سمیت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ نام پاکستانی سیاست میں کتنی اہمیت اختیار کرنے والا ہے۔

عابدہ حسین اپنی سیاسی زندگی میں سفیر امریکا ہوئیں۔ وزیر تعلیم، وزیر خوراک اور وزیر ماحولیات رہیں۔ اس دوران وہ اور ان کا ملک بڑے نشیب و فراز سے گزرا۔ وہ ہمیں ایف 16 کے سودے کا قصہ سناتی ہیں، جب اعلیٰ امریکی افسران نے انھیں مشورہ دیا کہ اگر وہ امریکیوں کی طرف سے پاکستانی وزیراعظم کو ایف 16 خرید نے کا مشورہ دیں تو بہت اچھا ہو گا۔ پھر ان سے کہا گیا کہ ان کی دو بیٹیاں ہارورڈ میں پڑھ رہی ہیں جہاں کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں ایک گھر خرید دیا جائے گا جسے اگر وہ کرائے پر دے دیں تو ان کی دونوں بیٹیوں کی فیس بہت آسانی سے ادا ہوتی رہے گی۔

بیگم عابدہ حسین نے اعلیٰ امریکی افسر کی یہ تجویز تحمل سے سنی اور اسے بتایا کہ بچیوں کی فیس ہمیں زیر بار نہیں کرتی کیونکہ ہمارا گھرانہ کفایت شعاری سے زندگی گزارتا ہے۔ ان کا یہ جملہ سن کر امریکی افسر نے کہا کہ اسے کسی ایسے پاکستانی سے مل کر خوشی ہوئی ہے جو اپنی حدود میں رہ کر خرچ کرتا ہے۔

ان کے یہاں جھجک نام کو نہیں۔ اسی لیے جب وہ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں کسی بات پر ان سے سخت اختلاف کرتی ہیں تو ایک فوجی افسر جھنجھلا کر کہتا ہے ’’خدا کی قسم اس عورت کو گولی مار دینی چاہیے‘‘۔

وہ بے نظیر بھٹو سے اپنی اس ملاقات کا بھی ذکر کرتی ہیں جس میں دونوں کے درمیان آصف زرداری کے حوالے سے باتیں ہوتی ہیں اور تمام رات گزر جاتی ہے۔ اس تذکرے میں ذاتی زندگی کے حوالے سے ایک آزردہ بے نظیر کی جھلک ہمیں نظر آتی ہے۔

کراچی میں 18 اکتوبر کو جب کارساز کے پاس بے نظیر بھٹو کے قافلے پر خودکش حملہ ہوا، اس وقت وہ بے نظیر کے ساتھ اس کنٹینر میں موجود تھیں۔ اور پھر 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر کی شہادت کے سانحے نے انھیں اشکبار کر دیا۔

وہ آنے والے دنوں کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ہم نہیں جانتے آنے والا وقت پاکستان کے لیے کیا لے کر آ رہا ہے لیکن میں اس کے بارے میں خواب دیکھنے کا حق رکھتی ہوں۔ ایک آزاد، خودمختار، ترقی کرتا ہوا پاکستان۔ یہی میرا خواب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔