آسمان پر صاف لکھا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 6 اپريل 2016

عظیم ادیب آرتھر گورڈن اپنی ذاتی کہانی جس کا عنوان ’’ The Turn of the Tide‘‘ ہے، میں لکھتا ہے کہ اس کی زندگی اس وقت سے شروع ہوتی ہے، جن دنوں اس نے محسوس کرنا شروع کیا کہ زندگی میں ہر چیز جامد اور بے مزہ ہو چکی ہے۔ زندگی میں اس کا جوش و جذبہ ماند پڑ گیا ہے اور بحیثیت لکھاری کے اسے اپنی تخلیقات فضول نظر آنے لگیں اور یہ صورت حال دن بدن بد ترین ہوتی جا رہی تھی، بالآخر اس نے ڈاکٹر سے مدد لینے کا سوچا۔

جب ڈاکٹر کو طبعی طور پر کوئی نقص نظر نہ آیا تو انھوں نے آرتھر سے کہا کہ وہ اس کا مشورہ صرف ایک دن کے لیے مانے گا، جب آرتھر نے رضامندی کا اظہار کیا تو ڈاکٹر نے کہا کہ کل کا دن تم ایسی جگہ پر گزارو جہاں ایک بچے کی حیثیت سے تم سب زیادہ خوش ہوتے تھے، وہ اپنا کھا نا ساتھ لے جا سکتا تھا، لیکن نہ تو اسے کسی سے بات کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی کچھ پڑھنے یا لکھنے یا ریڈیو وغیرہ سننے کی۔ پھر ڈاکٹر نے چار نسخے لکھے اور اسے کہا کہ پہلا دن کے 9 بجے کھولنا دوسرا بارہ بجے تیسرا تین بجے اور چوتھا چھ بجے شام ۔ کیا تم سنجیدہ ہو، آرتھر نے پوچھا جب تمہیں میرا فیس کا بل ملے گا تو پھر تم مجھے غیر سنجیدہ نہیں سمجھو گے۔ اس کا جواب تھا لٰہذا اگلے دن آرتھر ساحل سمندر پر چلا گیا۔

جب اس نے نو بجے پہلا نسخہ کھولا تو اس پر لکھا تھا ’’غور سے سنو‘‘ اس نے سو چا کہ ڈاکٹر شاید پاگل ہو گیا ہے وہ تین گھنٹے کیسے سن سکتا ہے لیکن اس نے ڈاکٹر کا مشورہ ماننے کا وعدہ کر لیا ہوا تھا۔

لہذا وہ سننے لگا اس نے سمندر اور پرندوں کی عام آوازیں سننا شروع کر دیں کچھ دیر بعد اسے کچھ اور آوازیں بھی سنائی دینے لگیں جو کہ اسے پہلے نہیں آ رہی تھیں وہ جیسے جیسے سنتا گیا اسے تمام باتیں یاد آنے لگیں جو بحیثیت ایک بچے کے اس نے سمندر سے سیکھی تھیں صبر، عزت اور چیزوں کے ایک دوسرے پر انحصار کی اہمیت۔ وہ آوازوں اور خاموشی کو سنتا رہا اور اس کے اندر ایک سکون سا پیدا ہونا شروع ہو گیا۔

دوپہر 12 بجے اس نے دوسری پر چی کھولی اور اسے پڑھا لکھا تھا ’’ماضی میں جانے کی کوشش کرو‘‘ ماضی میں کس چیز کو یاد کرنے کی کوشش کروں۔ اس نے حیران ہو کر سوچا، شاید بچپنے کو یا شاید اچھے دنوں کی یادوں کو اس نے اپنے ماضی کے بارے میں سوچا اور پھر چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بارے میں سوچنے لگا اور اس نے کوشش کی کہ انھیں تفصیل کے ساتھ صحیح صحیح یاد کرے اور یہ سب یاد کرنے کے دوران اسے اپنے اندر ایک گرم جوشی پیدا ہوتی محسوس ہوئی۔

3 بجے اس نے تیسری پرچی کھولی اب تک نسخے پر عمل کرنا زیادہ مشکل نہیں رہا تھا لیکن یہ پرچی ذرا مختلف تھی لکھا تھا ’’اپنی نیتوں کا تجزیہ کرو‘‘ شروع میں تو اس نے دفاعی انداز اختیار کیا۔ اس نے سوچا کہ وہ کیا چاہتا تھا کامیابی، مانے جانا، تحفظ اور اس نے ان سب کو حاصل بھی کر لیا، لیکن پھر اسے خیال آیا کہ یہ باتیں تو خاص نہیں ہیں اور شاید اسی سوچ میں اس کی جمود شدہ صورت حال کا جواب بھی تھا۔ اس نے اپنی نیتوں کے بارے میں گہرائی سے سوچنا شروع کیا، اس نے اپنی پرانی خو شیوں کے بارے میں سوچنا شروع کیا اور آخر میں اس کو جواب مل گیا۔ ’’ایک لمحے میں‘‘ اس نے لکھا اگر بندے کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو پھر کچھ بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔

اس بات کا قطعا ًکوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ایک ڈاکیے ہیں یا ڈاکٹر یا نائی یا انشورنس ایجنٹ ہیں یا ایک فل ٹائم بیوی ہیں جو بھی ہیں جب تک آپ کو یہ خیال ہے کہ آپ دوسروں کی خدمت کر رہے ہیں آپ اپنا کام اچھے طریقے سے کرتے ہیں لیکن جب آپ کا مطمع نظر صرف اپنا مطلب ہی ہو تو پھر آپ کام اتنے اچھے طریقے سے نہیں کرتے یہ کشش ثقل کی طرح کا قانون ہے۔ جب چھ بجے اس نے آخری پرچی کھولی تو اس پر عمل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی ’’اپنے تفکرات کو ریت پر لکھو‘‘ اس پہ لکھا تھا وہ ریت پر جھکا اور اس نے ایک ٹوٹی ہوئی سیپی کی مدد سے ریت پر کئی الفا ظ لکھے پھر و ہ مڑا اور پیچھے کی طرف چلنے لگا اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اسے معلوم تھا کہ ابھی سمندر کی موج سب اپنے ساتھ بہا لے جائے گی ۔

آرتھرگورڈن کی کہانی آج ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور اشرافیہ کی کہانی بن کے رہ گئی ہے۔ ان کی زندگی میں بھی آج ہر چیز جامد اور بے مزہ ہو چکی ہے، اس لیے کہ وہ بھی زندگی کو صرف کامیابی، مانے جانا اور تحفظ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھے ہیں وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ زندگی صرف اور صرف روپوں پیسوں کے ڈھیر ہیرے جواہرات کے ان گنت سیٹ لا تعداد ملوں، ان گنت محلوں اور جاگیریں اپنے پاس ذخیرہ کر لینے کا نام ہے۔

انھیں یہ معلوم تک نہیں ہے کہ ان کے نصیب میں لکھا جا چکا ہے کہ وہ سونے کی صلیب اٹھائے اٹھا ئے پھرتے رہیں خواہ اس کے بوجھ تلے ان کے کندھے شکستہ ہو جائیں وہ اسے اٹھائے اٹھائے تھک کر نڈھال ہو جاتے ہیں۔ ہانپتے کانپتے پھر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس سونے کی صلیب سے پھر چمٹے رہتے ہیں کہ یہ ہی ان کا مقدر ہے وہ سب اس احساس سے عاری ہو چکے ہیں کہ دراصل وہ عذاب میں مبتلا ہیں بس وہ ایک دوسرے کو روندتے، کچلتے دوڑتے جا رہے ہیں بھاگے جا رہے ہیں۔

ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی گئی ہے، اسی لیے تو کہتے ہیں ہر بالغ بالغ نہیں ہوتا، ہر سمجھدار سمجھدار نہیں ہوتا، ہر عقل مند عقل مند نہیں ہوتا، اگر ان سب کو تاقیامت دنیا میں رہنے کی اجازت مل گئی ہے تو پھر اور بات ہے یا اگر انھیں ان کی تمام چیزوں اور محلات جاگیروں کو اپنے ساتھ اوپر لے جانے کی خصوصی اجازت مل گئی ہے تو پھر اور بات ہے لیکن اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر جلد یا بدیر ان کا سفر ختم ہی ہو جانا ہے۔

یاد رکھیں اوپر کوئی وزیراعظم ،وزیر، مشیر یا وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا، وہاں سب کے سب ایک ہی قطار میں ہونگے سب ہی کا احتساب ہو گا۔ وہاں کوئی سفارش نہیں چلے گی وہاں کسی کے عہدے یا مرتبے کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا۔ اس بات کو تم جتنی جلدی سمجھ لو گے تمہارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔ اس لیے آؤ آج ہی سے اپنی زندگی کی کہانی کو بدل ڈالو اور آرتھر گورڈن کی طرح چار پرچیاں لے کر اپنے بچپن کی پسندید ہ جگہ پر چلے جاؤ اور ان پرچیوں پر لکھی گئی ہدایات پر جوں کا توں عمل کر لو ورنہ آگے کچھ اور کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آگے کیا ہونا ہے آسمان پر صاف لکھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔