چھوٹو گینگ بمقابلہ پنجاب پولیس

سالار سلیمان  جمعـء 15 اپريل 2016
رینجرز اور فوج کو طلب کرنے کے بعد تو اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ ’چھوٹو گینگ‘ کا خاتمہ ہوجائے گا، لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں کوئی نیا گینگ سامنے نہیں آئے گا؟

رینجرز اور فوج کو طلب کرنے کے بعد تو اب یہ یقین ہوگیا ہے کہ ’چھوٹو گینگ‘ کا خاتمہ ہوجائے گا، لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں کوئی نیا گینگ سامنے نہیں آئے گا؟

خواجہ آصف صاحب نے عمران خان کی دھرنوں کے بعد اسمبلی میں واپسی پر ایک دھواں دھار تقریر کی تھی، یہ تقریر ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تقریر کے مختلف حصوں کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تجربہ کار سوشل میڈیا بریگیڈ نے مخالفین کی کارکردگی کیلئے بھی استعمال کیا اور آج تک اس تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

پنجاب جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا انتظام گزشتہ 8 سالوں سے اس ملک کے وزیراعظم نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ میدان سیاست کے شہہ سوار نہ ہوتے تو فلموں میں منفی کردار ضرور ادا کرتے۔ ان کے دور میں صوبے کی حالت بلاشبہ قابل رحم ہے۔ ایک طرف شہباز شریف ہر اس منصوبے کو شروع کر رہے ہیں جس میں سریے اور سیمنٹ کا استعمال ہوتا ہے اور دوسری جانب صوبے میں تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے۔ مقام افسوس ہے کہ آٹھ سالوں میں پورے صوبے میں ایک بھی اعلیٰ پائے کا اسپتال نہیں بن سکا ہے، جہاں ملک کی اشرافیہ اور حکمران اپنا علاج کرواسکیں۔ دانش اسکول کے نام پر بنائے گئے اسکولوں میں بھی پرنسپل حضرات کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کی خبریں منظرعام پر آ رہی ہیں، تو دوسری جانب اس اسکول میں اعلانیہ اور مخفی میرٹ کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز اپنی تنخواہوں میں اضافے کیلئے بدمعاشی کر رہے ہیں اور ان کو حکمت سے روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب امن و امان کی بات کرلیں تو بھی حالات ایسے ہیں کہ صوبے میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ لاہور میں ڈولفن فورس بمعہ جدید آلات و ہتھیار متعارف کروانے کے باوجود بھی جرائم میں کوئی خاطر خواہ کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ شہباز شریف کی جانب سے تھانہ کلچر کو بدل دینے کا دعوی تو اُسی وقت ہوا میں اُڑ گیا تھا جب تھانے میں بدترین تشدد کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔

جنوبی پنجاب کے ساتھ کس قسم کی زیادتیاں ہوئی ہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا لیکن یہ بات درست ہے کہ ان علاقوں میں قانون بہت ہی کمزور ہے اور یہاں ملکی قوانین سے زیادہ مقامی قانون کو اہمیت حاصل ہے۔ جنوبی پنجاب کے مخصوص علاقوں میں مختلف جرائم پیشہ گروہ بھی سرگرم عمل ہیں۔ کراچی میں آپریشن کے بعد ان علاقوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے آنے کی اطلاعات بڑھ گئی تھی۔ یہ پولیس کا فرض تھا کہ وہ ان گروہوں کے خلاف آپریشن کرتی اور ان کا قلع قمع کرتی، تاہم یہ پولیس کے بس کی بات ہی نہیں ہے، ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ پولیس اس قابل نہیں ہے اور شاید کبھی تھی بھی نہیں کہ وہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھرپور آپریشن کرسکے۔

جنوبی پنجاب کا ایک علاقہ ہے کچا جمال، یہ علاقہ راجن پور کے قریب ہے۔ اس علاقے میں عرصہ سے ’چھوٹو گینگ ‘ کی دہشت ہے۔ چھوٹو گینگ ایک عرصے سے جنوبی پنجاب میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، اور افواہیں ہیں کہ اس گینگ کی سرپرستی مختلف ادوار میں مختلف سیاست دانوں کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔ سیاست دانوں کی گود میں نوزائیدہ سے پلے ہوئے عفریت کا سفر ایک نہیں بلکہ کئی سالوں پر محیط ہے۔ جب دیکھا گیا کہ اس گینگ کا سر کافی بلند ہوگیا ہے تو ارباب اختیار نے اس کو کاٹنے کا فیصلہ کیا۔

گذشتہ 3 ہفتوں سے اس گینگ کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جارہا ہے۔ یہ موجودہ آپریشن پنجاب پولیس کر رہی ہے، جس کی صلاحیت کا عالم یہ ہے کہ 3 ہفتوں سے ابھی تک مقابلہ جاری ہے اور چھوٹو گینگ کے نقصان کی کوئی مصدقہ خبر نہیں ہے، جبکہ آپریشن میں اب تک 6 اہلکار شہید، 3 شدید زخمی جبکہ گینگ نے 15 اہلکاروں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔

آخر کیوں اس آپریشن کو پولیس کے ذریعے سے کروایا گیا ہے؟ کیونکہ چھوٹو گینگ کا سربراہ ’عاطف چوہدری ‘ ثانی ہے اور اس کے سینے میں اتنے راز دفن ہیں کہ اگر وہ منظر عام پر آگئے تو شاید سیاست کے میدان میں ’پانامہ لیکس‘ کے بعد ایک اور بھونچال آجائے گا۔ چھوٹو گینگ کے سربراہ کے سر کی قیمت بھی مقرر ہے۔ اس گینگ نے یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکاروں کو وائرلیس سے پیغام بھیجا ہے کہ فوری طور پر آپریشن کو روکا جائے، علاقے کو پولیس سے خالی کیا جائے، اس کے گرفتار کئے گئے ساتھی رہا کئے جائیں ورنہ یرغمالی ایک ایک کرکے قتل کر دیے جائیں گے۔

7 اضلاع کی پولیس 1600 جوانوں کے ساتھ مقابلے میں مصروف ہے۔ 16 دن مقابلے کے بعد مکمل طور پر شکست کھانے کے بعد اب پاک فوج سے مدد طلب کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ ڈرونز سے بھی نگرانی کی جا رہی ہے، اور کسی بھی وقت یہاں پر فضائی حملہ ہوسکتا ہے۔ علاقے میں گذشتہ کئی روز سے موبائل سروس بھی معطل ہے۔ چھوٹو گینگ کے ساتھ اس وقت 100 سے زائد چھوٹے بڑے گینگ منسلک ہیں جن پر مجموعی طور پر 64 قتل کے کیس سمیت اغواء برائے تاوان، ڈکیتی سمیت دیگر جرائم کے کیس رجسٹرڈ ہیں۔

یہ سوال اہم ہے کہ چھوٹو گینگ نے کیسے اور کس طرح سے راجن پور کے قریب کے ایک علاقے میں زمین دوز بنکرز بنا لئے؟ جب یہ بنکرز بنائے جا رہے تھے تو حکومت اور قانون نافذ کرنےوالے اداروں نے کیوں روکنے کی کوشش نہیں کی؟ کیسے اور کس طرح سے چھوٹو گینگ تک جدید نوعیت کا بھارتی اور روسی ساختہ اسلحہ پہنچا ہے؟ کیسے چھوٹو گینگ اب تک پولیس کا مقابلہ کر رہا ہے؟ پولیس کی اب تک کیا رپورٹ ہے؟ چھوٹو گینگ اغواء برائے تاوان میں بھی ملوث تھا تو تاوان کے حصے کہاں تک جاتے تھے؟ اس گینگ کی سرپرستی کون کیا کرتا تھا؟

اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا یہ فوج اور رینجرز کامیاب ہوسکتی ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ بالکل ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ کامیاب اُس وقت ہونگے جب ہم اُن پر اعتماد کریں کہ کامیابی ملے گی اور ضرور ملے گی، اور اس چھوٹو گینگ کا خاتمہ ہوجائے گا۔

جیسا کہ اوپر لکھا کہ اِس بار تو ضرور کامیابی مل جائے گی لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں کوئی نیا گینگ سامنے نہیں آئے گا؟ کیا سیاست دان مختلف جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی روک دیں گے؟ کیا پنجاب سمیت ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوسکے گی؟ اس لیے بطور ایک پاکستانی میں مطالبہ کرتا ہوں کہ نہ صرف چھوٹو گینگ کا خاتمہ کیا جائے، بلکہ ایسی حکمت عملی بھی ترتیب دی جائے جس کی موجودگی میں مستقبل میں ملک کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی ایسا گروہ قائم نہ ہوسکے جو ریاست کو چیلنج کرسکے۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ’چھوٹو گینگ‘ کا مستقل طور پر خاتمہ ممکن ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500  الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع  تعارف کے ساتھ [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔