کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالک(پہلا حصہ)

خالد گورایا  ہفتہ 23 اپريل 2016
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

پہلی عالمی جنگ سے قبل بڑے سامراجی ممالک آپس میں دفاعی معاہدے کر رہے تھے، 1879 سے لے کر 1907 تک سامراجی ملکوں کے دو گروپ (1) محوری گروپ میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور ترکی تھے۔ (2) اتحادی گروپ میں برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان شامل تھے۔ پہلی عالمی جنگ 28 جولائی 1914 کو شروع ہوئی اور 11 نومبر 1918 کو امریکی صدر ولسن کے چودہ نکات پر جرمنی نے جنگ بند کردی تھی جیسے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ امریکا 6 اپریل 1917 کو جرمنی کے خلاف شریک ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ جرمن آبدوزوں نے مئی 1915 کو امریکا کے بحری جہاز لوسی ٹینیا Lusitania کو بلا کسی سبب کے ڈبو دیا تھا۔ امریکا تقریباً 2 سال تک خاموش رہنے کے بعد جنگ میں شریک ہوا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ امریکا نیوٹرل رہ کر پورے یورپی ملکوں کو کاغذی ڈالر کے شکنجے میں جکڑ رہا تھا۔ امریکا خاموشی سے امریکی سرپلس اجناس اور صنعتی اشیا، ادویات، جنگی سامان کی وافر پیداوار کرنے میں لگا رہا تھا اور جنگ شروع ہونے کے بعد یورپی ملکوں میں کرنسی ایکسچینج بحران پیدا ہوگیا۔ ایک تو جنگ کی وجہ سے تجارتی راستے بند ہو گئے دوسرا تمام متحارب ملکوں میں جنگی غیر پیداواری اخراجاتی بوجھ کے نتیجے میں اشیا کے مقابلے میں کرنسیوں کی قیمتیں گرتی گئیں جس سے مہنگائی بڑھتی گئی۔

تیسرا حکومتوں نے کرنسی نوٹ زیادہ مقدار میں چھاپنے شروع کردیے جس سے مزید مہنگائی میں اضافہ ہوتا گیا۔ جنگ سے قبل یورپی تمام ممالک گولڈ اسٹینڈرڈ پر تھے۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ دوم کے صفحے 267 پر درج ہے، جنگ سے قبل سوئٹزر لینڈ گولڈ اسٹینڈرڈ پر تھا۔ ایک گولڈ فرانک 0.32258 گرام سونے کے برابر تھا جو امریکی کرنسی گولڈ ڈالر کے بدلے 5.1827 فرانک کا ڈالر تھا۔ اسی طرح ناروے متذکرہ کتاب حصہ دوم صفحہ 143 سے 161 تک 1876 سے گولڈ اسٹینڈرڈ پر تھا۔ ڈنمارک، سوئیڈن اور ناروے تینوں ملکوں میں سونے، چاندی کے سکے چلتے تھے۔ ناروے کی کرنسی کرونی Krone میں 0.44803 گرام سونا تھا۔

ایک اونس سونا 63.2758967 کرونی کا تھا اور ایک گولڈ ڈالر کے بدلے 3.06124 گولڈ کرونی ملتے تھے۔ ناروے نے 14 اگست 1914 کو سونے کے لین دین پر پابندی لگا دی تھی حالانکہ ناروے جنگ سے الگ تھا۔ پولینڈ عارضی صلح نامے کے دوران نومبر 1918 کو نیا ملک بنایا گیا اس کی نئی کرنسی Zolty بنائی گئی۔ زولٹی گولڈ 4.25137 ایک امریکی گولڈ ڈالر کے برابر تھے۔ روس 1897 سے گولڈ اسٹینڈرڈ پر تھا۔ جنگ سے قبل گولڈ روبل 1.9434 کا ایک امریکی گولڈ ڈالر کے برابر تھا۔ گولڈ روبل 40.700 کا ایک اونس سونا تھا۔

اسپین کی کرنسی گولڈ Peseta میں 0.290327 گرام سونا تھا۔ ایک امریکی گولڈ ڈالر جو 4.724 گولڈ Peseta کے برابر تھا۔ اسپین نے سونے کے کرنسی سسٹم کو 1868 میں اختیار کیا تھا۔ نیدرلینڈ میں جون 1914 کو 2.484 گولڈ گلڈر ایک امریکی گولڈ ڈالر کے برابر تھے۔ 51.3442 گلڈر گولڈ کا ایک اونس سونا تھا۔ سوئیڈن نے 1873 میں گولڈ اسٹینڈرڈ اختیار کیا، ایک گولڈ کرونا Krona کے عوض 0.44803 گرام سونا تھا۔ گولڈ کرونا 3.7316 کا ایک گولڈ ڈالر تھا۔ تمام یورپی ممالک کرنسی ایکسچینج بحران کی لپیٹ میں آگئے تو تمام ممالک اپنے سابقہ گولڈ معیار کو برقرار نہ رکھ سکے۔

تمام ممالک گولڈ اسٹینڈرڈ سے ہٹتے گئے۔ امریکا نیوٹرل ملک تھا اور اپنے گولڈ اسٹینڈرڈ 1837 سے اب تک 20.67 ڈالر فی اونس سونا پر کھڑا تھا۔ جب یورپی ممالک ایک دوسرے سے دفاعی معاہدے کر رہے تھے تو امریکا نیوٹرل تھا۔ یورپی ملکوں نے امریکا کو Safe Haven Gold Country سمجھ کر اپنا اپنا سونا امریکی بینکوں میں ڈپازٹ کرنا شروع کردیا تھا۔ جب امریکا 6 اپریل 1917 کو جرمنی کے خلاف جنگ میں شریک ہوگیا تو ان ممالک نے جنھوں نے امریکا میں سونا ڈپازٹ کیا ہوا تھا اپنا اپنا سونا نکالنا شروع کردیا۔ امریکا نے ایسے تمام ملکوں کے سونے کے نکالنے پر 7 ستمبر 1917 سے 30 جون 1919 تک پابندی لگا دی تھی۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ دوم کے صفحہ 7 پر امریکی اشیا کے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق امریکا نے 1912 سے 1924 تک 23138.386 ملین گولڈ ڈالر کی سرپلس تجارت کی تھی۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ اول کے صفحہ 17 کے حاشیے میں لکھا ہے امریکا کے پاس جنوری 1925 میں 4547.407 ملین گولڈ ڈالر ریزرو تھا۔

اس طرح تجارتی سرپلس و گولڈ ریزرو ڈالروں کا ٹوٹل 27685.793 ملین ڈالر گولڈ تھا۔ کتاب International Currency Experience By League of Nation 1944 کے صفحہ 240 پر 1913 میں امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 1290.00 ملین ڈالر تھا، دوسرے 17 بڑے سامراجی ملکوں کے پاس 3145.00 ملین ڈالر گولڈ ریزرو تھا۔ اس طرح امریکا ان ممالک سے گولڈ ریزرو میں 144 فیصد کم گولڈ ریزرو رکھتا تھا یاد رہے کہ تمام یورپی ملکوں کے درمیان ایکسچینج بحران کی وجہ سے کرنسیوں کا تبادلہ بند ہو چکا تھا۔ امریکا نے کاغذی ڈالر ان ملکوں کے مالیاتی سسٹم میں پمپ کرنے شروع کردیے تھے۔ کتاب ’’یورپین کرنسی اینڈ فنانس‘‘ حصہ اول کے صفحہ 287 پر اس کی تفصیل درج ہے۔

اسی کتاب کے صفحہ 288 پر درج ہے۔ برطانیہ نے امریکا سے بہت زیادہ مقدار میں اشیا امپورٹ کیں۔ امریکا کو ان کے بدلے سونا دیا۔ برطانیہ نے امریکا سے 1923 تک 4 ارب 50 کروڑ ڈالر کا قرضہ لے لیا تھا اسی کتاب کے حصہ اول کے صفحہ 290 پر اس کی تفصیل درج ہے۔جنگ نے بڑے برطانیہ سامراجی ملک کو منہ کے بل گرا دیا تھا۔ امریکی کاغذی ڈالر نے مزید برطانیہ کو مالیاتی زنجیروں میں جکڑ لیا۔ برطانیہ نے 1917 سے ستمبر 1919 تک 4 ارب 27 کروڑ، 70 لاکھ امریکی ڈالر کا قرضہ لیا۔ برطانیہ نے امریکا کو ہر سال قرضوں پر سود 158.445 ملین پونڈ (754.1911 ملین ڈالر) کے دیے تھے۔متذکرہ کتاب کے حصہ اول کے صفحہ 464 پر برطانیہ نے 1915 سے 1924 تک امریکا کو 88.568 ملین پونڈ کا سونا ایکسپورٹ کیا تھا اور متذکرہ کتاب حصہ اول کے صفحہ 470 کے مطابق 1916 میں فرانس نے برطانیہ کو 1864.302908 ملین فرانک کا گولڈ دیا۔ برطانیہ نے یہ سونا امریکا کو دے دیا، جو 362.634 ملین ڈالر کا گولڈ (گولڈ فرانک 5.141 کا ایک ڈالر ) تھا۔ متذکرہ کتاب حصہ اول صفحہ 327 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق فرانس کی حکومت نے 1917 سے 1920 تک ہر ماہ امریکا سے قرض لیا جو امریکی امپورٹ پر ادا کیا گیا۔

ایک طرف امریکا نے فرانس سے قرضے پر سود وصول کیا، دوسرا امریکا نے امریکی سرپلس اشیا فرانس کو فروخت کر کے ان پر نفع تاجری اور نفع صنعت وصول کیا تھا اور ساتھ ہی فرانسیسی کرنسی فرانک کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے کم ہونے روکتا تھا۔ ان 4 سال میں فرانس نے ٹوٹل قرضہ 2997.4778 ملین ڈالر وصول کیا تھا۔ جب ملکی کرنسی کی قیمت میں کمی ہوتی ہے تو لاگتیں بڑھ جانے سے بیرونی درآمدات بڑھ جاتی ہے۔ فرانس میں امریکی اشیا کی امپورٹ بڑھتی گئی تھی۔ امریکی کرنسی ڈالر شکنجہ وار میں فرانسیسی کرنسی کی قیمت میں 1914 سے دسمبر 1924 تک 263 فیصد کاغذی ڈالر مقابلے میں کمی ہوچکی تھی۔ کتاب “Revision of the Treaty Being a Sequel to the Economic Consequence 1992 By J.M. Keynes” کے صفحے 219 پر درج ہے۔ جولائی 1921 کو امریکا نے 19 یورپی ملکوں کو 11 ارب 8 کروڑ 47 لاکھ 67 ہزار ڈالر کا قرضہ دیا۔ (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔