ورلڈ کپ کی وبا

شاہین رحمن  پير 2 مئ 2016

ورلڈ کپ کی وبا جوچارسال بعد آئے تو پاکستان میں زندگی کا پہیہ جام کر ڈالتی ہے۔

’’بیگم! گھر کا تمام سامان اور راشن منگوا لو‘‘ رحمن نے گھر میں آتے ہی آواز لگائی۔

’’یا اللہ خیر!کیا پڑوسی ملک نے حملہ کردیا؟ ہائے اللہ! ہمیں یہی خطرہ تھا۔ آئے دن سرحدوں پر چھیڑ خانی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ اب کیا ہوگا میں تو سہم گئی میں ہمیشہ جنگ کے نام پر خوفزدہ ہوجاتی تھی ہمیشہ دعا کرتی ہوں اللہ تعالیٰ ان دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ بہت اچھے رہیں۔‘‘

رحمن بولے ’’ارے بھئی! نہیں ایسا کچھ نہیں۔ واویلا مت کرو۔ بھئی! کرکٹ ورلڈ کپ شروع ہو رہا ہے مجھے وقت بے وقت بازار سے سودا سلف لانے کا مت کہنا۔ جو منگوانا ہے ابھی منگوا لو پھر میں ذمے دار نہیں رہوں گا۔ ‘‘

جب بھی ورلڈ کپ کی وبا حملہ آور ہوگی اس بیماری میں مبتلا کوئی مریض یعنی کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

یوں تو کرکٹ کے شوق میں مبتلا مریضوں کی تعداد کم نہیں لیکن جب چار سال بعد ورلڈ کپ شروع ہو تو اس بیماری سے شاید ہی کوئی بچ پاتا ہو۔مرد، عورت، بچے، بوڑھے اور جوان ہر کسی پر یہ بیماری پوری شدت سے حملہ آور ہوتی ہے رہ جاتے ہیں تو مجھ جیسے محدود چند لوگ جن کی بدولت کاروبار حیات چلتا ہے۔ کئی لوگ پہلے سے گھر میں راشن اکٹھا کرنے لگتے ہیں کہ دوران میچ کون باہر نکلے گا۔ والدین بچوں کو تمام اسباق پیشگی یاد کرواتے ہیں کہ ورلڈ کپ کے دوران وقت نہیں ہوتا۔ خواتین کئی طرح کے کھانے بناکر منجمد کردیتی ہیں۔ غرض تمام لوگ ذوق و شوق سے ورلڈ کپ کی تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ورلڈ کپ کا شیڈول آتے ہی پہلے تو ان تمام تاریخوں پر نشان لگایا جاتا ہے جن میں پاکستان کا مقابلہ کانٹے کی ٹیم سے ہو خاص طور پر بھارت کے ساتھ۔ جس دن بھارت کے ساتھ پاکستان کا میچ ہو، پورے ملک میں کاروبار زندگی معطل ہوجاتا ہے ایسے لگتا ہے کہ ملک بھرمیں ہڑتال ہے بہت سے دیوانے اسے پاک بھارت جنگ ہی شمارکرتے ہیں۔ دوران میچ لوگ کسی قسم کا کام کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اس دوران مریض (یعنی کرکٹ کے شایقین) کی کیفیت قابل دید ہوتی ہے۔ ریموٹ ہاتھ میں پکڑے آنکھیں پھاڑے اور سانس روکے نظریں ٹی وی پر جمی ہوتی ہیں۔

گویا کھلاڑی کے آؤٹ ہونے کا تعلق ان کے پلک جھپکنے یا سانس لینے سے ہے۔ رت جگے منانے کا رواج عام ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ بھی بہت شوق سے تمام رات جاگتے ہیں جو شاید ہی کبھی رمضان میں عبادت کی غرض سے جاگے ہوں ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ خواتین سر پر دوپٹہ لپیٹے مصلے بچھا کر ایک ہاتھ میں تسبیح اور دوسرے میں ریموٹ پکڑے خشوع و خضوع سے دعا میں مصروف ہیں ان پر رقت طاری ہے چہرے پر ایسی التجا اور درد ہوتا ہے کہ لگتا ہے آج مصلیٰ سے اپنے تمام گناہ بخشوا کر ہی اٹھیں گی، لیکن درحقیقت وہ پاکستانی ٹیم کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوتی ہیں ۔

ان دنوں ہرکوئی دوسرے سے اسکور پوچھتا نظر آتا ہے۔گاہک دکانداروں سے ، باس ملازمین سے۔ مریض ڈاکٹر اورخواتین رشتے داروں سے اسی موضوع پر باتیں کرتی ہیں، حال احوال سے پہلے میچ کی صورتحال ضرور پوچھتی ہیں۔ دوران میچ اگر لوڈ شیڈنگ ہوجائے تو واپڈا کی شان میں قصیدہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ تمام رشتے دار بھی یاد آنے لگتے ہیں جنھیں کبھی کئی سال سے فون نہیں کیا گیا۔ پھر انھیں فون یا میسج بھیج کر اسکور معلوم کیا جاتا ہے۔دوران میچ جب کوئی کھلاڑی آؤٹ ہو یا ٹیم ہار جائے تو ایسا ردعمل سامنے آتا ہے ان پر بے تحاشا لعن طعن کی جاتی ہے۔

بچے سہم کر ماؤں کی گود میں دبک جاتے ہیں۔ پرندے گھبرا کر اپنے گھونسلوں سے اڑتے ہوئے اورکمزور دل حضرات دل پکڑکر بیٹھ جاتے ہیں۔کمزور دل کے وہ افراد جو اس خوش فہمی میں مبتلا کہ پاکستان کی ٹیم ناقابل شکست ہے عموماً یہ صدمہ برداشت نہیں کرپاتے اور دل کا دورہ پڑنے سے اسپتال پہنچ جاتے ہیں ان افراد کو ڈاکٹر فائنل میچ تک اسپتال ہی میں رکھتے ہیں۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ ہر میچ کے دوران ان کے بلڈ پریشر اور دل کی رفتار کے اتار چڑھاؤکی مکمل پڑتال ہوسکے ۔ یوں تو پاکستانی ٹیم ہماری امیدوں کے برخلاف ایک مرتبہ ورلڈ کپ لاچکی ہے عموماً ہماری توقعات کے عین مطابق سیمی فائنل سے پہلے ہی منہ لٹکا کر واپس آجاتی ہے ایسے مواقعے پر مجھ جیسے دل جلے کہتے ہیں ’’شکر ہے اب کم ازکم زندگی معمول پر تو آئے گی۔‘‘ لیکن رازکی بات یہ ہے ہمارا یہ جملہ انگور کھٹے ہیں کے مترادف ہے۔ ورنہ کون ہے جو اپنی ٹیم کی ہار پر خوش ہو۔

ایک اور اہم بات کھیل ،کھیل ہے ۔ ایک ہارے گا اور ایک جیتے گا ۔ ایک چیز اسپورٹس مین شپ بھی ہوتی ہے۔ کھلاڑی اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے ۔ کھیل بین الاقوامی تعلقات، امن، خیرسگالی اور عالمی یک جہتی کی علامت ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی تھوڑا برداشت سے کام لینا چاہیے اورکھلاڑیوں پر اتنی زیادہ تنقید نہیں کرنا چاہیے۔

کھیل کو کھیل سمجھ مشغلۂ دل نہ بنا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔