نقارخانے میں طوطی کی آواز

مقتدا منصور  پير 16 مئ 2016
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

ایک ادبی نشست میں ایک افسانہ نگار نے اپنا افسانہ تنقید کے لیے پیش کیا۔ تنقیدنگار نے افسانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ربط نہیں ہے۔ افسانہ نگار نے برجستہ جواب دیا کہ جو ملک ومعاشرہ ہی بے ربط ہو، تو وہاں افسانے میں ربط کہاں سے آئے گا۔ بات درست ہے کہ جب کوئی معاشرہ فکری انتشار اور سماجی بے ربطگی کا شکار ہو تو تخلیق کیے جانے والے ادب میں ربط اور تنظیم تلاش کرنا سوائے مضحکہ خیزی کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ کسی معاشرے میں تخلیق ہونے والا ادب سیاسی سوچ، سماجی تشکیلات اور ثقافتی زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔

اس فکری انتشار اور سیاسی و سماجی بے ربطگی کا ایک سبب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وطن عزیز کو روزِ اول ہی سے کسی واضح نظام کے تحت چلانے کے بجائے ایڈہاک ازم کی بنیادوں پر چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسرے اس ملک کے سپید وسیاہ پر مسلط اشرافیہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ ملک میں Status Quo برقرار رہے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ آ سکے، تا کہ اقتدار پر ان کی جو گرفت ہے، وہ کسی طور کمزور نہ ہونے پائے۔ اسی کشاکش اور ایڈہاک ازم کا نتیجہ ہے کہ ملک 68 برسوں کے دوران کوئی واضح سمت اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے۔

اس کے علاوہ ریاست کے منطقی جواز کی مختلف حلقوں میں مختلف تفاہیم نے جن سیاسی، سماجی اور ثقافتی تضادات کو جنم دیا ہے، وہ بھی وقت گزرنے کے ساتھ گہرے ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں معاشرتی ڈھانچے میں موجود انتشار میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اس انتشار کے مظاہر ہمیں مختلف جگہوں اور مواقع پر جابجا نظر آتے ہیں۔

اس سلسلے میں پانامہ لیکس کے معاملے کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اصل مسئلہ Off-Shore کمپنیوں کا قیام نہیں ہے، بلکہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جو رقوم بیرون ملک منتقل کی گئی ہیں، وہ کن ذرایع سے حاصل کی گئی تھیں؟ کیا ان رقوم پر ملکی قوانین کے مطابق ٹیکسوں کی ادائیگی کی گئی تھی یا نہیں؟ سب سے بڑھ کر ان رقوم کی منتقلی کا طریقہ کار کیا تھا؟ آیا یہ رقوم جائز طریقے سے بینکوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی گئیں یا منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر بھیجی گئیں؟

ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چند برس قبل لندن میں ایم کیو ایم کے قائد کے گھر سے تقریباً ساڑھے چار لاکھ اسٹرلنگ پونڈ برآمد ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں وہ دو سال سے منی لانڈرنگ کے حوالے سے انکوائری بھگت رہے ہیں، جب کہ آف شور کمپنیوں میں پاکستانیوں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ یہ رقوم کس طرح پاکستان سے باہر منتقل ہوئیں؟ اس پر بات کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ایسا ملک جو دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو اپنے یہاں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہا ہو، اس کے حکمران اور سیاسی رہنما اور ان کے اہل خانہ دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ جس ملک میں ٹیکس کا دائرہ انتہائی محدود ہو، وہاں کے دولت مند افراد ٹیکس بچانے کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہوں۔

اس عمل کو حب الوطنی کے کس درجے پر رکھا جائے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ موصولہ اعدادوشمار وکلا کی صرف ایک تنظیم کے جاری کردہ ہیں۔ ایسے نہ جانے کتنے اداروں کے پاس کتنے اعداد وشمار موجود ہیں، جن تک ابھی کسی کی رسائی نہیں ہو سکی۔ لہٰذا یہ شکوک و شبہات تقویت پا رہے ہیں کہ باہر منتقل کی گئی جو خطیر رقوم سامنے آئی ہیں، اس سے کئی گنا زائد رقوم باہر موجود ہیں۔

دوسرا مسئلہ حکمران جماعت اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان اس موضوع پر ہونے والی رسہ کشی ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کا ٹھوس اور دیرپا حل تلاش کرنے کے بجائے دونوں اطراف سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے پر دشنام طرازیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ قانون سے آگہی رکھنے والے حلقے باربار کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ تفتیشی ادارہ نہیں ہوتی، بلکہ اس کی اصل ذمے داری تفتیشی رپورٹس کی روشنی میں جرم کا تعین کرنا اور فریقین کو انصاف کی فراہمی ہوتا ہے۔

ان حلقوں کا کہنا ہے سب سے پہلے ایک آزاد اور بااختیار ایگزیکٹو کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں NAB، FBR اور FIA کے ذمے داروں کے علاوہ ISI اور MI کے اہلکاروں کو بھی شامل کیا جائے۔ چونکہ حکومت اس وقت ایک فریق ہے، اس لیے کمیشن کی تشکیل حکومت کے بجائے پارلیمان کو کرنا چاہیے، جو اوپر اٹھائے گئے سوالات کی جامع تفتیش کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پارلیمان کو پیش کرے۔ پارلیمان اس رپورٹ کو عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کرے، تا کہ عدلیہ جرم اور جرم کرنے والوں کا تعین کرنے کے ساتھ سزا اور جزا کا فیصلہ بھی کرے۔

لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس معاملے کو ٹھوس بنیادوں پر حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ بلکہ دونوں نمبر اسکورنگ میں لگے ہوئے ہیں۔ کیونکہ دونوں طرف گڑھے ہیں، جن میں پانی مر رہا ہے۔ وہ کوئی ایسا اقدام کرنا نہیں چاہتے، جس کے نتیجے میں اس اشرافیائی کلچر کو نقصان پہنچے، جس سے دونوں ہی مستفیض ہو رہے ہیں اور جو یکے بعد دیگرے ان کے اقتدار میں آنے کا باعث ہے۔ اس لیے وہ کوئی ایسا کمیشن نہیں بننے دیں گے، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے اور ان کے لیے نئی مشکلات پیدا ہو جائیں۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات پر تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔ تحریک انصاف کا اصرار تھا کہ اس دھاندلی کی تحقیق کے لیے ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔

اس سلسلے میں اس جماعت نے کئی مہینے تک ڈی چوک پر دھرنا بھی دیا۔ اس کے برعکس ملک کے متوشش حلقوں کی خواہش تھی کہ انتخابی عمل میں اصلاحات ضروری ہو چکی ہیں۔ کیونکہ 1970ء میں ہونے والے پہلے انتخابات کو چھوڑ کر کوئی بھی عام اور بلدیاتی الیکشن ایسا نہیں تھا، جس پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد نہ ہوئے ہوں۔ لہٰذا عدالتی کمیشن کی بازگشت کے دوران ہی پارلیمان نے انتخابی عمل میں اصلاحات کے لیے ایک 31 رکنی کمیشن قائم کر دیا۔ مگر چونکہ حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں دونوں ہی مستقل بنیادوں پر انتخابی اصلاحات لانے میں سنجیدہ نہیں ہیں، اس لیے یہ کمیشن آج تک سردخانے میں پڑا ہوا ہے۔

اس کے برعکس دنیا کے مختلف ممالک پانامہ لیکس کے بعد اپنے اپنے معاشی نظام کی خامیوں کا جائزہ لے کر انھیں دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں گزشتہ جمعرات کو لندن میں ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 3 سو سے زائد ماہرین معاشیات نے شرکت کی۔

اس کانفرنس میں جو تجاویز پیش کی گئیں، ان میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ دنیا کے مختلف حصوں میں پائی جانے والی ٹیکس جنتوں (Tax Heavens) کو ختم کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے۔ ان ماہرین کا کہنا تھا کہ ان Tax Heavens کی وجہ سے مختلف جرائم کی سرپرستی ہو رہی ہے، جن میں سب سے زیادہ خطرناک دہشتگردی کی فنانسنگ ہے۔ اس کے علاوہ اسلحہ، منشیات اور انسانی اسمگلنگ کے ذریعے کمائی گئی دولت بھی دنیا بھر میں مسائل کو بڑھاوا دینے کا باعث ہے۔ یوں عالمی معیشت کو جو مختلف نوعیت کے خطرات لاحق ہیں، وہ کسی بھی وقت نئے بحرانوں کو جنم دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔

جب کہ پاکستان میں پانامہ لیکس کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان جو تنازعہ جاری ہے، اس نے ہماری قیادتوں کی اخلاق باختگی کو مزید واضح کر دیا۔ ساتھ ہی انتظامی اداروں کی نااہلی اور کوتاہ بینی بھی کھل کر سامنے آ رہی ہے، جس کی ایک بھیانک مثال یہ ہے کہ بلوچستان کو 2010-11ء کے دوران غریب شہریوں کو سستا آٹا مہیا کرنے کے لیے مہیا کی جانے والی لاکھ ٹن گندم متعلقہ اداروں کی نااہلی، غیر ذمے داری اور بے حسی کے سبب ضایع ہو گئی ہے۔ یہ اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ جانوروں تک کے لیے مضر صحت ہے۔ گویا انسانوں کی خوارک تو کیا جانوروں کا کھاجا بننے تک کے قابل نہیں رہی ہے۔ جب کہ حکومت کو پہنچنے والا اربوں روپوں کا نقصان الگ ہے۔

ملک میں جاری کشاکش اور سیاسی اور انتظامی اداروں کی لاپرواہیوں اور اللے تللوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جو بھی صاحب اقتدار آیا، اس نے اپنا الو سیدھا کیا اور چلا گیا۔ مگر کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس ملک میں بسنے والے 90 فیصد افراد کو درپیش ان گنت مسائل کو ٹھوس اور پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے۔ 68 برس سے ایڈہاک ازم اس ملک کی فیصلہ سازی کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

معاشی فیصلے اس طرح ہوتے جیسے قارون کا خزانہ یہیں کہیں رکھا ہوا ہے۔ وہ کیا خوب کہاوت ہے کہ ’’گھر میں نہیں دانے، اماں چلیں بھنانے‘‘۔ یا پنجابی کی وہ کہاوت کہ پلے نہیں دھیلا، کر دی میلہ میلہ۔ کس قدر مضحکہ خیز بات کہ پوری ملکی معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود کروفر کا یہ عالم ہے کہ ماضی کے پشتینی شہنشاہ بھی شرمائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔