لاجواب!

تنویر قیصر شاہد  بدھ 18 مئ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

قومی اسمبلی میں وزیراعظم جناب نواز شریف کو دھمکانے اور ڈرانے کے لیے ان کے بہت سے حریف اپنے اپنے ’’ہاتھوں‘‘ میں ’’پتھر‘‘ لے کر آئے تھے لیکن وزیراعظم کی تہلکہ خیز تقریر سن کر کسی کو ’’سنگباری‘‘ کی جرأت نہ ہوسکی۔ ’’دشمن‘‘ تو گویا مسحور ہوکر گنگ ہوگئے۔ ’’اپوزیشن‘‘ بناتی رہے اب سات سوالوں کو ستّر۔ کم ہمتی کے سبب موقع تو ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ کپتان کے لیے گوجرانوالوی پیر اعجاز شاہ کی پھونکیں بھی ہمیشہ کی طرح بے اثر اور بے ثمر ثابت ہوئیں۔

’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کی جانب سے بڑا فِیل مچایا گیا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کو، پانامہ لیکس کے پیش منظر میں، ذرا قومی اسمبلی میں آ تو لینے دیجیے، قیامت برپا کردیں گے۔ جناب نواز شریف کی طرف سے بوجوہ جوں جوں اسمبلی آنے میں تاخیر ہورہی تھی، نواز مخالف قوتوں کے حوصلے آسمانوں کو چھُو رہے تھے۔

وزیراعظم پاکستان وطنِ عزیز کے مفادات کے تحفظ کی خاطر تاجکستان اور ترکی کے دَوروں پر گئے تو ’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کی جانب سے دعویٰ کردیا گیا کہ نواز شریف بہانے کرکے اسمبلی سے فرار حاصل کررہے ہیں۔ وزیراعظم دانستہ مگر خاموش رہے، جانتے تھے کہ حریفوں کے یہ بیانات دراصل ان بادلوں کی مانند ہیں جو گرجتے تو خوب ہیں مگر برستے نہیں۔ وقتِ مقررہ پر، 16مئی 2016ء کو، جناب نواز شریف قومی اسمبلی میں بڑے وقار اور اعتماد کے ساتھ آئے، مشتعل ماحول میں صبر کے ساتھ ہاؤس سے خطاب فرمایا، اپنا نقطۂ نظر تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور گویا ساری اسمبلی پر جادو پُھونک دیا۔

بلاشبہ یہ ایک لاجواب خطاب تھا۔ گہرے اثر کی حامل تقریر کے باعث محاسبہ اور مواخذہ کا دعویٰ کرنے والی قوتوں کو اسمبلی کے فلور پر جواب دینے کی ہمت ہی نہ ہوسکی۔ بعض ناقدین ے ’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کے ’’متفقہ‘‘ لیڈرز، خورشید شاہ صاحب اور جناب عمران خان، کی خاموشی کو ’’فرار‘‘ سے معنون اور موسوم کیا ہے لیکن کم از کم ہم یہ لفظ استعمال کرنے کی جرأت و جسارت نہیں کرسکتے۔

نواز شریف کا لہجہ بھی لاجواب تھا اور اسلوبِ تقریر بھی لاجواب۔ ان کے لاجواب ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ساری دنیا منتظر تھی کہ میاں صاحب کے خطاب کے بعد شاہ جی اور کپتان جی اپنے اپنے دعووں، نعروں اور اعلانوں کے مطابق اپنے مقتدر حریف کے ’’چیتھڑے‘‘ اڑائیں گے لیکن ان سب نے نواز شریف کو ناک آؤٹ کرنے کے بجائے اسمبلی سے واک آؤٹ کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ ابھی تک پاکستان بھر کے عوام سناٹے میں ہیں کہ خورشید شاہ صاحب کی بزرگ سیاست کو کیا ہوا اور کہاں گئی کپتان صاحب کی معروفِ عالم بہادری کہ کوئی نواز شریف کے ایک بھی چیلنج کا جواب دے سکا نہ اپنا بیانیہ ’’پڑھ‘‘ سکا اور نہ ہی عوامی توقعات پر پورا اتر سکا۔ جناب نواز شریف کی تقریر کے سحرکار الفاظ ہی کے پس منظر میں محترمہ مریم نواز نے درست معنوں میں فوراً ٹوئیٹ کیا: ’’بے شک وزیراعظم نواز شریف کا خطاب لا جواب تھا۔‘‘

قومی اسمبلی کے مذکورہ تاریخی سیشن میں ’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کی ہزیمت بھی یادگار اور لاجواب تھی۔ حزبِ اقتدار کے لیے بھی غیر متوقع۔ بہت سے لوگ نواز شریف کا حشر نشر کرنے اور دیکھنے قومی اسمبلی میں خصوصاً آئے تھے۔ پرتماشہ نہ ہوا۔ شاہ جی اور کپتان جی کے مقابل حزبِ اقتدار نے بھی اس شام، بعد از خطابِ نواز شریف، یوں پریس کانفرنس کی کہ وفاقی وزیراطلاعات جناب پرویز رشید کے آزُو بازُو میں وفاقی وزیرِریلوے خواجہ سعد رفیق اور وفاقی وزیرِدفاع خواجہ آصف کھڑے تھے۔ اسے تعصب اور جانبداری پر محمول نہ کیاجائے تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان تینوں مقتدر افراد نے‘ باری باری‘ جس طرح عمران خان اور خورشید شاہ کے لتّے لیے، وہ اپنی جگہ ایک لاجواب مظاہرہ تھا۔ جیسے سب فتح کے جذبات سے سرشار ہوں۔

تینوں کا لہجہ بھی اعتماد سے بھرپور تھا اور تینوں کی گفتگو بھی مدلل اور طنز آمیز تھی۔ یہ طنز بنتا بھی تھا کہ قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب کے مقابلے میں اپنا مؤقف، جس کے لیے ساری قوم کی نظریں ٹی وی کی اسکرینوں پر گڑی تھیں، پیش کرنے کے بجائے نام نہاد متحدہ اپوزیشن جس طرح گم صم ہو گئی تھی اور اپنی ندامت کو جس طرح ان لوگوں نے واک آؤٹ کے لبادے میں چھپانے کی ناکام کوشش کی، اس پیش منظر میں لاہور و سیالکوٹ کے منجھے خواجگان اور تجربہ کار سینیٹر پرویز رشید اپنے شکست خوردہ حریفوں پر طنز کے تِیر نہ برساتے تو کیا اُن پر گُلپاشی کرتے؟

دانیال عزیز ہوتے تو نجانے ’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کی مزید کتنی اور کن الفاظ میں خاطر ہوتی!! واقعہ یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے تجربہ کار ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’’متحدہ‘‘ اپوزیشن کے غباروں سے جس دانشمندی اور حکمت سے ہوا نکالی ہے، یہ منظر پاکستان کی سیاسیات میں ہمیشہ ایک یادگار باب کے طور پر زندہ رہے گا۔ ’’تاریخی بات‘‘ یہ بھی ہے کہ قومی اسمبلی میں جب یہ ’’بُدھ‘‘ پڑا ہوا تھا، جنرل راحیل شریف پاکستان سے دور، چین میں وزیراعظم لی کی چیانگ سے ملاقات کررہے تھے: پاکستان کے تحفظ میں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ہر صورت میں منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔