بجٹ میں زرعی شعبے کوریلیف دیاجائیگا،سکندربوسن

بزنس رپورٹر  جمعـء 27 مئ 2016
 پاکستان میں گلوبل وارمنگ زراعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں گلوبل وارمنگ زراعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ فوٹو: فائل

 کراچی:  وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سکندر حیات بوسن نے آم کے برآمد کنندگان پر زور دیا ہے کہ آم کی پیداوا ر بڑھانے اور معیار کی بہتری کے لیے فارمرز گڈ ایگری کلچر پریکٹس پر عمل کریں، ایکسپورٹرز معیار کی بہتری میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں فارمرز کی معاونت کریں۔

وہ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے تحت یوایس ایڈکے تعاون سے آم کے ایکسپورٹرز کی آگہی کے لیے ہوٹل میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کررہے تھے، اس موقع پریوایس ایڈ پروجیکٹ اے ایم ڈی اور پی ایف وی اے کے درمیان اشتراک عمل کے لیے مفاہمتی یادداشت پردستخط بھی کیے گئے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے چھوٹے فارمرز کے لیے اپنا وجود برقرار رکھنا دشوار ہوگیا ہے، وفاقی حکومت بجٹ میں زرعی پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے وسائل کے مطابق ہرممکن ریلیف فراہم کرے گی۔

بین الاقوامی منڈی میں کپاس کی قیمت میں کمی اور مقامی ٹیکسٹائل صنعت کے رویے کی وجہ سے کپاس کی کاشت کے رجحان میں کمی ہورہی ہے، اس سال کپاس کے زیر کاشت رقبے میں 30فیصد کمی کا سامنا ہے۔ انہوں نے آم کے برآمد کنندگان پر زور دیا کہ وہ اعلیٰ کوالٹی کے آم پیدا کرنے والے فارمرز کو اچھی قیمت ادا کریں، معیار کی بہتری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز مل جل کر کام کریں تو 2سال میں آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ کے شعبے میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ وفاقی وزیر نے پھل ارسبزیوں کے معیار کی بہتری اور برآمدات میں اضافے کے لیے پی ایف وی اے کے کردار اور ہارٹی کلچر سیکٹر کی طویل مدتی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے قومی کانفرنس کے انعقاد کی تجویز کو سراہتے ہوئے وزارت کی جانب سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انھوں نے کہاکہ سٹرس ڈیولپمنٹ بورڈ کی تشکیل پر بہت جلد کام شروع کردیا جائے گا۔

سیمینار سے خطاب میں پی ایف وی اے کے چیئرمین وحید احمد نے کہا کہ یورپ کو برآمدات میں اضافے کے بھرپور مواقع موجود ہیں تاہم فارمز کی رجسٹریشن سے متعلق مشکلات کی وجہ سے مارکیٹ شیئر بحال ہونے میں دشواری کا سامنا ہے،آم کے لیے چین، کوریا اور آسٹریلیا جیسی اہم منڈیاں کھلی ہوئی ہیں تاہم مربوط کوششوں کے فقدان کی وجہ سے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا،3 سال گزرنے کے باوجود وی ایچ ٹی پلانٹ نصب نہ ہونے سے ہائی ویلیوجاپانی منڈی کوبھی آم ایکسپورٹ نہیں ہو سکا تاہم پاکستانی آم کی برآمد4 سال میں 35کروڑ ڈالر تک بڑھانے کے امکانات موجود ہیں۔

انھوں نے زرعی تحقیق پر زوردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گلوبل وارمنگ زراعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے قومی سطح پر کوئی حکمت عملی موجود نہیں، گلوبل وارمنگ سے 18کروڑ ڈالر کی کینو ایکسپورٹ خطرے میںہے تاہم ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ، نئی ورائٹی متعارف کراتے ہوئے آئندہ 10سال میں ترش پھلوں کی ایکسپورٹ کوبھی 1ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ ایس ایم منیر نے کہا کہ اتھارٹی کے پلیٹ فارم سے زرعی مصنوعات، چاول،گوشت اور پھل سبزیوں کی برآمدات بڑھانے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جارہے ہیں، وزیر اعظم کی ہدایت پر روس اور وسط ایشیاکو زرعی برآمدات بڑھانے پر توجہ دی جارہی ہے۔

فوڈ ایکسپورٹرز کاوفد روس روانہ ہورہا ہے جو مسلم آبادی والے صوبوں میں برآمدات کے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں معاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے قومی کانفرنس سے متعلق پی ایف وی اے کی تجویزپر مدد کا یقین دلایا۔ انھوں نے کہا کہ وی ایچ ٹی پلانٹ کے لیے ٹی ڈی اے پی نے بھی حکومت کو تجاویز دی ہیں جن میں پلانٹ نیلام کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈکے آئندہ اجلاس میں ان تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ یوایس ایڈ کے سربراہ پروجیکٹ اے ایم ڈی پیٹر ڈکریل نے پاکستان میں یوایس ایڈ کی معاونت سے چلنے والے زرعی منصوبوں کی معلومات دیں۔ سیمینار سے پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم امجد نے بھی خطاب کیا جبکہ ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل اعظم خان، ڈپٹی ڈائریکٹر محمد طارق خان، ایس ایم جی ای کے محمد نواز شاہ نے تکنیکی پریزنٹیشن پیش کیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔