دہشت گردی اور افغانستان کا امن
آپریشن ضرب عضب میں پاکستان کی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی ہے
دہشت گردی کے خطرات کثیرالجہتی ہیں اس لیے ان سے نمٹنے کے لیے خطے کے تمام ممالک کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا چاہئیں۔ فوٹو: فائل
ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد بہت سے رازوں سے پردہ اٹھتا چلا جا رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے گتھیاں سلجھتی جا رہی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ ملا اختر منصور پر ہونے والا ڈرون حملہ افغانستان سے کیا گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے افغان سفیر سے ملاقات کے موقع پر افغانستان سے ڈرون حملے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کو اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
21مئی کو بلوچستان کے علاقے احمد وال میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور سمیت دو افراد امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ شروع میں اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے شک و شبے کا اظہار کیا گیا کہ کیا ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والا شخص افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہیں بھی یا نہیں۔ بعدازاں ڈی این اے ٹیسٹ اور مختلف ذرایع سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ملا اختر منصور ہی اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ملا اختر منصور کے ساتھ ہلاک ہونے والے ٹیکسی ڈرائیور کے بھائی نے ڈرون حملے کا مقدمہ امریکی حکام کے خلاف نوشکی مل لیویز تھانے میں درج کرا دیا ہے۔
مدعی محمد قاسم کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی بے گناہ تھا اسے علم نہیں تھا کہ اس کی ٹیکسی میں سوار شخص ملا اختر منصور امریکا کو مطلوب ہے، اگر اسے علم ہوتا تو وہ کبھی اسے لے کر نہیں جاتا' امریکا کی طرف سے گاڑی کو نشانہ بنانا کسی طور درست نہیں اس کا بھائی بلاوجہ مارا گیا لہٰذا انھیں انصاف دلایا جائے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا' پاکستان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جا سکے' پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کر سکتا ہے لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا تاہم ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی' ڈرون حملوں سے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ملا اختر منصور کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے بہت سے سوالات اٹھائے گئے جس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان جنگجوؤں کی ایک تعداد پاکستان میں موجود ہے جو تشویشناک امر ہے لہٰذا پاکستان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ معترضین کے اعتراضات اپنی جگہ پر لیکن یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ لڑ رہا ہے جو شاید اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ ہے، آپریشن ضرب عضب میں پاکستان کی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی ہے۔
اس آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں چھپی ہوئی ہے ان بے چہرہ اور بے شناخت دہشت گردوں کے بارے میں معلوم کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ یہ معاشرے میں گھل مل چکے ہیں' اس لیے پاکستانی حکومت کو کسی بھی طور پر اس سلسلے میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا' پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوںکا سراغ لگانے اور ان کے عزائم ناکام بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ چند دنوں میں نہیں جیتی جا سکتی۔
یہ ایک طویل اور مشکل مرحلہ ہے۔ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا اتنا ہی آسان ہے تو پھر امریکا اور اس کی اتحادی فورسز اپنے تمام تر وسائل اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود افغانستان میں ایک طویل عرصے تک جنگ لڑنے کے باوجود امن کیوں نہیں قائم کر سکیں اور طالبان جنگجو اب بھی ان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور امریکا کو بھی ان ہی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اگر وہ افغان سرزمین سے چلا گیا تو افغان طالبان دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جب تک امریکا ، اس کی اتحادی فورسز اور افغان حکومت افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تب تک پاکستان سمیت پورا خطہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا رہے گا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول میں خطاب کرتے ہوئے اسی جانب توجہ دلائی کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خطرات کثیرالجہتی ہیں اس لیے ان سے نمٹنے کے لیے خطے کے تمام ممالک کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا چاہئیں۔
پاکستان تو افغانستان میں قیام امن کے لیے خلوص نیت سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر افغان حکومت کا جارحانہ اور متعصبانہ رویہ اس راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے جب تک افغان حکومت اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتی تب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس صورت حال کے تناظر میں افغانستان میں بدامنی کی ذمے دار بھی افغان حکومت اور امریکا ہی ہیں انھیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔
21مئی کو بلوچستان کے علاقے احمد وال میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور سمیت دو افراد امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ شروع میں اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے شک و شبے کا اظہار کیا گیا کہ کیا ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والا شخص افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہیں بھی یا نہیں۔ بعدازاں ڈی این اے ٹیسٹ اور مختلف ذرایع سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ملا اختر منصور ہی اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ملا اختر منصور کے ساتھ ہلاک ہونے والے ٹیکسی ڈرائیور کے بھائی نے ڈرون حملے کا مقدمہ امریکی حکام کے خلاف نوشکی مل لیویز تھانے میں درج کرا دیا ہے۔
مدعی محمد قاسم کا کہنا ہے کہ اس کا بھائی بے گناہ تھا اسے علم نہیں تھا کہ اس کی ٹیکسی میں سوار شخص ملا اختر منصور امریکا کو مطلوب ہے، اگر اسے علم ہوتا تو وہ کبھی اسے لے کر نہیں جاتا' امریکا کی طرف سے گاڑی کو نشانہ بنانا کسی طور درست نہیں اس کا بھائی بلاوجہ مارا گیا لہٰذا انھیں انصاف دلایا جائے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی نے کہا ہے کہ نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا' پاکستان کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جا سکے' پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کر سکتا ہے لیکن ان کا منہ توڑ جواب دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا تاہم ایسے حملوں کی کبھی اجازت نہیں دی جائے گی' ڈرون حملوں سے خطے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
ملا اختر منصور کے ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے بہت سے سوالات اٹھائے گئے جس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان جنگجوؤں کی ایک تعداد پاکستان میں موجود ہے جو تشویشناک امر ہے لہٰذا پاکستان کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔ معترضین کے اعتراضات اپنی جگہ پر لیکن یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر جنگ لڑ رہا ہے جو شاید اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ ہے، آپریشن ضرب عضب میں پاکستان کی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کی ہے۔
اس آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد ملک کے مختلف حصوں میں چھپی ہوئی ہے ان بے چہرہ اور بے شناخت دہشت گردوں کے بارے میں معلوم کرنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ یہ معاشرے میں گھل مل چکے ہیں' اس لیے پاکستانی حکومت کو کسی بھی طور پر اس سلسلے میں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا' پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں دہشت گردوںکا سراغ لگانے اور ان کے عزائم ناکام بنانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں لیکن اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ چند دنوں میں نہیں جیتی جا سکتی۔
یہ ایک طویل اور مشکل مرحلہ ہے۔ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا اتنا ہی آسان ہے تو پھر امریکا اور اس کی اتحادی فورسز اپنے تمام تر وسائل اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود افغانستان میں ایک طویل عرصے تک جنگ لڑنے کے باوجود امن کیوں نہیں قائم کر سکیں اور طالبان جنگجو اب بھی ان کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور امریکا کو بھی ان ہی سے سب سے زیادہ خطرہ ہے اور اسے خدشہ ہے کہ اگر وہ افغان سرزمین سے چلا گیا تو افغان طالبان دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ناگزیر ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جب تک امریکا ، اس کی اتحادی فورسز اور افغان حکومت افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوتیں تب تک پاکستان سمیت پورا خطہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا رہے گا۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی ہارورڈ یونیورسٹی کے کینیڈی اسکول میں خطاب کرتے ہوئے اسی جانب توجہ دلائی کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغانستان میں امن کا قیام ضروری ہے۔ دہشت گردی کے خطرات کثیرالجہتی ہیں اس لیے ان سے نمٹنے کے لیے خطے کے تمام ممالک کو مشترکہ طور پر کوششیں کرنا چاہئیں۔
پاکستان تو افغانستان میں قیام امن کے لیے خلوص نیت سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے مگر افغان حکومت کا جارحانہ اور متعصبانہ رویہ اس راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے جب تک افغان حکومت اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتی تب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس صورت حال کے تناظر میں افغانستان میں بدامنی کی ذمے دار بھی افغان حکومت اور امریکا ہی ہیں انھیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے۔