عوام کا تحفظ ناگزیر ہے

نسیم انجم  اتوار 26 جون 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

دنیا کے تمام ممالک میں حکومت اپنے عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار ہوتی ہے، ان کے مفاد اور خوشحالی، فلاح و بہبود کے لیے دن رات کوشاں رہتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے یہاں حکومت وقت اور مقتدر حضرات عوام کو کسی بھی قیمت میں خاطر میں نہیں لاتے ہیں، بس ہر حال میں اپنے ہی خزانے میں اضافہ کرنے میں دلجمعی کے ساتھ کوشاں رہتے ہیں، دو گز قبر کو بھول کر اپنے لیے محلات تعمیر کرتے ہیں، عوام بے چارے گاؤں، گوٹھ کے ہوں، یا شہر کے، افلاس میں زندگی بسر کرتے ہیں اور ضروریات زندگی کے لیے ترستے ہیں، محنت مزدوری یا دفاتر و کارخانوں میں کام کرکے جو ماہانہ رقم حاصل کرتے ہیں، حکومت اس رقم کو بھی ٹیکسوں کے ذریعے ہتھیا لیتی ہے، اس طرح اس ملک کی رعایا غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

علاج و معالجے تک کے لیے پیسہ میسر نہیں، تعلیم کا حصول بھی ناممکنات میں سے ہے، ان حالات میں بچوں کی پیدائش کے اخراجات بھی قرض کا باعث بن جاتے ہیں، بچوں کی بیماری، معذوری والدین کو مزید پریشان کردیتی ہے۔ بعض گھرانوں میں ایسے بچے جنم لیتے ہیں، جن میں کسی نہ کسی قسم کا نقص ہوتا ہے، اگر پیدا ہونے والا بچہ خواجہ سرا ہوا، نہ لڑکا اور نہ لڑکی تب والدین بہت سخت آزمائش میں مبتلا ہوجاتے ہیں، تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ہی اولاد کو اپنے اور اپنے گھرانے کی بدنامی کا باعث سمجھتے ہیں، بدنامی سے بچنے کے لیے اس بچے کو کبھی لڑکپن میں تو کبھی پیدا ہونے کے بعد دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اس طرح وہ بے قصور بچہ ماں باپ کی محبت و شفقت سے محروم رہتا ہے، صحیح تعلیم و تربیت نہ ملنے کی وجہ سے ناچ گانے کو اپنا پیشہ بنا کر ہیجڑوں کے گروہ میں شامل ہوجاتا ہے۔

ناکام، محروم اور پریشان حال بچہ ایام جوانی میں قدم رکھتا ہے، اس طرح گویا بربادی کی داستان شروع ہوجاتی ہے۔بچے کا خواجہ سرا کے طور پر پیدا ہونے میں نہ والدین کا کوئی قصور اور نہ بچے کا، بس اللہ کی مرضی کہ وہ انسان کو کسی بھی آزمائش میں مبتلا کردے۔ انسان کی زندگیوں میں مختلف شکلوں میں اﷲ کی طرف سے امتحانات یا آزمائشیں آتی ہی رہتی ہیں، صبر کا دامن تھامنے اور اپنے مالک کا شکر بجا لانے والے لوگ بھی اس دنیا میں موجود ہیں، بے شک تعداد میں کم ہیں لیکن ہیں ضرور، جو اللہ کی طرف سے دی ہوئی آزمائشوں پر پورا اترتے ہیں بے شک وہی فلاح پانے والے ہیں۔

ابھی حال ہی میں پشاور شہر میں خواجہ سرا علیشا کے قتل کا اندوہناک واقعہ پیش آیا، علیشا کو بھتہ نہ دینے کے جرم میں 9 گولیاں ماری گئیں، زخمی حالت میں اس کے ساتھی لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچے، وہاں پر عجیب صورتحال تھی کہ کوئی اس کا فوری علاج کرنے کے لیے تیار نہ تھا، ٹرانس سیکشن کی صدر فرزانہ نے بتایا کہ ایسے نازک موقع پر بھی ہمارا مذاق اڑایا گیا اور آوازیں کسی گئیں۔منتظمین کا یہ حال تھا کہ وہ یہ طے نہیں کر پا رہے تھے کہ علیشا کا علاج کس کمرے میں ممکن ہے، خون میں لت پت علیشا کو مختلف کمروں میں گھمایا جاتا رہا، اس کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندگی کی بازی ہار گئی۔

یقیناً یہ ایک انسان کی موت تھی، لیکن ستم ظریفی یہ کہ اسے کمتر اور حقیر مخلوق سمجھا جا رہا تھا، بے شک یہ بڑے دکھ کی بات ہے، کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہوتے، وہ بھی جذبات و احساسات رکھتے ہیں، اور وہ اشرف المخلوق میں شامل ہیں، لیکن ہمارے معاشرے کا رویہ قابل مذمت ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ برا کرتے ہیں، نفرت و ہتک آمیز رویے نے انھیں شکستہ کردیا ہے، علیشا کے انتقال کے موقع پر ایک خواجہ سرا نے عمران خان سے اپیل کی ہے کہ ’’انھیں انصاف فراہم کیا جائے‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہم بھی انسان ہیں، ہمارے ماں باپ ہمیں اپناتے نہیں ہیں، لوگ ہمیں جینے نہیں دیتے، تو ہم کہاں جائیں، بہتر ہے ہمیں مار دیا جائے۔‘‘ وہ زار و قطار روتا رہا۔ جب سے علیشا کا واقعہ پیش آیا ہے، میرے سامنے ایک خاص ناول کے کئی اوراق آکر ٹھہر گئے ہیں۔ یہ پورا ناول ہی خواجہ سراؤں کے حوالے سے ہے۔ اسی ناول سے ایک اقتباس:

’’جس وقت میت قبر میں اتاری جا رہی تھی عین اسی وقت گلو ٹیکسی سے اتری، اپنے اوپر کنٹرول نہ کرسکی اور مجمع کو چیرتی ہوئی قبر کے پاس پہنچ گئی، مجھے بھی منہ دکھا دو جی! اس نے روتے ہوئے کہا۔ارے، ارے یہ کہاں سے آگیا؟ ڈاکٹر صاحب بہت نیک انسان تھے، یہ پلید ہے، دور کرو اسے، اس کی موجودگی بدشگونی اور نحوست کا باعث ہے، مجمع میں سے مولوی صاحب کی آواز گونجی۔

یوں نہ کہو مولوی چاچا! ہم بھی انسان ہیں، بس قسمت کے مارے ہیں۔ تُو یہاں آیا کیوں ہے اور تیرا ڈاکٹر صاحب سے کیا لین دین تھا؟ کسی دوسرے شخص نے اسے قبر سے پرے دھکیلتے ہوئے کہا، وہ جی! میں نے ان سے علاج کرایا تھا، بس یہی ان کا احسان ہے مجھ پر، دوا دارو کے انھوں نے مجھ سے پیسے بھی نہیں لیے تھے۔ ایک نگاہ دکھا دو جی…دور سے آئی ہوں، اپنے محسن کو دیکھنے۔ (ناول ’’نرک‘‘ سے مصنفہ راقم السطور)۔ہمارے سماج میں خواجہ سراؤں کی اہمیت اور عزت نہ ہونے کے برابر ہے۔

شناختی کارڈ سے لے کر روزگار کے حصول تک وہ انسانوں کی برادری سے خارج کردیے جاتے ہیں۔ ٹھکرائے جانے کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، تخریب کار غیر قانونی سرگرمیوں میں انھیں ملوث کرنے پر مجبور کردیتے ہیں، ان کی محنت کی کمائی پر دہشت گرد اپنا حق جماتے ہیں، جیساکہ علیشا اور اس کی ساتھیوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے، بھتے کی شکل میں جبراً ان کی جمع پونجی چھین لی جاتی ہے، احتجاج کرنے پر گولیوں سے چھلنی کردیا جاتا ہے۔

خیبر میں گزشتہ مہینوں میں 42 خواجہ سراؤں کا قتل ہوا ہے، قاتل گرفتار ہوتے ہیں، پھر بھاری رشوت کے عوض یا تعلقات کی بنا پر چھوڑ دیے جاتے ہیں ان کی پشت پناہی بااثر لوگوں کے ذمے ہے۔ ہمارا قانون بے حد ناقص اور کمزور ہے، بڑی آسانی سے توڑ دیا جاتا ہے، قاتل جیل سے ضمانت پر رہا ہونے کے بعد دوسرے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں۔ کراچی کے غلام ربانی کو ضمانت پر رہا کردیا گیا، واضح رہے کہ غلام ربانی نے چند ماہ قبل اپنی ضعیف والدہ پر چھریوں سے وار کرکے انھیں ہلاک کردیا تھا، اسے بڑی آسانی سے رہائی مل گئی، سب بہن بھائی بھی یہی چاہتے تھے کہ ان کا قاتل بھائی جیل سے جلد سے جلد چھوٹ جائے۔

گویا ان سب کو اپنی ماں کے قتل کا غم نہیں تھا۔ جس بزرگی کے عالم میں اس شخص نے اپنی ماں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا، اس کی مثالیں کم کم نظر آتی ہیں۔ کمال کی بات یہ کہ قاتل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ اس کی اس حرکت اور گناہ کبیرہ سے زمین و آسمان کانپ گئے ہوں گے۔پاکستان اسلامی ملک ہے، لیکن اس اسلامی ملک میں اسلامی قوانین کا نفاذ ناممکنات میں سے ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ ہر دوسرا شخص بدعنوانی میں ملوث ہے، اگر کوئی نیک نیتی سے کام کرتا ہے تو اسے راستے سے ہٹانے کے لیے قتل کردیا جاتا ہے۔

کئی سال قبل خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈز کے اجرا کے لیے قوانین بنائے گئے تھے اور اس سلسلے میں کچھ کام بھی ہوا تھا، لیکن شناختی کارڈز بنانے کا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔ اس طرح وہ چھوٹی موٹی ملازمت سے بھی محروم رہے۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے اور انھیں روزگار فراہم کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ اگر اپنا ہی بھلا سوچنے اور دولت اکٹھی کرتے رہے تو بعدازمرگ اپنے مالک و خالق کو کیا منہ دکھائیں گے اور آگ کے عذاب سے کس طرح بچیں گے۔ لیکن دولت کی طلب نے انھیں فرعون و نمرود کی طرح عاقبت سے بے خبر کردیا ہے۔ اور یہ بہت بڑا خسارہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔