کراچی کی معاشی اور سماجی تقدیر کا فیصلہ

وفاقی حکومت کی ہدایت پر سیکیورٹی اداروں نے کراچی آپریشن کے اہم ترین مرحلے کا آغاز بھی کردیا ہے

وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین بہتر افہام وتفہیم اور اشتراک عمل سے ان عناصر اور غیر مقامی افراد کو ریگولیٹ کیا جا سکے گا۔ فوٹو: آئی این پی

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کراچی میں اتوار کی شب ہونے والے اعلیٰ سطح کے اجلاس کے حوالے سے فکر انگیز اشارے دیے ہیں اور ملکی امور اور کراچی میں دہشتگردی کے تناظر میں کئی زاویوں سے چشم کشا معروضات پیش کی ہیں۔

انھوں نے اعلان کیا کہ کراچی کے شہریوں کا ڈیٹا تیار کیا جائے گا، اس بات کا ریکارڈ رکھا جائے گا کہ کون مقامی ہے اور کون غیر مقامی ، گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی یکساں رجسٹریشن کے لیے وفاقی رجسٹریشن اتھارٹی قائم کی جائے گی، کراچی سیف سٹی منصوبے کے تحت مرحلہ وار کیمرے نصب کیے جائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف قومی بیانیہ جاری کیا جائے گا۔ پیر کو پریس بریفنگ دیتے ہوئے انھوں نے اپنے امید و ممکنہ بریک تھرو پر مبنی خیالات کا اعلان اس فیصلہ سے کیا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے سندھ پولیس میں2 ہزار سابق فوجیوں سمیت20ہزار اہلکار بھرتی کیے جائیں گے ۔

وزیر داخلہ نے شہر قائد میں سکونت پزیر خاندانوں اور اس انبوہ کثیر کے اعداد وشمار کی یکجائی کی احسن بات کی ہے جو شتر بے مہار اگر ہوا بھی ہے تو وفاقی و صوبائی حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث، آج کراچی دوڈھائی کروڑ نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے جس کا ڈیٹا ملک کی پہلی مردم شماری سے مربوط ہوتا تو آج کراچی کی صورتحال جرائم پیشہ افراد کی ایک بے ترتیب اربن افراتفری سے معمور شہری جنگل کی نہ ہوتی جہاں بھانت بھانت کے ملکی و غیر ملکی کرمنلز کا بازار لگا ہوا ہے،یہ دنیا کا پہلا منفرد شہر ہے جس میں داخلے کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں جس بھینسے کے جہاں سینگ سمائے وہ جگہ اسکی۔ یوں کراچی میں اسوقت لاتعداد کچھی آبادیوں کا سلسلہ قائم ہے جہاں محنت کشوں کے ساتھ ساتھ ان جانے لوگ اور بہ چہرہ دہشتگرد اپنے خفیہ ٹھکانوں اور نیٹ ورک کے ساتھ موجود ہیں، وزیر داخلہ نے دشمن کی بات کی ہے جو مایوسی پھیلانا چاہتا ہے۔

بدنام زمانہ گینگسٹر کارلیون نے کہا تھا کہ اپنے دوست کو قریب مگر دشمن کو قریب تر رکھنا، کراچی کا المیہ یہی ہے کہ اس کے دوست و دشمن کا ڈیٹا تیار نہیں ہوا، اب اس سمت میں ٹھوس اقدامات ہونگے تو دہشتگرد اور اس شہر کے ہمدردوں میں تفریق ممکن ہوسکے گی، دوسری اہم ضرورت فیصلوں پر عملدرآمد کی ہے، ماضی میں کئی اہم فیصلے ہوئے مگر بارآور ثابت نہ ہوسکے کیونکہ وفاق و صوبائی حکومتوں کی بنی نہیں، چپقلش اور سیاسی محاذ آرائی نہ ہو تو دہشتگردی سمیت جرائم کاروں کو دبوچنا مشکل نہیں ہوگا، مافیائی طاقتوں اور بے قابو مجرمانہ عناصر کو قانون کی حکمرانی سے ہی شکست دی جا سکتی ہے، کراچی میں دو المناک واقعات کے حوالے سے وزیر داخلہ نے یقین دلایا کہ امجد صابری کے قاتلوں کا سراغ لگایا جب کہ چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کو بازیاب کرایا جائے گا، کراچی میںسول ملٹری قیادت کی ملاقات ہوگی، شفافیت کے لیے بھرتی کے عمل میں فوج بھی شامل ہوگی، انھوں نے کہا کہ ہم حالت جنگ میںہیں اور دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ جیت رہے ہیں مگراس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہمیں نفسیاتی جنگ بھی جیتنا ہوگی۔


اس جانب خصوصی توجہ درکار ہوگی، کراچی اعصابی طور پر نڈھال ہے اسے نفسیاتی کمک کی بھی ضرورت ہے۔ وزیر داخلہ کے مطابق امریکا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں45 فیصد کمی آئی ہے جب کہ دہشتگردی کے واقعات میں ہونے والی اموات میں 39فیصدکمی آئی ہے،کراچی جرائم میں پہلے چھٹے نمبر پر تھا لیکن اب32 ویںنمبر پر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی آپریشن اپنے منطقی انجام کی طرف گامزن ہے ، وفاقی حکومت کی ہدایت پر سیکیورٹی اداروں نے کراچی آپریشن کے اہم ترین مرحلے کا آغاز بھی کردیا ہے ، سیکیورٹی ذرایع نے دعویٰ کیا ہے حساس ادارے معروف قوال امجد صابری کے قاتلوں کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ سندھ حکومت چیف جسٹس کے بیٹے کی بازیابی کے لیے کوشاں ہے۔ ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق دہشتگردوں کے خلاف 2خصوصی قوانین میں مزید 2 سال توسیع کا فیصلہ کیا گیا ہے، وزارت داخلہ نے وزیراعظم کو سمری ارسال کردی۔

واضح رہے انسداد دہشتگردی ترمیم ایکٹ 2014کی مدت 14 جون کو ختم ہوچکی جب کہ پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کی مدت 15 جولائی کو ختم ہورہی ہے ، دونوں قوانین کو دو سال کے لیے نافذ کے گیا تھا،اس کے تحت سول آرمڈ فورسز اور پولیس کو کسی بھی ملزم کو 90 روز تک حراست میں رکھنے کے علاوہ مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا اختیار بھی حاصل تھا لہٰذا اب قانونی اقدامات ناگزیر ہیں۔ شہر قائد کو امن کی ضرورت ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومت کے مابین بہتر افہام وتفہیم اور اشتراک عمل سے ان عناصر اور غیر مقامی افراد کو ریگولیٹ کیا جا سکے گا اور کراچی کے بارے میں یہ تاثر بھی ختم ہوسکے گا کہ یہاں لا قانونیت کو شکست دینے کے عزم کی کمی ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو قبول کرنے کے بعد اب اس حقیقت کا بھی ادراک کریں کہ کراچی کی سیاسی ، سماجی اور معاشی تقدیر بدلنے والی ہے۔
Load Next Story