الفاظ کوکبھی موت نہیں آتی

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 29 جون 2016

ہم سب تکالیف کے دریا میں بیچوں بیچ اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط کے مطابق بحفاظت اسے پارکرنے کی جدوجہد کر رہا ہے، ظلم تو یہ ہے کہ جب ہم دریا کے کنارے پر پہنچ جاتے ہیں تو موٹی موٹی توندوں والے عالیشان سوٹوں میں ملبوس اورمسحور کن خوشبو میں ڈوبے سرمایہ دار، جاگیردار، وڈیرے، بڑے بڑے بزنس مین، بلڈرز، بیوروکریٹس، ملا، بااختیار اور طاقتور سیاستدان واپس ہمیں دریا میں دھکیل دیتے ہیں۔ ہم پھر کو شش کرتے ہیں اور پھر واپس دھکیل دیے جاتے ہیں۔ دریا کے چاروں کناروں پر جو لوگ کھڑے ہیں وہ اگر چاہتے تو نجانے کب کے ہم دریا پار کر چکے ہوتے ہیں لیکن کریں تو کریں کیا اصل بات چاہنا ہی تو ہوتا ہے اور جو لوگ خود ہمیں دریا میں دھکیلنے کے ذمے دار ہیں وہ ہمیں بچا بھی کیسے سکتے ہیں اگر بچانا ہی مقصود ہوتا تو پھر پھینکتے ہی کیوں۔

روم میں ایک قصہ مشہور ہے کہ جب فلسفی شہنشاہ مارکیوز اور لیوس کا انتقال ہوا تو اولمپائی دیوتاؤں نے اس کے اعزاز میں پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں اس کے دائیں طرف شہنشاہ اگسٹس، طبرس اور ویسپا سین بیٹھے تھے جب کہ اس کے بائیں جانب دوسرے عظیم رومی شہنشاہ براجمان تھے ان میں نروا، ٹراجن، ہڈرین اوراس کا سوتیلا باپ انٹونی نس پیوس شامل تھے۔

نیرو اورکیلی گلا کو البتہ دروازے پر ہی روک لیا گیا تھا، اس ضیافت میں دیوتا جیوپیٹر نے ایک مقابلے کا اعلان کیا، جس کے ذریعے یہ طے کرنا مقصود تھا کہ ان میں سے عظیم ترین رومی شہنشاہ کون ہے۔ یہ سب شہنشاہ اس مقابلے میں امیدوار تھے، وہ باری باری اٹھے اور انھوں نے اپنے بارے میں مختصر تقریریں کیں۔ اکثر نے اپنی اپنی فتو حات کی شیخیاں بگھاریں۔ پھر مارکیو زاور لیوس کی باری آئی وہ کھڑا ہوا اس نے بس یہ کہا کہ ’’میں ایک معمولی سا فلسفی ہوں میرے دل میں کوئی تمنا ہے تو بس یہ کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔‘‘ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ اصل چیز چاہنا ہوتی ہے ایک طرف فلسفی شہنشاہ مارکیو ز اور لیوس کی تمنا ہے کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے اور دوسری طرف ہماری بدقسمتی اور بدنصیبی کہ ہمیں ایسے لوگ نصیب ہوئے ہیں جن کی تمنا یہ ہے کہ کوئی ان کی تکلیف سے محفو ظ نہ رہے۔

تکالیف کو جنم بھی خود دیتے پھرتے ہیں اور ان کے جوان ہونے پر دہائیاں بھی خود دیتے پھرتے ہیں یعنی قاتل بھی خود ہیں اور مقتول کے ورثاء بھی خود ہیں لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ یہ اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔

ان ہی کے لیے عظیم لو نجائنس نے کہا ہے ’’مزید غور کرنے پر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر ہم بے پناہ دولت حاصل کرنے کی قدرکرتے ہیں یا بات کو سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے یوں کہیں کہ اسے دیوتا سمجھتے ہیں تو پھر کیسے ہم ان برائیوں کو جو دولت سے وابستہ ہیں، اپنی روحوں میں سرائیت کر جانے سے روک سکتے ہیں کیونکہ بے شمار و بے حساب دولت کے ساتھ ساتھ قدم بہ قدم اصراف بے جا اور فضول خرچی آتی ہے اور جیسے ہی وہ شہروں اور گھروں کے دروازے کھول دیتی ہے، ویسے ہی دوسری برائیاں داخل ہو جاتی ہے اور وہاں اپنے گھر تعمیر کر لیتی ہیں وقت گزرنے پر وہ ہماری زندگیوں میں گھونسلے بنا لیتی ہیں اور جلدی بچے دینے لگتی ہیں ظاہر داری، بے جا غرور، آرام طلبی وعیش پسندی اس کے بچے ہیں جو حرامی بچے نہیں بلکہ اس کے جائز بچے ہیں اور دولت کے یہ بچے جب سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں سنگدل آقاؤں کی گستاخی، بدتمیزی، لاقانونیت اور بے حیائی و بے شرمی کو جنم دیتے ہیں۔

اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ نہ نظر اٹھا کر دوسروں کو دیکھیں گے اور نہ نیک نامی کا خیال کریں گے اور ان کی زندگی رفتہ رفتہ برباد ہو جائے گی‘‘۔ ایسے لوگ جو دولت کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں وہ دوسروں کو تکلیف میں مبتلا کر کے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جس کے لیے وہ ساری زندگی مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں اصل میں یہ خود اذیتی کی ہی ایک شکل ہے کیونکہ وہ اس احساس سے بھی مبرا ہیں کہ دوسروں کو تکلیف پہنچا کر کبھی بھی سکون حاصل نہیں ہو سکتا اور جب انھیں تسکین یا سکون نہیں مل پاتا تو وہ طیش میں آ کر اور زیادہ تکلیف پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اس طرح ان میں اور زیادہ بے سکونی اور بے چینی جنم لے لیتی ہے پھر وہ اور زیادہ طیش میں آ جاتے ہیں اور یہ سلسلہ آخری سانس تک اسی طرح جاری رہتا ہے۔

تاریخ میں نہ تو کبھی کردار مرتے ہیں اور نہ ہی کرداروں کے کردار کو موت آتی ہے کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج بھی فالج زدہ گورنر جنرل غلا م محمد اپنے بستر پر پڑا کراہا رہا ہے، کیا آج بھی اسکندر مرزا کی سازشیں زندہ نہیں ہیں۔ کیا صدر ایوب خان کی اقتدار سے محبت مر گئی ہے، کیا یحییٰ خان کے اقدامات کو موت آ گئی ہے، کیا ذوالفقار علی بھٹو سولی پر چڑھ گئے ہیں، کیا ضیاالحق کا قصہ تمام ہو گیا ہے، کیا محترمہ بے نظیر بھٹو قتل ہو گئی ہیں۔ نہیں بالکل نہیں ہمارے سب کردار اور ان کے کردار آج بھی زندہ ہیں وہ سب آپ میں اور مجھ میں سانسیں لے رہے ہیں آپ اور میں انھیں کبھی مرنے نہیں دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے آج کے کردار بھی ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کے کرداروں کو بھی کبھی موت نہیں آئے گی۔

ہماری تکالیف تو ایک روز ختم ہو ہی جائیں گی لیکن ہمارے دل سے نکلے الفاظ تمہارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ یاد رکھنا الفاظ کو بھی کبھی موت نہیں آتی ہے سب لفظ کہیں نہ کہیں جمع کیے جا رہے ہیں، اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ الفاظ کو کبھی موت نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔