افغان صورتحال اور امریکی انداز نظر
اگرامریکا،افغان حکومت اورنیٹوممالک کوخطےمیں امن واستحکام قائم کرنا ہےتووہ بھگوڑے طالبان رہنماؤں کو پاکستان کےحوالےکریں
افغانستان انتشار کا شکار اور دوبارہ مغرب کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد گروپوں کی آماجگاہ بن رہا ہے فوٹو: اے ایف پی/ فائل
UNITED NATIONS:
امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ صدر اوباما کی طرف سے افغانستان میں امریکی جنرل کو مزید اختیارات ملنے کے بعد وہ آزادی سے طالبان کے خلاف حملے کرسکتے ہیں۔ وہ گزشتہ روز غیرعلانیہ طور پر افغانستان پہنچے تھے۔ ایشٹن کارٹر نے اس موقع پر افغان فورسز کی کارکردگی کی بھی تعریف کی۔ واضح رہے 8 جولائی کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں نیٹو ممالک کا سربراہ اجلاس ہوا۔
جس میں افغانستان کی سیاسی،عسکری اور مالی امداد اور بھرپور حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور وارسا کے سیکریٹری جنرل اسٹون برگ نے کہا کہ وہ 2020ء تک افغانستان کی فنڈنگ جاری رکھیں گے، اجلاس میں برطانیہ نے افغانستان کی حمایت ، کینیڈا نے440 ملین ڈالر بشمول سویلین امداد دینے کا بھی وعدہ کیا، اس کے بعد افغان صدر اشرف غنی اور امریکی وزیردفاع ایشٹن کارٹر کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اشرف غنی نے پاکستان کو متنبہ کرنا شاید ضروری سمجھا کہ پاکستان کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ''برے اور اچھے'' دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے'' اشرف غنی نے امریکا اور افغانستان کے درمیان ''اعتماد کی فضا'' کو سراہا ہے۔
ایک طرف پینٹاگان کے سربراہ نے افغان فورسز کی قابلیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان شہریوں کی حفاظت اور ملکی سلامتی کی بہتر طور پر حفاظت کر سکتی ہے جب کہ بگرام ایئربیس پر خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرف سے مالی اور عسکری مدد کے بغیر افغان فورسز پورے ملک پر کنٹرول نہیں رکھ سکتیں۔ اسی تناظر میں امریکی وزیردفاع اور افغان صدر نے پاکستان کے کردار کے حوالے سے بھی خیالات کا اظہار کیا۔
کارٹر نے کہا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے گا لیکن ساتھ ہی انھوں نے ارشاد کیا کہ امریکا دہشت گرد رہنماؤں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں نشانہ بناتا رہے گا۔سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا روئے سخن کس جانب تھا۔انھوں نے کہا کہ جو دہشت گرد امریکی شہریوں، ہمارے مفادات اور ہمارے دوستوں کے لیے خطرہ بنیں گے انھیں نشانہ بناتے رہیں گے۔ یہاں امریکا کو حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ طالبان کے جن مفرور کمانڈروں نے پاکستان کی رٹ تسلیم نہیں کی اور دہشتگردی کا بازار گرم کیا وہی ملا فضل اللہ اور دہشت گرد افغانستان کے شاہی مہمان کے مزے لوٹ رہے ہیں، اصل میں تو محترم صدر غنی کو نہ کہ پاکستان کو یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ '' برے اور اچھے'' دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پاکستان تو افغان حکام سے بار بار مطالبہ کرچکا ہے کہ پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب سے ڈرکر افغانستان بھاگنے والے ان طالبان ماسٹر مائنڈز کو اس کے حوالہ کیا جائے، اگر امریکا ،افغان حکومت اور نیٹو ممالک کو خطے میں امن واستحکام قائم کرنا ہے تو وہ بھگوڑے طالبان رہنماؤں کو پاکستان کے حوالے کریں ۔ اشرف غنی نے امریکا اور افغانستان کے درمیان ''اعتماد کی فضا'' کو سراہا ہے ، چنانچہ پاکستان نے ان کے گزشتہ روز کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے بدنصیبی قرار دیا ہے ، ادھر خوش آیند پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکی ری پبلکن کانگریس مین ٹیڈ پو کے پاکستان پر الزامات کو پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے بر وقت مسترد کر دیا ۔
امریکی ری پبلکن کانگریس مین ٹیڈ پو نے ایک امریکی اخبار ''یو ایس نیوز ٹوڈے'' میں ایک بار پھر پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی جب کہ سی آئی اے کے پاکستان میں اسٹیشن چیف کو زہر دینے میں بھی پاکستان ملوث ہے۔حقیقت میں افغان صورتحال ، طالبان اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں تساہل اور دوعملی سمیت الزامات کا ایک جھوٹا پینڈورا بکس کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، منگل سے کانگریس کا ایک پینل اس سوال پر غورکر رہا ہے کہ پاکستان امریکا کا دوست ہے یا دشمن ۔ کتنا بڑا الزام ہے۔
اہل ظرف صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماںکیوں ہو''۔ افغانستان کو دل سے لگانے اور پاکستان پر بہتان طرازیوں کے سلسلے امن عمل سے اخلاص نیت کی کوئی نوید نہیں دے رہے کیونکہ معروف غیرملکی ادارے بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں تازہ انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے عراق سے فوج کے انخلا کی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں8500فوجی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان انتشار کا شکار اور دوبارہ مغرب کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد گروپوں کی آماجگاہ بن رہا ہے، امریکا کو افغانستان میں اپنی فورسز کو رکھنا ہوگا۔ پھر اس حسن نظر کا کیا جواب کوئی دے سکے گا کہ افغان فوج اور پولیس انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ طور پر فائٹنگ فورس بن چکی ہے، جب کہ اس کے اضمحلال اور ناکامیوں کے شواہد و آثار خود افغان میڈیا نے ظاہر کیے ہیں۔ کابل سے شایع ہونے والے انگریزی معاصر ''ڈیلی افغانستان'' نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ عالمی برادری افغانستان کو موجودہ بحرانی صورتحال میں تنہا نہ چھوڑے۔خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے۔
امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ صدر اوباما کی طرف سے افغانستان میں امریکی جنرل کو مزید اختیارات ملنے کے بعد وہ آزادی سے طالبان کے خلاف حملے کرسکتے ہیں۔ وہ گزشتہ روز غیرعلانیہ طور پر افغانستان پہنچے تھے۔ ایشٹن کارٹر نے اس موقع پر افغان فورسز کی کارکردگی کی بھی تعریف کی۔ واضح رہے 8 جولائی کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں نیٹو ممالک کا سربراہ اجلاس ہوا۔
جس میں افغانستان کی سیاسی،عسکری اور مالی امداد اور بھرپور حمایت کے عزم کا اعادہ کیا گیا اور وارسا کے سیکریٹری جنرل اسٹون برگ نے کہا کہ وہ 2020ء تک افغانستان کی فنڈنگ جاری رکھیں گے، اجلاس میں برطانیہ نے افغانستان کی حمایت ، کینیڈا نے440 ملین ڈالر بشمول سویلین امداد دینے کا بھی وعدہ کیا، اس کے بعد افغان صدر اشرف غنی اور امریکی وزیردفاع ایشٹن کارٹر کی مشترکہ پریس کانفرنس میں اشرف غنی نے پاکستان کو متنبہ کرنا شاید ضروری سمجھا کہ پاکستان کو ایک بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ''برے اور اچھے'' دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے'' اشرف غنی نے امریکا اور افغانستان کے درمیان ''اعتماد کی فضا'' کو سراہا ہے۔
ایک طرف پینٹاگان کے سربراہ نے افغان فورسز کی قابلیت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان شہریوں کی حفاظت اور ملکی سلامتی کی بہتر طور پر حفاظت کر سکتی ہے جب کہ بگرام ایئربیس پر خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرف سے مالی اور عسکری مدد کے بغیر افغان فورسز پورے ملک پر کنٹرول نہیں رکھ سکتیں۔ اسی تناظر میں امریکی وزیردفاع اور افغان صدر نے پاکستان کے کردار کے حوالے سے بھی خیالات کا اظہار کیا۔
کارٹر نے کہا کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے گا لیکن ساتھ ہی انھوں نے ارشاد کیا کہ امریکا دہشت گرد رہنماؤں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں نشانہ بناتا رہے گا۔سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا روئے سخن کس جانب تھا۔انھوں نے کہا کہ جو دہشت گرد امریکی شہریوں، ہمارے مفادات اور ہمارے دوستوں کے لیے خطرہ بنیں گے انھیں نشانہ بناتے رہیں گے۔ یہاں امریکا کو حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ طالبان کے جن مفرور کمانڈروں نے پاکستان کی رٹ تسلیم نہیں کی اور دہشتگردی کا بازار گرم کیا وہی ملا فضل اللہ اور دہشت گرد افغانستان کے شاہی مہمان کے مزے لوٹ رہے ہیں، اصل میں تو محترم صدر غنی کو نہ کہ پاکستان کو یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ '' برے اور اچھے'' دہشت گردوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پاکستان تو افغان حکام سے بار بار مطالبہ کرچکا ہے کہ پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب سے ڈرکر افغانستان بھاگنے والے ان طالبان ماسٹر مائنڈز کو اس کے حوالہ کیا جائے، اگر امریکا ،افغان حکومت اور نیٹو ممالک کو خطے میں امن واستحکام قائم کرنا ہے تو وہ بھگوڑے طالبان رہنماؤں کو پاکستان کے حوالے کریں ۔ اشرف غنی نے امریکا اور افغانستان کے درمیان ''اعتماد کی فضا'' کو سراہا ہے ، چنانچہ پاکستان نے ان کے گزشتہ روز کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے بدنصیبی قرار دیا ہے ، ادھر خوش آیند پیش رفت یہ ہوئی کہ امریکی ری پبلکن کانگریس مین ٹیڈ پو کے پاکستان پر الزامات کو پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے بر وقت مسترد کر دیا ۔
امریکی ری پبلکن کانگریس مین ٹیڈ پو نے ایک امریکی اخبار ''یو ایس نیوز ٹوڈے'' میں ایک بار پھر پاکستان پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دی جب کہ سی آئی اے کے پاکستان میں اسٹیشن چیف کو زہر دینے میں بھی پاکستان ملوث ہے۔حقیقت میں افغان صورتحال ، طالبان اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں تساہل اور دوعملی سمیت الزامات کا ایک جھوٹا پینڈورا بکس کھولنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں، منگل سے کانگریس کا ایک پینل اس سوال پر غورکر رہا ہے کہ پاکستان امریکا کا دوست ہے یا دشمن ۔ کتنا بڑا الزام ہے۔
اہل ظرف صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ''ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماںکیوں ہو''۔ افغانستان کو دل سے لگانے اور پاکستان پر بہتان طرازیوں کے سلسلے امن عمل سے اخلاص نیت کی کوئی نوید نہیں دے رہے کیونکہ معروف غیرملکی ادارے بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں تازہ انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر بارک اوباما نے عراق سے فوج کے انخلا کی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں8500فوجی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افغانستان انتشار کا شکار اور دوبارہ مغرب کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گرد گروپوں کی آماجگاہ بن رہا ہے، امریکا کو افغانستان میں اپنی فورسز کو رکھنا ہوگا۔ پھر اس حسن نظر کا کیا جواب کوئی دے سکے گا کہ افغان فوج اور پولیس انتہائی منظم اور پیشہ ورانہ طور پر فائٹنگ فورس بن چکی ہے، جب کہ اس کے اضمحلال اور ناکامیوں کے شواہد و آثار خود افغان میڈیا نے ظاہر کیے ہیں۔ کابل سے شایع ہونے والے انگریزی معاصر ''ڈیلی افغانستان'' نے اپنے اداریئے میں لکھا ہے کہ عالمی برادری افغانستان کو موجودہ بحرانی صورتحال میں تنہا نہ چھوڑے۔خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے۔