معاشرے کی تعمیر

عابد محمود عزام  پير 25 جولائی 2016

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کرسکتا جب تک ہر فرد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اپنی سطح پر معاشرے کی بہتری کے لیے کردار ادا نہ کرے۔ ہم میں سے ہر فرد معاشرے کو ایک مثالی معاشرہ بنانے کی خواہش اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے، لیکن سب کی یہ خواہش محض خواہش ہے،کیونکہ ہم عملی طور پر اپنی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کردار ادا نہیں کرتے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم صرف خواہش کریں اور کوئی دوسرا آکر ہماری تمناؤں کوپایہ تکمیل تک پہنچا دے، جب کہ ہم اپنا زیادہ زور دوسروں پر تنقید کرنے میں گزاردیتے ہیں۔

ہم میں سے ہرکوئی اپنی ذمے داری ادا کرنے کے بجائے دوسروں کو بدلنے کی فکر میں ہے ، حالانکہ کسی بھی معاشرے کی تعمیروترقی کا راز معاشرے کے افراد کے احساس ذمے داری میں پنہاں ہوتا ہے،اگر معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمے داری ادا کرے تو معاشرہ دنیا میں ہی جنت کا روپ دھار لیتا ہے، چار سو اطمینان ہی اطمینان کی فضا ہوتی ہے اور بے سکونی کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ امن، سکون، عدل و انصاف، تعلیم وصحت اورروزگار سمیت چھوٹی سے لے کر بڑی تک بے بہا قابل مدح صفات معاشرے کو میسرآجاتی ہیں، یہی صفات معاشروں کے عزت اور وقار میں اضافے کا سبب بنتی ہیں اور معاشرے کو بام عروج پر پہنچا کر چھوڑتی ہیں اور اگرکوئی معاشرے ان صفات سے محروم ہوجائے تو گویا وہ تعمیروترقی سے کوسوں دور ہے۔

کسی بھی معاشرے کا ہر فرد،گروہ، طبقہ یا جماعت یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے میں اچھی صفات کا نفاذ ہو،لیکن اس کے باوجود ہمارا معاشرہ ان تمام عناصر سے خالی نظر آتا ہے۔ یہاں نہ تو کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ ہی جان کی امان ہے۔ عدم برداشت کا یہ حال ہے کہ چھوٹی چھوٹی بات پر بات خون خرابے تک پہنچ جاتی ہے۔ عدل وانصاف کا نفاذ دور دور تک نظر نہیں آتا۔ غریب طبقہ عدل و انصاف سے یکسر محروم ہے۔ بدعنوانی کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ قومی خزانے پر مامور لوگ ہی خزانے کو لوٹنے میں مشغول ہیں۔

عوام کو ٹیکس ادائیگی کا درس دینے والا حکمران طبقہ ہی خود ٹیکس چوری میں ملوث ہے۔اقربا پروری مذہب سے لے کر سیاست تک تمام شعبوں میں سرایت کرچکی ہے۔ قوم کے مسیحا ڈاکٹر خدمت خلق کے بجائے عوام کی کھال اتارکر دولت کمانے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ قوم کے معماروں کو تیار کرنے والے اساتذہ کرام اپنی ذمے داریوں سے پہلے تہی برتنے میں مگن ہیں۔نوجوانوں کے علم حاصل کرنے کا مقصد محض بھاری آمدنی کا حصول ہے۔ کئی علماء مذہب کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مشغول ہیں اوراپنا مقصد نکالنے کے لیے قرآن و حدیث کو اپنے ہی من کی تشریح میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ بھکاری سے لے کر مملکت کے اعلیٰ مناصب تک اکثریت اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کو جائز حق سمجھتی ہے۔

انفرادی طور پر کوئی بھی فرد معاشرے کو نقصان پہنچانے والی قبیح صفات کو نہ صرف برا جانتا ہے، بلکہ برملا ان کی مذمت بھی کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر یہ تمام حقائق اپنی تمام برائیوں کے ساتھ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں، جس کی وجہ وہ معاشرتی رویہ ہے جس میں ہم پروان چڑھتے ہیں۔ عملی طور پر ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے چکے ہیں، جس میں اپنی ذمے داریوں کی احساس نہیں ہے اور یہ کسی طور پر قابل تعریف نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد معاشرے میں بہتری کا خواہاں ہے، لیکن چاہتا ہے کہ بہتری کے لیے کردار دوسرے ہی ادا کریں اور سوچ یہاں تک بن چکی ہے کہ جب ہم میں سے کوئی کہتا ہے کہ معاشرے کے تمام لوگوں کو اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے تو شاید بات کرنے والا خود کو مستثنیٰ خیال کرتا ہے۔

ہر فرد چاہتا ہے کہ ملک میں امن وامان کی فضا قائم ہو، لیکن جب اس کی باری آئے تو جذبات کے نام پر تھوڑا بہت دنگا فساد کرنے کی اجازت ملنے کی خواہش رکھتا ہے۔ ہر شہری تمنا رکھتا ہے کہ پولیس رشوت خوری بند کر کے صحیح طریقے سے اپنے فرائض کی انجام دہی کرے، لیکن جب بات اس تک پہنچے تو وہی پولیس رشوت لے کر اسے آزاد کر دے۔ ہر فرد کی خواہش ہے کہ اس کے ساتھ کوئی دھوکا نہ کرے، لیکن جب اس کی باری آئے تو اس کو دھوکا دہی کی اجازت ہونی چاہیے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی ہونی چاہیے، لیکن خود سمجھتا ہے کہ اس کو قوانین سے تھوڑی بہت روگردانی کی اجازت ہونی چاہیے۔

ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے غذا خالص ملے، لیکن اگر وہ خود غذائی سوداگر ہے تو اسے منافع کمانے کے لیے بہرحال تھوڑی بہت ملاوٹ کی اجازت دی جانی چاہیے۔ بیماری کی صورت میں ایک اچھا اور اسپیشلسٹ ڈاکٹر اس کا بنیادی حق ہے، لیکن اگر وہ وہ چاہے تو ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود بھی اس کوکلینک کھولنے کی اجازت ہونی چاہیے پھر چاہے۔ ہم میں سے ہرکوئی چاہتا ہے کہ ہمارے مذہب، مسلک، فرقے، جماعت اور رہنما کے خلاف کوئی بھی غیرمناسب زبان استعمال نہ کرے، لیکن ہم کو دوسروں کے مذہب، مسلک، فرقے، جماعت اوررہنما کے خلاف بدزبانی کرنے کی کھلی اجازت ہونی چاہیے۔اگر ہم کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں تو ہم بالکل حق پر ہیں، لیکن اگر کوئی ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائے تو اس کو سزا ملنی چاہیے۔غرض ہمارے پیمانے اپنے لیے اورہوتے ہیں اور دوسروں کے لیے اور ہوتے ہیں اور یہ دہرا معیار ہی معاشرے کی تباہی کا سبب بنتا ہے۔

یہ وہ سوچ ہے جو ہم میں سے ہرکوئی معاشرے کی رگوں میں انڈیل رہا ہے، حالانکہ جب تک ہم سب مل کر خود ہی قبیح رویوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کریں گے، اس وقت تک نہ تو یہ معاشرہ ٹھیک ہو گا اور نہ ملک میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ کسی قوم کو دنیا کی صف اول میں لا کھڑا کرنے اور عزت و شرف کی قبا پہنانے میں اس قوم کے افراد کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اگر افراد اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے قبیح صفات سے نجات حاصل کریں اور بہترین صفات کو اپنائیں تو کچھ بعید نہیں کہ ملک دنوں میں ترقی کی منازل طے کر لے اور ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔

زبانی دعوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، بلکہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ کس نے کتنا عمل کیا ہے، کیونکہ ہمیشہ عمل سے ہی زندگی بنا کرتی ہے، زبانی دعوے کرنے والے ہمیشہ خیالی پلاؤ ہی پکاتے رہتے ہیں۔اگر ہم سب بحیثیت مجموعی اپنے مقام، اہمیت اور معاشرتی ذمے داریوں کو سمجھتے ہوئے ایک مثبت معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں تو بہت جلد منزل آسان ہو جائے گی اور کامیابی ہمارے پاؤں کی دھول بن جائے گی، لیکن اجتماعی مسائل کاحل کسی ایک فرد کے پاس نہیں ہوتا، بلکہ اجتماعی مسائل کو اجتماعی طور پر ہی حل کیا جاتا ہے۔معاشرے کو احساس ذمے داری کی ضرورت ہے، اگر تمام لوگ اپنی ذمے داری ادا کرنا شروع کردیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اس سے نہ صرف معاشرے کے ہر فرد کے لیے کامیابی حاصل کرنا انتہائی آسان ہو جائے گا، بلکہ ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے بہت جلد اوج ثریا پر جا پہنچے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔