ہم سب بھلا دیے گئے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 27 جولائی 2016

سارتر نے کہا تھا ’’زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے‘‘۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ 95 فیصد پاکستانی سارتر کی اس بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے اور اسی غلاظت نے آج 95 فیصد پاکستانیوں کو جکڑ رکھا ہے۔ میرے ملک کے بااختیاروں، طاقتوروں اور اہل ثروت یہ بات تمہارے سوچنے کی ہے اور بار بار سو چنے کی ہے۔ لیکن کیا کریں تمہارے سوچنے کی صلاحیت بھی سلب کر لی گئی ہے، جس نگری میں عقل اور شعور گھنگھرو باندھ لیں تو پھر وہاں نفس ناچتا ہے، ایمان ناچتا ہے، انسانیت ناچتی ہے۔

پھر وہاں جسم بکتے ہیں، جسم کے اعضا بکتے ہیں، خواہشیں بکتی ہیں، خوابوں اور آرزؤں کی بولیاں لگتی ہیں، پھر احساسات اور جذبات نیلام ہوتے ہیں، انسان اپنی ضروریات اور آرزوؤں کا قتل عام کرتے ہیں اور قاتل بن جاتے ہیں۔ اب ہم سب قاتل بن چکے ہیں، بے رحم اور سفاک قاتل۔ وہ قاتل جو سب پریشانیوں کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں، جن پر چاروں طرف سے اذیت برس رہی ہے۔ مدر ٹریسا نے ایک بار کہا تھا ’’ان بیس برسوں میں لوگوں کے درمیان رہ کر کام کرنے کے دوران مجھے اس بات کا زیادہ احساس ہوا ہے کہ کسی انسان کا غیر ضروری ہو جانا ایسی خراب بیماری کے برابر ہے انسان کو جس کا کبھی تجربہ بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔

آج کل کی خراب ترین بیماری کوڑھ، تپ دق یا کینسر نہیں بلکہ یہ احساس ہے کہ اس کی اب کسی کو ضرورت نہیں رہی اور جس کو ہر شخص بے یارو مددگار چھوڑ دے۔ مدر ٹریسا نے 1979ء میں نوبیل انعام وصول کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا تھا ’’میں نہیں بھول سکتی جب مجھے ایک گھر میں جانے کا موقع ملا تھا، جہاں بیٹوں اور بیٹیوں کے بوڑھے ماں باپ تھے، وہ لوگ جنھیں ایک ادارے میں ڈال کر شاید بھول گئے تھے، میں وہاں گئی اور میں نے دیکھا کہ اس گھر میں ان کے واسطے سب کچھ موجود تھا، ہر طرح کی خوب صورت چیزیں تھیں، مگر ہر شخص دروازے کی طرف تکتا رہتا تھا۔

میں نے کسی ایک کے بھی چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی، میں نے ایک بہن سے پوچھا ایسا کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ یہاں سب کچھ ہے مگر لوگ دروازے کی طرف تکتے رہتے ہیں، یہ مسکراتے کیوں نہیں؟ میں تو لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنے کی اتنی عادی ہوں مرتے ہوئے لوگوںکے لبوں پر بھی۔ پھر انھوں نے کہا یہ تقریباً ہر روز ہوتا ہے کہ وہ انتظار کرتے ہیں، امید کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے ملنے آئے گی، ان کو دکھ ہوتا ہے کہ وہ بھلا دیے گئے ہیں‘‘۔

دنیا کی سب سے بڑی اذیت اسی غیر ضروری اور بھلا دینے میں چھپی ہوئی ہے، اگر آج مدر ٹریسا زندہ ہوتیں تو ہم بیس کروڑ انسان ان کے پاس جاکر رو رو کر اپنی آپ بیتی سناتے کہ تم تو صرف چند ہزار انسانوں کے غیر ضروری یا بھلا دینے پر اذیتوں کی آگ میں جلتی تھیں، ہمیں دیکھو، ہماری سنو، ہم چند ہزار یا لاکھ نہیں بلکہ بیس کروڑ وہ انسان ہیں جو سب کے سب غیر ضروری ہیں، جو سب کے سب بھلا دیے گئے ہیں، جنھیں کوئی نہیں پوچھتا، جن کی کوئی خبر نہیں لیتا، جن کے پاس کوئی نہیں آتا، جن کی تمام جگہیں دوزخ بن چکی ہیں۔

کیرک گرد نے یہ ہمارے لیے ہی لکھا ہے ’’میں کبھی بھی بچہ نہ تھا، میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا، میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا، میں کبھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا، زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغو ہے، کوئی کسی کو دفن کرتا ہے، کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے، کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے، آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی، کیوں نہ اس زندگی کا فوری طور پر خاتمہ کر دیا جائے، کیوں نہ آدمی قبرستان میں ہی ڈیرے ڈال دے، کیوں نہ قبر میں گھس جائے‘‘۔

آئیں والٹیئر کا ایک قصہ پڑھتے ہیں ’’ٹولاوز میں جین کالاز ایک پروٹسٹنٹ اپنے کبنے کے ساتھ رہتا تھا، اس کی ایک دکان تھی، ایک دن کالاز کا بیٹا مایوسی کے عالم میں دکان گیا اور چھت سے رسہ باندھ کر خودکشی کر لی۔ اہل خانہ کو جب پتہ چلا تو انھوں نے اسے فوراً نیچے اتارا اور ڈاکٹر کو بلایا، لیکن لڑکا ختم ہو چکا تھا۔ اس وقت خودکشی کرنے والوں کے لیے فرانس کا قانون بہت سخت تھا، خودکشی کرنے والے کی لاش کو ننگا کر کے گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا اور آخر میں لاش کو پھانسی دی جاتی تھی۔

بیٹے کی لاش کو بے حرمتی سے بچانے کے لیے جین کالاز نے اس کو قدرتی موت بتا کر دفن کرنے کی کوشش کی لیکن معاملہ کھل گیا اور پولیس پہنچ گئی۔ کسی کیتھولک نے یہ افوا پھیلا دی کہ لڑکا کیتھولک عقیدہ قبول کر چکا تھا لہٰذا اسے اس کے پروٹسٹنٹ گھرانے نے قتل کر دیا۔ بغیر کچھ سوچے سمجھے جین کالاز اور اس کے اہل خانہ کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔

اس کے بیٹے کو کیتھولک سمجھتے ہوئے نہایت عزت کے ساتھ دفنایا گیا۔ عدالت کے لیے کالاز کا پروٹسٹنٹ ہونا ہی کافی تھا، سارے گھرانے کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، اپیل کی گئی جس میں صرف جین کالاز کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی لیکن مکمل ثبوت نہ ملنے کی وجہ سے یہ حکم دیا گیا کہ تشدد کے ذریعے کالاز سے اقبال جرم کرایا جائے۔ کالاز پر انسانیت سوز بھیانک تشدد کیا گیا، اس کے بازوؤں اور ٹانگوں میں رسے باندھ کر اس قدر کھینچا گیا کہ ہڈیوں کے سارے جوڑ جوڑ ٹوٹ گئے، لیکن کالاز یہ کہتا رہا کہ وہ بے قصور ہے، پھر اسے عوام کے سامنے گرجا گھر کے آگے صلیب پر چڑھایا گیا اور اس کے ہر ہر جوڑ میں لوہے کی میخیں ٹھونکی گئیں۔ کالاز حضرت عیسیٰ کو پکارتا رہا اور عدالت کے نمایندے قہقہے لگا تے رہے۔

اس کی لاش کو پھانسی دی گئی اور آخر میں اسے جلا دیا گیا۔ اس کا خاندان منتشر ہو گیا لیکن کالاز کی ایک بیٹی کسی طرح والٹیئر تک پہنچ گئی، سارا واقعہ سننے کے بعد والٹیئر تڑپ اٹھا، اس کی ساری ظرافت ہوا بن کر اڑ گئی اور اس نے مسکرانا بھی چھوڑ دیا۔ مذہب کی آڑ میں بربریت کی انتہا اور لوگوں کی خاموش تماش بینی کو دیکھ کر اس نے پختہ تہیہ کیا کہ وہ یورپ کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائے گا اور کالاز کو بے گناہ قرار دلوائے گا اور تین سال کی مسلسل اور ان تھک جدوجہد کے بعد اعلیٰ عدالت نے کالاز کو بے گناہ قرار دے دیا اور والٹیئر رو دیا۔‘‘

صرف ایک خاندان پر انسانیت سوز مظالم پر والٹیئر نے مسکرانا چھوڑ دیا تھا اور دوسری طرف ہمارے طاقتور، بااختیار اور اہل ثروت حضرات کی سفاکیت اور بربریت ملاحظہ فرمائیں کہ وہ سب 20 کروڑ انسانوں پر انسانیت سوز مظالم کرنے کے باوجود نہ یہ کہ صرف ہنس رہے ہیں بلکہ ان کی بے بسی و بے کسی پر قہقہے بھی لگا رہے ہیں، اور حد تو یہ ہو گئی ہے کہ ان کا مذاق بھی اڑاتے پھرتے ہیں، کیونکہ یہ بیس کروڑ انسان آخرکار تمہیں ڈھونڈ ہی لیں گے اور اپنی ایک ایک اذیت کا حساب لے لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔