ارے ! آمریت، جمہوریت تو جڑواں نکلیں

سید معظم حئی  بدھ 10 اگست 2016
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

بات کا بتنگڑ بنانا کوئی ہم سے سیکھے۔ اندھا دھند بولنے کے ہم شوقین پاکستانی ایک عام سے سیدھے سادھے معاملے کو بھی الٹا سیدھا ٹیڑھا میڑھا کر کے پیش کرنے میں اپنا کمال و جمال سمجھتے ہیں۔ آپ آمریت جمہوریت کی بحث کو ہی لے لیجیے۔ دونوں اطراف کے حامی ادھر ادھر کی اڑاتے اور لمبی لمبی چھوڑتے ہیں کام کی بات نہیں کرتے۔ سیدھی سی بات ہے آپ ہمارے ہاں آمریت اور جمہوریت کے درمیان موجود فرق نکال لیجیے تو صاف پتہ چل جائے گا کہ ہمارے لیے آمریت بہتر ہے یا جمہوریت۔

چلیے ہم حکمرانوں سے شروع کرتے ہیں جیسے کہ یہ کہ ایک آمر خود کو، اپنے خاندان اور یاردوستوں کو آئین و قانون سے اعلیٰ وارفع سمجھتا ہے اور ایک جمہوری حکمران جی وہ بھی ایسا ہی سمجھتا ہے۔ جمہوری حکمران اپنے پیاروں کا ایک چھوٹا سا گروپ، ایک کچن کیبنٹ بنا کر حکومت کرتا ہے تو آمر بھی یہی کرتا ہے۔ جمہوری حکمران اپنے کسی وزیر کوکارکردگی کی بنیاد پر کبھی برطرف نہیں کرتا،آمر بھی نہیں کرتا۔آمر اسمبلی میں شاذ و نادر ہی قدم دھرتا ہے جمہوری حکمران بھی اسمبلی کا کبھی کبھار ہی رخ کرتا ہے۔ جمہوری حکمران اس ملک کے دوسرے ملکوں سے تعلقات مضبوط بنانے کی نسبت ان کے حکمرانوں سے ذاتی تعلقات قائم کرتا ہے اور آمر بھی ایسا ہی کرتا ہے۔

آمر اپنے ذاتی مفاد و ذاتی اقتدار کے لیے NRO کرتا ہے تو جمہوری حکمران میثاق کرپشن المعروف مک مکا اور اٹھارہویں ترمیم کرتا ہے۔ جمہوری حکمران اپنا علاج باہرکراتا ہے آمر بھی یہی کرتا ہے۔ جمہوری حکمران بیرون ملک جائیدادیں رکھتا ہے آمر بھی رکھتا ہے آمر کا ایک ایک غیر ملکی دورہ اس قرضوں تلے دبے ملک کو کروڑوں کا پڑتا ہے جمہوری حکمران کا بھی یہی سلسلہ ہے۔

جمہوری حکمران پسندیدہ صحافیوں کو نوازتا اور ناپسندیدہ کو پھٹکارتا ہے آمر بھی یہی کرتا ہے۔ آمر عملیت پسندی کا نعرہ لگا کے اپنے وعدوں سے پھر جاتا ہے جمہوری حکمران کبھی وعدے قرآن و حدیث نہیں کہہ کر توڑتا ہے کبھی لٹیروں سے قومی دولت اگلوانے کے وعدوں پہ جن کو لٹیرا کہتا تھا انھی سے ان وعدوں پہ معذرت کرتا ہے۔ جمہوری حکمران آمر کے سابق ساتھیوں، لوٹے لوٹیوں کو ساتھ ملاتا ہے تو آمر سابق جمہوری حکمران کے ساتھیوں لوٹے لوٹیوں کو حکومت میں شامل کرتا ہے۔ آمر احتساب کا نعرہ لگاتا ہے کرتا نہیں، جمہوری حکمران اب ایسا نعرہ بھی نہیں لگاتا۔

آمر اپنے علاوہ ساتھیوں کی کرپشن بھی نظرانداز کرتا ہے جمہوری حکمران بھی یہی کرتا ہے۔ آمر چند مخصوص علاقوں کو اہمیت دیتا باقی کو نظرانداز کرتا ہے جمہوری حکمران بھی اپنے علاقے پہ فوکس کرتا ہے۔ آمرکے VVIP پروٹوکول کی وجہ سے ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینس میں پڑی یونیورسٹی کی طالبہ جان سے جاتی ہے تو جمہوری حکمران کے VVIP پروٹوکول کی وجہ سے اسپتال کے دروازے پہ زبردستی روک دیے گئے باپ کے بازوؤں میں چھوٹی بچی دم توڑتی ہے۔

چلیے اور آگے چلتے ہیں، آمر کی حکومت اپنی اقتصادی پالیسیوں سے آمرکے مخصوص دوست کاروباری لوگوں کو نوازتی ہے۔ جمہوری حکمرانی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جمہوری دور میں کرپشن بڑھتی اور پھیلتی ہے آمر کے دور میں بھی پھیلتی پھولتی ہے۔ آمریت میں ملکی قرضے بڑھتے ہیں جمہوری دورمیں کئی کئی گنا بڑھتے ہیں جمہوری دور میں کرپشن خصوصاً اعلیٰ سطح کرپشن کے خلاف طرح طرح کے حیلے بہانوں سے کارروائی نہیں ہونے دی جاتی نہ ہی آمرانہ دور میں اور جناب آمرانہ دور میں چند سو کی چوری کرنیوالا جیل جاتا ہے اورکروڑوں اربوں ملک کے لوٹنے والا لوٹ میں سے کچھ مال پلی بارگین میں واپس کرکے عیش کرتا اورVIP کہلاتا ہے ارے لیجیے جمہوریت میں بھی یہی چلتا ہے اور جمہوریت میں بینکوں کے اربوں کے قرضے معاف کرانے والے بینکوں کے سینے پر مونگ دلتے ہیں اور بینکوں کے پالے افراد چند ہزارکا قرضہ لینے والوں کی زندگی دوبھر کرتے ہیں یہی آمریت میں ہوتا ہے۔ آمر اپنی حکمرانی کے بعد دبئی، لندن امریکا میں رہتا ہے جمہوری حکمران بھی سابق ہونے کے بعد وہیں نظر آتا ہے۔

جمہوری حکمران کے بچے بیرون ملک رہتے ہیں آمر کے بھی اس ملک کو اپنے زیادہ دیر رہنے کے قابل نہیں سمجھتے۔ آمرانہ دور کے الیکشن میں دھاندلی ہوتی ہے، جمہوری دور میں بھی ہوتی ہے، 2008ء کے الیکشن ، الیکشن کمیشن کے مطابق 37 ملین جعلی ووٹوں کی موجودگی میں ہوئے اور بارے 2013ء کے الیکشن کے کہا جاتا ہے کہ ہر ہی حلقے میں تقریباً ہزاروں غیر تصدیق شدہ ووٹ موجود تھے۔ جمہوری دور میں قومی اسمبلی کے زیادہ تر ارکان قومی اسمبلی کے اجلاس میں آتے ہی نہیں، جو آتے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر حصہ نہیں لیتے البتہ اپنی تنخواہیں اور مراعات کے لیے سب مل کر چستی و پھرتی سے بل پہ بل چٹکیوں میں پاس کرا لیتے ہیں، جی بالکل ایسا ہی آمرانہ دور میں ہوتا ہے۔

آمر صوبوں کو حقوق نہیں دیتا شہروں کو دیتا ہے۔ جمہوری حکمران شہروں کو حقوق نہیں دیتا صوبوں یا ان کے مخصوص لسانی علاقوں کو دیتا ہے جیسے وڈیرہ جمہوریت نے کراچی کو تباہ کیا۔ آمرانہ دور میں پولیس اکثر ظالموں اور جرائم پیشہ لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جیسے جمہوری دور میں دیتی ہے۔ جمہوری دور میں VIP اپنی ڈیوٹی دینے والے سرکاری اہلکاروں کو ایسے ذلیل کرتے ہیں جیسے VIP آمرانہ دور میں کرتے ہیں۔

آمرانہ دور میں سرکاری دفتروں میں رشوت چلتی ہے جیسے جمہوری دور میں چلتی ہے۔ جمہوری دور میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جیسے آمرانہ دور میں ہوتی ہے۔ آمرانہ دور میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی، ملاوٹ سے پاک کھانا،اصلی دوائیاں، سستا اور اچھا علاج معالجہ نہیں ملتا نہ ہی جمہوری دور میں ملتا ہے۔ جمہوری دورمیں بنی سڑکیں ٹوٹ اور پل گر جاتے ہیں آمرانہ دور میں بھی یہی ہوتا ہے۔ آمرانہ دور میں لینڈ مافیا زمینیں کھا جاتی ہے جمہوری دور میں بھی کھاتی چلی جاتی ہے بلکہ نئی نئی مافیا جیسے وڈیرہ راج کی کالونی کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا ابھر کر سامنے آتی ہے۔

آمرانہ دور میں بھی اسٹریٹ کرائم بڑھتے ہیں جمہوری دور میں بھی۔ جمہوری دور میں بھی غلہ اجناس مویشی افغانستان اسمگل ہوجاتے ہیں اور ملک میں مہنگے بکتے ہیں آمرانہ دور میں بھی ایسا ہی چلتا ہے۔ ارے، ارے یہ لسٹ تو ختم ہونے کو نہیں آرہی کالم کی جگہ البتہ ختم ہوگئی لیکن ذرا دیکھیے تو ہمارے ہاں تو آمریت سے مختلف اور بہتر ہوگی پھر جمہوریت آٹھ دس سال برداشت کرتے ہیں اور مایوس ہوکر پھر آمریت کا نعرہ لگاتے ہیں پھر آٹھ دس سال برداشت کرتے ہیں اور مایوس ہوکر پھر آمریت کا نعرہ لگاتے ہیں پھر آٹھ دس سال بعد پھر جمہوریت اور پھر آٹھ دس سال بعد آمریت کی امید لگاتے ہیں۔ آپ دیکھیں آج کل لوگ پھر امید لگا رہے ہیں مگر ’’جمہوریت‘‘ جیسی ’’آمریت‘‘ اور ’’آمریت‘‘ جیسی ’’جمہوریت‘‘ کی جگہ اب بہت سے لوگ کچھ نیا، کچھ اوریجنل چاہتے ہیں۔ جڑواں بہنوں سے تو اب اکتاہٹ سی ہو گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔